گورنر صاحب ’معیار ظلم‘ تو نہ بدلیں!

رضوان طاہر مبین  جمعرات 20 اکتوبر 2016
خدارا! ظلم کو تو یکساں طور پر ظلم کہیں اور ہر سانحے کو سانحہ سمجھیں۔ کم سے کم بطور گورنر تو ایسے رویے کا مظاہرہ نہ کریں، جس سے ایسا محسوس ہو کہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے مظلومین کے معیار بدل گئے ہیں۔

خدارا! ظلم کو تو یکساں طور پر ظلم کہیں اور ہر سانحے کو سانحہ سمجھیں۔ کم سے کم بطور گورنر تو ایسے رویے کا مظاہرہ نہ کریں، جس سے ایسا محسوس ہو کہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے مظلومین کے معیار بدل گئے ہیں۔

امام الہند جناب ابوالکلام آزاد نے درست ہی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور 14 برس سے سندھ کی گورنری پر متمکن ڈاکٹر عشرت العباد اور سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے تیز و تند بیانات سے یہ بات پھر ثابت ہوگئی۔

رواں برس مارچ میں متحدہ قومی موومنٹ سے انحراف کے بعد پہلی بار مصطفی کمال نے گورنر سندھ کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال کی کہ اپنے کم گو ہونے کا گہرا تاثر قائم کرنے والے ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دینا پڑا۔ مصطفی کمال سے حساب بے باق کرتے ہوئے انہوں نے جہاں انہیں آڑھے ہاتھوں لیا وہیں ان کے دور نظامت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا اور اُسے مایوس کن قرار دیتے ہوئے اُن سے پہلے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان کے دور کو تیز رفتار دور قرار دیا۔

سیاسی اتفاق اور اختلاف اپنی جگہ پر، لیکن اگر اچھی چیزوں کی پذیرائی نہ کریں تو کم سے کم ان سے نظریں بھی نہیں چرانی چاہئیں، چاہے وہ ہمارے مخالفین کی ہی کیوں نہ ہوں۔ اس عمل کو عام زندگی میں بھی اصول پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ اگر مصطفی کمال کا دور مایوس کُن اور نعمت اللہ کا دور متاثر کُن تھا، تو اس بات کے بھرپور اظہار کے لیے مصطفی کمال کی مخالفت کی ہی ضرورت کیوں پڑی؟ حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش دو مختلف جماعتوں کے ناظمین کے ادوار میں کراچی کے لیے بے مثال ترقیاتی کام ہوئے، جن کا اعتراف دونوں جماعتوں کے معتدل حلقے کرتے بھی ہیں۔ دراصل 2001ء کے بلدیاتی نظام میں ناظمین کو بھرپور اختیارات حاصل تھے، جس کے نتیجے میں یہ تعمیراتی کام ممکن ہوئے، اس کا سہرا پرویز مشرف کے سر ہے، مگر ان کا نام لینے سے شاید گورنر کا عہدہ خطرے میں پڑجاتا، اس لیے چپ سادھی۔

کراچی میں ناظمین کی تبدیلی ترقیاتی کاموں پر اثر انداز نہیں ہوئی۔ مصطفی کمال کی کارکردگی کی بناء پر ان کا نام دنیا کے تین بہترین میئرز میں شامل ہوا۔ متحدہ کے مخالفین نے بھی انہیں مانا۔ ایسے میں اُن کے نظریات سے اختلاف یا اُن کی سخت تنقید کی وجہ سے اُن پر خط تنسیخ پھیر دینا نرم سے نرم الفاظ میں بھی زیادتی کے زمرے میں آئے گا۔ اگر اُس دور میں بدعنوانی ہوئی ہے تو اتنے عرصے بعد اس کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے؟ نعمت اللہ خان نے اپنی نظامت میں کراچی کے لیے خوب کام کیا تو اسے سراہنے کا خیال اُن کا دور گزرنے کے 10 سال بعد کیوں آرہا ہے؟ وہ بھی فقط مصطفی کمال کو جواب دینے کی خاطر! کیا کسی کی تعریف و تنقید کے لیے ہم محض سیاسی مخالفت کا انتظار کیا کریں گے؟ حیرت تو تب ہوئی، جب گورنر سندھ کی سخت ترین ناقد جماعت اسلامی کے حلقوں نے بھی ان کی نعمت اللہ خان کی تعریف کو سماجی ذرایع اِبلاغ پر مشتہر کیا، گویا اُن کے کام کو گورنر کے الفاظ سے ہی سند ملی!

گورنر سندھ نے پہلی بار سیاسی لب کشائی کی تو اس موقع پر سانحہ 12 مئی، سانحہ بلدیہ آتشزدگی، حکیم محمد سعید اور عظیم احمد طارق کے قتل کے مقدمات کے حوالے سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔ مگر انہیں کراچی کی لہو رنگ تاریخ میں 1965ء اور 1972ء کے لاوارث مقتولین یاد نہ رہے۔ چلیے یہ تو ’بہت پرانی‘ بات ہوئی! مگر آپ تو کراچی کی بدترین خوں ریزی سانحہ قصبہ علی گڑھ (1986ء) کے مظلومین کے نام لیوا تھے، جس میں 250 سے 300 ہلاکتیں ہوئیں۔ سانحہ حیدرآباد (1988ء) اور سانحہ پکا قلعہ (1990ء) میں نشانہ بننے والے بھولے رہے۔ یہ کوئی سیاسی تصادم نہیں تھے۔ یہ براہ راست آبادیوں اور نہتے شہریوں پر حملے تھے، یہ بھی مظلوم خواتین اور بچوں کا قتل تھا، قصبہ اور علی گڑھ میں تو لوگوں کو زندہ جلایا گیا تھا۔ مگر افسوس گورنر بننے سے پہلے وہ جن مظلومین کا نوحہ کہتے نہ تھکتے تھے، آج اختیار ملنے پر ان کا نام بھی لب پر لانا گوارا نہ کیا۔

تاریخ کی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جس دن گورنر سندھ یہ سب گفتگو فرما رہے تھے، عین اسی دن (19 اکتوبر) کو شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کے سانحے کی بھی چھٹی برسی تھی، مگر ان سے اس کا بھی کوئی ذکر خیر نہ ہوسکا، حالاںکہ یہ واقعہ ان کے عہد میں پیش آیا۔ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ بھتّہ خوروں کی جانب سے دکان داروں پر کی جانے والی درندگی کا دل دوز سانحہ تھا، یہ ایک قطعی دہشت گردی کا واقعہ تھا، جس میں درجن بھر جنازے اٹھے، مگر شاید وہ مظلوم اس ’’قابل‘‘ ہی نہیں کہ ان کے لیے آواز اٹھائی جائے۔

آپ کو کوئی منع نہیں کررہا آپ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے رہیں اور انہی کی آواز سے آواز ملائیں، مت بات کریں تین نسلوں سے بنگلادیش میں پھنسے ہوئے محصور پاکستانیوں (بہاریوں) کی، نہ احتجاج کریں سندھ میں دراز ہوتے کوٹا سسٹم پر، لیکن خدارا! ظلم کو تو یکساں طور پر ظلم کہیں، اور ہر سانحے کو سانحہ سمجھیں۔ کم سے کم بطور گورنر تو ایسے رویے کا مظاہرہ نہ کریں، جس سے ایسا محسوس ہو کہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے مظلومین کے معیار بدل گئے ہیں۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

Rizwan Tahir Mubeen

رضوان طاہر مبین

بلاگر اِبلاغ عامہ کے طالب علم ہیں، برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں، روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔