نادرا میں کرپشن یا پالیسی کا فقدان

نعمان یونس  اتوار 23 اکتوبر 2016
نادرا انتظامیہ نے ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی جس سے ملازمین موجودہ حالات میں زندگی کی   بنیادی سہولیات حاصل کرسکیں۔ فوٹو: فائل ۔

نادرا انتظامیہ نے ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی جس سے ملازمین موجودہ حالات میں زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرسکیں۔ فوٹو: فائل ۔

یار کل نادرا کے بارے میں ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ کرپشن میں ملوث افراد کو پکڑا گیا ہے۔ تم تو 10 سال سے نادرا میں ملازمت کررہے ہو لیکن تم تو لاکھوں کے مقروض اور ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں خالی جیب نظر آتے ہو۔

ایک دوست کی جانب سے یہ نقظہ اُٹھا تو جیسے نادرا کا ملازم دوست پھٹ ہی پڑا۔ 

دیکھ لو! تمہارے سامنے میرے حالات واضح ہیں۔ میں نے نادرا میں 4 سال کنٹریکٹ ملازم کی حیثیت سے کام کیا پھر ایک خبر آئی کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے نادرا ملازمین کو گورنمنٹ اسکیل BPS دینے کا اعلان کیا ہے تو سوچا کچھ حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن بھائی یہ اعلیٰ عہدے داروں نے تو پالیسی ہی کچھ ایسی بنائی کہ نادرا کے ملازمین آج تک اپنے اسکیل کو سمجھ ہی نہیں سکے۔

ویسے میرے دوست کا غصہ بھی غلط نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو ہزاروں نادرا ملازمین کو چھوٹے عہدے پر ملازمت دی گئی لیکن نئے اسکیل کے آنے کے بعد بھی صرف عہدے کا نام تبدیل ہوا، تنخواہ وہی پرانی۔ حالانکہ ملازمین سے تو وعدہ یہ ہوا تھا کہ نہ صرف ان کو مستقل کیا جائے گا بلکہ ساتھ ساتھ ان کی تنخواہ بھی نئے اسکیل کے مطابق ہوگی لیکن کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ حکمرانوں کا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے!

صرف ڈیٹا انٹری آپریٹر کی مد میں 15 ہزار سے زائد ملازمین کو نئے اسکیل کے مطابق رجسٹریشن کلرک کا عہدہ دے کر پھر اسی تنخواہ پر برقرار رکھا گیا۔ اب خود بتائیے جونئیر ملازمین کو عہدے کے رد و بدل سے مطلب ہوتا ہے یا تنخواہ سے؟ صرف یہی نہیں میرٹ پر آنے والے جونئیر ملازمین تو سالوں گزارنے کے بعد ابھی تک صرف ترقی کے خواب ہی دیکھ رہے ہیں جس کی تعبیر نہ جانے کب ملے گی۔

دوسری جانب اعلیٰ سیاسی سرپرستی کی بنیاد پر لوگوں کو پہلے انٹرن شپ اور بعد میں اسسٹنٹ ڈپٹی ڈاریکٹر کی پوسٹ پر تعینات کردیا گیا۔ موجودہ نادرا کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق جن ملازمین کو سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر ملازمت دی گئی تھی۔ ان میں سے کافی لوگوں کو جعلی ڈگری یا پھر کرپشن کے باعث نکالا گیا۔ یہاں سوال تو یہ ہے کہ پہلے تو ان نااہل ملازمین نے نادرا کے باقی ملازمین کے ترقی کے مواقع پر شب خون مارا پھر لاکھوں کروڑوں کی کرپشن وہ بھی جعلی ڈگری پر، لیکن ان سے اتنے سالوں کی تنخواہ کا حساب کتاب کون کرے گا؟

کیا اس کے لئے بھی ملازمین کو سڑکوں پر آنا پڑے گا؟ یہ سوال تو نادرا کا ہر ملازم یقیناً پوچھنا چاہتا ہے۔ اب اس مہنگائی کے دور میں ملازمین میرے اس دوست کی طرح قرض دار ہوکر زندگی گزاریں یا پھر زندگی کی بنیادی ضروریات کیلئے کرپشن پر مجبور ہوجائیں کیونکہ موت کا خوف تو حرام کو بھی حلال کردیتا ہے۔

یاد رہے کہ نادرا انتظامیہ نے ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے آج تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی جس سے ملازمین موجودہ حالات میں زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرسکیں، اور جب وہ ملازمین حکومت سے باقی وفاقی اداروں کے ملازمین کی طرح برابر حقوق کی بات کرتے ہيں تو کبھی ان پر کرپشن کا الزام لگا کر چپ کرا دیا جاتا ہے یا پھر ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایسا ملازم جو گھر کا واحد کفیل ہو وہ ملازمت سے نکل جانے کے خوف سے ایسی تدبیر سے ہی باز رہتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں نادرا ملازمین کی کرپشن والی خبروں کی حقیقت پر، دیکھا جائے تو میڈیا پر ایسے ملازمین کی خبر نشر کی جاتی ہے جس کی حیثیت ایک رجسٹریشن کلرک یعنی سابقہ ڈیٹا انٹری آپریٹر جتنی ہے حالانکہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ایک شناختی کارڈ کا حصول ادارے کے اعلیٰ عہدے دار کی معاونت کے بغیر ممکن ہوسکے۔

جس انسان نے اپنی زندگی کے 10 سال ایک ادارے کو دے دیئے ہوں، نکالے جانے پر اُس کو اتنی عمر میں ملازمت کہیں اور تو ملے گی نہیں تو بس اس کو قربانی کا بکرا بناؤ اور قربان کردو۔ یقیناً نادرا کے اکثر ملازمین کرپشن کے خلاف ہیں لیکن اس کو ملازمین کی حراست یا پھر برخاستگی سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ملازمین کی بہتر تنخواہوں اور شفاف بھرتی سے قابو کیا جاسکتا ہے۔

امید تو بس یہی کی جاسکتی ہے کہ نادرا کی انتظامیہ کے پاس اگر نادرا کے اعلیٰ عہدے داروں کو دی جانے والی بے حساب مراعات، بھاری تنحواہوں اور بھاری کرایوں پر لی جانے والی عمارتوں کے بعد اگر کچھ  بجٹ نادرا کے باقی ملازمین کے لئے بچ جائے تو یقیناً اس قومی ادارے کو کرپشن سے پاک رکھا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔