پھر وہی مندر کا قضیہ

کلدیپ نئیر  جمعـء 21 اکتوبر 2016

جب الیکشن آنے والے ہوتے ہیں تو مندر مسجد کا قضیہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ بابری مسجد دسمبر 1992ء میں منہدم کی گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ذمے داری انتہا پسند ہندوؤں پر آئی جنہوں نے بھارتی سپریم کورٹ کا یہ حکم بھی نہ مانا کہ ’’اسٹیٹسں کو‘‘ قائم رکھا جائے، البتہ یہ تنازعہ عملی طور پر ختم ہو گیا۔

اس وقت کے وزیراعظم نرسیمہا راؤ نے وعدہ کر لیا کہ مسجد کے مقام پر جو چھوٹا سا مندر بنا دیا گیا ہے وہ اسے گرا دیں گے۔ لیکن وہ بخوبی جانتے تھے کہ اس طرح ہندوؤں کے جذبات مشتعل ہو سکتے ہیں لہٰذا مندر کو گرانا خارج از امکان تھا۔ اب بات یہ ہو رہی ہے کہ کیا یہاں پارک بنایا جائے گا جو اترپردیش کی حکومت چاہتی ہے یا یہاں عجائب گھر بنے گا جسے مرکزی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک مسجد کی تعمیر کا تعلق ہے تو اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں خواہ یہ مندر سے کافی فاصلہ پر ہی کیوں نہ بنائی جائے۔ جیسا کہ ایک وقت میں افہام و تفہیم کا کوئی فارمولا پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

بھارت میں چونکہ اس وقت ’’ہندو توا‘‘ کا زور ہے اس لیے مسلمان مسجد کے مسئلہ کو دوبارہ اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بہرحال قائم رہتی ہے کہ بھارت کے ایک سیکولر ملک ہونے کے دعویٰ کے باعث مسجد کے انہدام کا داغ اس کی پیشانی سے کسی طرح بھی مٹایا نہیں جا سکتا۔ جب کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں تو مسجد کے دوبارہ تعمیر کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مودی بذات خود آر ایس ایس کے ’’پرچارک‘‘ رہے ہیں اور اس کے نظریات  کے دل سے حامی ہیں۔

بھارت کافی عرصہ سے بابری مسجد کے معاملے  سے دوچار رہا ہے۔ پہلے تو یہ تنازعہ اٹھایا گیا کہ مسجد رام مندر کی جگہ بنائی گئی تھی لہٰذا  اسے گرا کر مندر بنا لینا چاہیے۔ یہ انتہا پسند ہندوؤں کا مطالبہ تھا لیکن اس سے بھارت کا سیکولر ازم کا دعویٰ متصادم تھا جس کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے کہ انگریزوں سے تحریک آزادی کی جدوجہد میں بھارت کو سیکولر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

دسمبر 1992ء اور جنوری 1993ء میں مسجد کے انہدام پر وسیع پیمانے پر فسادات  پھوٹ پڑے تھے۔ جنونی ہندو لوگوں کے ہجوم کو لے کر مظاہرے کرتے رہے۔ 1993ء میں ہونے والے بم دھماکوں کو مسجد کے انہدام کے جواب میں مسلمانوں کی جوابی کارروائی کا نام دیا گیا۔

’’جسٹس لائبرہن کمیشن‘‘ نے اپنی رپورٹ جمع کروانے میں 17 سال کا عرصہ لگا دیا اور اس واقعے کے بارے میں زبانی طور پر یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے بات کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ رپورٹ اگرچہ بڑی تاخیر سے پیش کی گئی تھی لیکن اس میں واقعات کو ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی تھی کہ مسجد گرانے کا فیصلہ آر ایس ایس کی سرکردگی میں کیا گیا جسے پارٹی کے عسکری ونگ ’’بجرنگ دل‘‘ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن مسجد کے انہدام نے پوری بھارتی قوم کے منہ پر کالک مل دی۔

ایل کے ایڈوانی‘ مرلی منوہر جوشی اور اس وقت کے یو پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کو گواہوں میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک تصویر جو اخبارات میں بڑے اہتمام سے شایع کی گئی اس میں اوما بھارتی جو اس وقت بی جے پی کی سرگرم کارکن تھی اسے منوہر جوشی کے کندھوں پر سوار دکھایا گیا تھا۔ بی جے پی کے بعض لیڈروں نے جب یہ دیکھا کہ مسجد کے انہدام پر ملک بھر کے لوگوں نے غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے تو انھوں نے بھی مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کر دیے۔ اس واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ مسجد کی جگہ پر راتوں رات ایک چھوٹا سا مندر کھڑا کر دیا گیا۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے نرسیما راؤ سے اس بارے میں سوال کیا تھا۔ وزیراعظم راؤ نے اپنی رہائش گاہ پر چند سینئر صحافیوں کو ملاقات کے لیے بلایا تھا تا کہ فسادات کو روکنے کے سلسلے میں ہماری مدد لے سکیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ جب مرکزی حکومت نے یو پی کی حکومت برطرف کر کے وہاں اپنی حکومت قائم  کر دی تھی تو پھر مندر کی تعمیر کی اجازت کس طرح دی گئی؟

نرسیما راؤ نے بتایا کہ مرکزی فورسز دہلی سے طیاروں کے ذریعے سے روانہ ہو گئیں تھیں لیکن لکھنؤ ایئر پورٹ پر شدید دھند کے باعث ان کے طیارے اتر نہ سکے۔ میں نے ان سے کہا کہ فوجی دستوں کو دہلی سے بلانے کی آخری کیا ضرورت تھی جب کہ بھارتی فوج پہلے ہی ایودھیا کے مقام پر بھاری تعداد میں موجود تھی۔ نرسیمہا راؤ اس بات کا کوئی جواب نہ دے سکے تاہم مجھے بڑے وثوق سے بتایا تھا کہ یہ مندر زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گا۔

یہ دسمبر 1992ء کی بات ہے جب کہ مندر ابھی تک وہیں ہے۔ سیکڑوں لوگ اس کی یاترا کے لیے یہاں آتے ہیں جب کہ حکومت نے اس چھوٹے سے مندر کی حفاظت کے لیے بھاری تعداد میں سیکیورٹی فورس متعین کر رکھی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی نے اس مندر کو وہاں سے ہٹانے کا سوال نہیں اٹھایا۔ اب یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ یو پی میں اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی اور مسجد کے انہدام کی وہی ذمے دار ہے جب کہ کانگریس صرف چھوٹے مندر کی تعمیر کی ذمے دار ہے۔

مسجد کے انہدام سے مسلمانوں کی نفسیات کو دکھ پہنچایا۔ لائبرہن کمیشن کی تحقیقات نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی لیکن دوسری طرف حکومت نے شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی  حالانکہ ’’جسٹس سری کرشنا کمیشن‘‘ نے اسے دسمبر 1992ء اور جنوری1993ء میں ممبئی میں ہونیوالے فسادات کا ذمے دار قرار دیا تھا جب کہ ’’لائبرہن کمیشن‘‘ نے مسجد کے انہدام پر ہونیوالے فسادات میں بی جے پی کے جن لیڈروں کو ملوث ٹھہرایا وہ ابھی تک پارٹی کی قیادت میں  موجود ہیں۔

کانگریس نے ان لوگوں کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہ لیا جنہوں نے 1975ء‘1977ء کے دوران قانون کو ہاتھ میں لے کر بدترین قسم کا تشدد اور غنڈہ گردی کی تھی بلکہ پارٹی نے تو الٹا ان لوگوں کو سزا دلوائی جنہوں نے اصل مجرموں کی نشاندہی کی تھی۔ ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق معطل کر کے پریس پر قدغن لگا دی گئی۔

اس وقت کے اٹارنی جنرل نے بڑے فخر سے ججوں کو بتایا کہ اگر پولیس والے کسی کو گولی مار کر ہلاک کر دیتے تو ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ کی جاتی۔ مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ جنھیں صحیح اور غلط  کی کوئی تمیز نہیں تھی وہ کس طرح صحیح راستے پر قائم رہ سکتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حق و باطل‘ صحیح اور غلط‘ اخلاقی اور غیر اخلاقی کے درمیان تمیز ہی اٹھ چکی ہے۔ ضمیر کی خلش جو کبھی موجود تھی اب غائب ہو چکی ہے۔ ’’لائبرہن کمیشن‘‘ نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا کہ ہم راہ راست پر آ سکتے تھے۔

مجرم خواہ کتنے ہی بااثر اور اونچے منصب پر کیوں نہ ہوں انھیں لازماً انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ جمہوریت کا اصل کام اداروں کی آزادی ہے اور اداروں کی اس حیثیت کو بحال کرنا چاہیے جو آئین نے انھیں دے رکھی ہے۔ بابری مسجد کا انہدام اس تعصب کا نتیجہ تھا جو اس وقت شمالی ہند میں بڑا نمایاں تھا بلکہ اب بھی کئی تنظیموں میں اس کے گہرے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارت کا وجود اجتماعیت کے فلسفے پر مکمل طور پر عمل  کیے بغیر تادیر قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ اداروں کو اس مقصد کی خاطر اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔