موبائل گیمز کے بچوں پر اثرات

ذوالقرنین زیدی  اتوار 23 اکتوبر 2016
موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ٹیکنالوجی نہایت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنادیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہوگئی ہیں۔

یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کوئی بھی چیز بنفسہ یا بالذات اچھی یا بری نہیں ہوتی، اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ موبائل فون کا بھی یہی معاملہ ہے۔ موبائل فون، فون کے ساتھ ساتھ ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ریڈیو، وائرلیس فون، پیجر، ٹارچ، گھڑی، الارم، کیلکولیٹر، ٹیپ ریکارڈر، اسٹل کیمرا، مووی کیمرا، واک مین اور نہ جانے کیا کیا سہولیات فراہم کرتا ہے۔

دوسری طرف اسی موبائل فون سے عریانی، فحاشی اور دیگر بے پناہ معاشرتی مسائل اور الجھنیں بھی جنم لے رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے جو عالمی ماہرین کی تحقیق میں ثابت ہوچکی کہ اگر ایک طرف موبائل فون اور سیلولر سروسز نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کردیں ہیں تو دوسری جانب اس نے خطرناک ترین مسائل بھی کھڑے کردیے ہیں۔

سائنس دانوں نے امریکی قانون سازوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ یونی ورسٹی آف ایلبنی اور یونی ورسٹی پٹسبرگ کے کیسز کے شعبے کے سربراہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کی قائمہ کمیٹی کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کیا اور تجویز کیا کہ موبائل فون کے استعمال کرنے والوں کو اس کے مضر اثرات سے خبردار کیا جانا چاہیے۔

یونی ورسٹی آف پٹسبرگ کے کیسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رونلڈ ہربرمین نے آگاہ کیا ہے کہ ایسی تمام ریسرچز جو یہ کہتی ہیں کہ موبائل فون کے استعمال اور دماغ میں رسولی پیدا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ درحقیقت بہت پرانی ہوچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریسرچرز جو یہ کہتی ہے کہ موبائل کے استعمال اور کینسر میں کوئی تعلق نہیں ’’وہ ہفتے میں ایک بار موبائل کے استعمال کو کثرت سے استعمال سے تعبیر کرتی ہیں‘‘ جب کہ حالیہ دور میں موبائل فون کا استعمال انتہائی بڑھ چکا ہے۔

ڈیوڈ کارپنٹر اور ڈاکٹر ہربرمین کی تحقیق کے مطابق موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے، انہوں نے ایک ایسا ماڈل بھی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ میں کتنی دور تک گھس جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ہربرمین کا کہنا ہے کہ ان کا یہ انتباہ اس تحقیق کی بنیاد پر ہے جس کی ابھی اشاعت نہیں ہوئی، ’’ہمیں اس حوالے سے کسی تحقیق کی اشاعت کا انتظار کیے بغیر حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں، مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی اتنی تحقیق موجود ہے جس کے بل بوتے پر موبائل فون کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر ہربرمین کا کہنا ہے کہ بچوں کو موبائل فون کے استعمال سے دور رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل پر بات کرتے وقت ایک ہی کان کو مسلسل استعمال نہ کریں اور بچے صرف ایمرجینسی کی صورت میں موبائل فون استعمال کریں جب کہ بڑے کو شش کریں کہ فون کو اپنے سر سے دور رکھیں۔

گزشتہ برس ایک سروے میں ثابت ہوا کہ 16 سے 20 سال کی عمر کے نوجوان ایک دوسرے کو میسج کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ رائل سوسائٹی آف لندن نے ایک پیپر شایع کیا ہے جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات ان لوگوں سے پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں جنھوں نے موبائل کا استعمال بچپن میں نہیں کیا۔ تاہم موبائل فون کا استعمال، موبائل فون کے ذریعے آن لائن گیمز کا استعمال، موبائل فون میں انسٹالڈ گیمز کا استعمال، کمپیوٹر یا ٹی وی پر گیمز کا استعمال یا ویڈیو گیمز پر گیمز کے استعمال کے اثرات میں فرق ہے، اسی طرح گیمز کے اثرات بھی اس کی نوعیت پر منحصر ہیں۔

پر تشدد گیمز ایکسر سائز گیمز کی نسبت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ ماہرین متفق ہیں کھیل کود اور ورزش انسان کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ویڈیو گیمز سمیت بیٹھ کر کھیلی جانے والے اکثر کھیلوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم ایک نئے مطالعاتی جائزے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ ویڈیو گیمز ایسے بھی ہیں جو بچوں میں موٹاپا کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے ویڈیو گیمز کھیلنے سے ورزش کے تقاضے کچھ نہ کچھ پورے ہوسکتے ہیں۔

پروفیسر بروس بیلی کے مطابق باکسنگ، ڈانسنگ اور ساکر سمیت بہت سی اقسام کی ویڈیوگیمز میں بچے ایکسر سائز کی مشین کے مقابلے میں اپنی زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں، ان کے مطابق اگرچہ ان گیمز سے بچوں میں موٹاپے کا مسئلہ تو حل نہیں ہوسکتا لیکن یہ ان والدین اور صحت کے ماہرین کے کے لیے ایک مفید طریقہ کار ہوسکتا ہے، جو بچوں کی جسمانی سرگرمیوں میں اضافے کی کوشش کررہے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیب لونزر امریکی ریاست اوہایو کے شہر کلیولینڈ میں کلیو لینڈ کلینک میں بچوں کے امراض کی ماہر ہیں۔ انہوں نے اس تحقیق میں حصہ نہیں لیا مگر اس مطالعے کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو باہر نکلنا چاہیے مگر اور بھی ایسے طریقے ہیں جن سے ورزش ممکن ہے۔ کم از کم یہ بچوں کے لیے جسمانی ورزش کا اچھا آغاز ہے جو سال بھر کیا جاسکتا ہے اور انہیں مصروف بھی رکھتا ہے۔ یہ ان کے لیے تفریح ہے اس سے ان کی خوراک ٹھیک طرح ہضم ہوتی ہے اور ورزن کم ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش سے منسلک تمام ویڈیو گیمز فائدہ مند نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر Wii باکسنگ گیم میں Wii گولف کی نسبت زیادہ اچھل کود شامل ہے اور اسی کھیل میں جسمانی سرگرمی کے مختلف لیول بھی شامل کیے جاسکتے ہیں، مگر ماہرین کے مطابق ان کی تحقیق تمام اقسام کے ویڈیو گیمز کو جسمانی ورزش کا نعم البدل قرار نہیں دیتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ویڈیو گیمز کے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ جو بچے ورزانہ ایک گھنٹے سے کم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں معاشرے سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں جو ویڈیو گیمز بالکل نہیں کھیلتے، لیکن جو بچے روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن پائے گئے ہیں۔

عام طور پر والدین ویڈیو گیمز کو اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما کا دشمن سمجھتے ہیں، لیکن جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ویڈیو گیمز سے بچوں میں پڑھنے کی صلاحیت بہتر ہونے کے علاوہ ریاضی اور سائنس میں بھی ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونی ورسٹی آف ملبورن کے پروفیسر کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم نے ویڈیو گیمز کے بچوں کی ذہنی نشوونما پر اثرات کے حوالے سے تحقیق کی جس کے مطابق بچوں میں روزانہ ویڈیو گیم کھیلنے سے ان کی قوتِ فیصلہ اور حافظے پر اچھے اثرات پڑتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

اس مطالعے میں ’’پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس اسیسمنٹ‘‘ (پسا) نامی ٹیسٹ کے نتائج استعمال کیے گئے یہ 15 سال عمر کے بچوں کا بین الاقوامی ٹیسٹ ہے جس میں ان کی عادات و اطوار کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہوئے، ان میں مطالعے، سائنس اور ریاضی کے حوالے سے قابلیت جانچی جاتی ہے۔ ’’پسا‘‘ کے نام سے مشہور اس ٹیسٹ سے حاصل ہونے والے نتائج ہر 3 سال بعد شایع کیے جاتے ہیں۔

مطالعے کے مطابق 15 سال کی عمر کے وہ بچے جو روزانہ ایکشن ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، سائنس میں ان کا اسکور عالمی اوسط سے 17 پوائنٹ زیادہ جب کہ ریاضی میں 15 پوائنٹ زیادہ رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ ایکشن گیمز میں بچوں کو جلدی جلدی فیصلے کرکے ان پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے جب کہ گیم کے پچھلے لیولز میں آنے والی رکاوٹوں کو بھی یاد رکھنا پڑتا ہے، کیوںکہ اگلے لیولز میں ان کی تکرار جاری رہتی ہے، ان باتوں کا اثر بچوں کی یادداشت اور قوتِ فیصلہ پر پڑتا ہے جو حساب کتاب کرنے اور سابق یاد کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں اسی طرح وہ بچے جو آن لائن معموں پر مشتمل گیمز کھیلتے ہیں، ان میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت خوب تر ہوتی ہے۔ غرض کہ یہ تمام پہلو، جو بظاہر تعلیم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تعلیم کے میدان میں بہتر کارکردگی دکھانے میں بچوں کے مددگار بنتے ہیں۔

البتہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس مطالعے کو پر تشدد ویڈیو گیمز کے حق میں دلیل نہ سمجھا جائے کیوںکہ ان کے منفی اثرات انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اساتذہ کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ تدریس میں مدد دینے کے لیے کلاس روم میں ایسے ویڈیو گیمز سے مستفید ہوا جاسکتا ہے جن میں تشدد نہ ہو اور جو کھیل کھیل میں تعلیم کی طرف راغب کرنے والی ہوں آکسفورڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ روزانہ تھوڑی دیر کے لیے ویڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کی نشوونما پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔

برطانیہ میں دو سال قبل ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ روزانہ تھوڑی دیر کے لیے ویڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کی نشوونما پر اچھے اثرات پڑتے ہیں، مگر اس کا وقت ایک گھنٹے سے تین گھنٹے تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ وقت گیم کھیلنے کو ماہرین نے نقصان دہ قرار دیا۔

موبائل فون کے استعمال کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس سے دور ہی رکھنا چاہیے، البتہ ایمرجنسی یا انتہائی ضرورت کے وقت بچے موبائل فون استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر بچوں کو مقررہ وقت کے لیے مفید گیمز کھیلنے کی اجازت دی جائے تو اس کے ساتھ ان کی جسمانی ورزش کا بھی اہتمام اور ترغیب ہونی چاہیے تاکہ بچے جسمانی کاہلی اور موٹاپے وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں اور اگر بچے یہ ویڈیو گیمز موبائل فون پر کھیلنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں انسٹالڈ گیمز کھیلنے کو دیے جائیں اور اپنا زیراستعمال فون استعمال کیے دینے سے گریز کیا جائے اگر دینا ضروری ہو تو سمز کو آف کردینا چاہیے، تاکہ وہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے ساتھ برقناطیسی شعاعوں کے مضر اثرات اور موبائل فون پر غلط نمبر ڈائل کرنے سے بھی بچے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔