پڑوس میں لڑی جانے والی امریکا کی افغان جنگ کے 15 سال

سید عاصم محمود  اتوار 23 اکتوبر 2016
چین کے مد مقابل کھڑا کرنے کی خاطر امریکا کو اب پاکستان نہیں بھارت کا ساتھ درکار ہے۔ فوٹو: فائل

چین کے مد مقابل کھڑا کرنے کی خاطر امریکا کو اب پاکستان نہیں بھارت کا ساتھ درکار ہے۔ فوٹو: فائل

مارکس سیسرون(Marcus Cicero) دو ہزار سال قبل قدیم روم کا مشہور دانشور، ادیب اور خطیب گزرا ہے۔ اس کا قول ہے:’’ غلطیاں تو ہر انسان سے سرزد ہوتی ہیں مگر صرف احمق ہی انہیں دہرائے جاتے ہیں۔‘‘ یہ قول افغانستان کے معاملے میں امریکی حکمرانوں کے رویّہ پر بخوبی پورا اترتا  ہے۔

پچھلے پندرہ برس میں امریکی حکومت کو افغانستان میں پے در پے ناکامیوں کے علاوہ کچھ نہ ملا پھر بھی وہ مملکتِ افغاناں کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس ہٹ دھرمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ناکامی کا داغِ ندامت لے کر افغانستان سے نہیں نکلنا چاہتی، یوں وہ اقوام عالم میں نکو بن جائے گی۔7 اکتوبر 2016ء کو امریکیوں کی افغان جنگ کے پندرہ برس پورے ہو گئے اور یہ اب تک جاری وساری ہے۔اسے امریکی عسکری تاریخ کی طویل ترین جنگ ہونے کا’’اعزاز‘‘ حاصل ہو چکا۔

امریکی قوت کے نشان پر حملہ

یہ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ 1979ء سے 1990ء تک امریکی اور افغان باہم شیروشکر رہے اور انہوںنے افغانستان سے سویت سپرپاور کو مار بھگایا۔ مگر امریکا نے سعودی عرب میں فوجی اڈے قائم کیے اور اسلامی جہادی تنظیموں کی مخالفت کرنے لگا، تو افغانستان میں مصروف جہد افغانوں اور عرب مسلمانوں اور امریکیوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ ان عربوں میں عالمی اسلامی اتحاد کے داعی ایک سعودی ارب پتی، نوجوان اسامہ بن لادن بھی شامل تھے۔ ان کی قائم کردہ جنگجو تنظیم، القاعدہ اب دنیا میں امریکی مفادات کو زک پہنچانے لگی۔

انسانی حقوق اور حق و انصاف کے چیمپیئن امریکی حکمرانوں نے اسلام مخالف قوتوں کی حمایت سے منہ نہیں موڑا بلکہ ان کے ہمنوا بن گئے۔ یوں قدامت پسند مسلمانوں اور امریکی حکومت کے مابین ٹکراؤ نے جنم لیا۔ ویسے بھی عالم اسلام میں امریکا کی شہرت اچھی نہ تھی، اسے مسلمان آمروں اور شاہوں کا سرپرست سمجھاجاتا تھا۔1996ء میں اسامہ بن لادن کے ایک پاکستانی بلوچ ساتھی، خالد شیخ محمد نے انہیں تجویز پیش کی کہ امریکی قوت کا عالمی نشان سمجھے جانے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ہوائی جہاز ٹکرا کر اسے نیست و نابود کردیا جائے۔

یوں امریکی حکمرانوں کی مسلم دشمن سرگرمیوں کے خلاف احتجاج کرنا مقصود تھا۔ پھر اس طرح ان کی جھوٹی انا بھی مجروح ہوجاتی۔ 11 ستمبر 2001ء کو اس تجویز نے عملی جامہ پہن لیا۔چار امریکی مسافر بردار جہازوں کو اغوا کرنے والے تمام انیس ہائی جیکر عرب تھے۔ یہ منصوبہ بھی عرب جہادیوں نے تیار کیا، تاہم امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کرکے اپنا ابتدائی غصّہ اتارا۔ افغان طالبان حکومت کے دوست، پاکستان کو بھی دھمکی دی گئی کہ اگر وہ حملے کی راہ میں مزاحم ہوا، تو بمباری کرکے اسے ’’پتھر کے دور‘‘ میں پہنچا دیا جائے گا۔

اس زمانے میں بش جونیئر کی حکومت تھی۔ موصوف نے یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی آخر جہادی مسلمانوں نے امریکی سپرپاور کا نشان سمجھے جانے والے استعارے پر حملہ کیوں کیا؟ وہ وجوہ درج ذیل تھیں:

٭… امریکا کی اسرائیل کے لیے کھلے عام حمایت

٭… صومالیہ میں مسلمانوں پر امریکی حملے

٭… چیچنیا میں روسی حملوں پہ امریکی حمایت

٭… امریکا کا عالم اسلام میں آمروں کی مدد کرنا

٭… مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارت کی حمایت

٭… سعودی عرب میں امریکی فوج کی موجودگی

٭… عراق پر عائد امریکی پابندیاں

امریکی حکمرانوں نے درج بالا وجوہ پر قطعاً غور نہ کیا تاکہ اپنی روش درست کرسکیں۔ الٹا وہ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ امریکا پر حملہ آور مسلمان امریکی ’’اقدار و روایات‘‘ اور ’’آزادی‘‘ سے نفرت کرتے ہیں۔ امریکی حکومت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہی مغرب میں ’’اسلامی فوبیا‘‘ (اسلام سے خوف) کے جراثیم پھلے پھولے اور عام امریکی و یورپی سبھی مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ اور ’’جنگجو‘‘ سمجھنے لگے۔ امریکی حکمرانوں نے ہی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ (War on Terror) کی اصطلاح کو بھی شہرت دوام بخش دی۔

سلطنتوں کا قبرستان

امریکا نے اب اسامہ بن لادن کو عظیم شیطان قراردیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے افغانستان میں تربیتی عسکری کیمپ قائم کررکھے ہیں۔ یہ دعویٰ محض چند مفروضوں پر کیا گیا تھا۔

بلند و بالا پہاڑوں اور خشک میدانوں کا دیس، افغانستان تاریخ میں ’’سلطنتوں کے قبرستان‘‘ کی حیثیت سے مشہور ہے۔ سکندراعظم، چنگیز خان اور تیمور لنگ جیسے سورما سرزمین افغانستان پر حملہ آور ہوئے مگر وہ دلیرو جری پٹھانوں کو اپنا مطیع نہ بناسکے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے تین بار افغانستان پر دھاوا بولا۔ تب تک وہ اتنے زیادہ طاقتور و بااختیار بن چکے تھے کہ ان کی وسیع و عریض سلطنت میں سورج ہی غروب نہ ہوتا ۔ تمام تر طاقت و ہیبت کے باوجود انگریز بھی پشتون سر اپنے سامنے جھکا نہ سکے۔ بیسویں صدی میں روسی افغانستان آپہنچے۔ تب وہ بھی عظیم ترین عسکری طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر غیور افغانوں نے انہیں بھی شکست فاش دی۔

امریکی صدر، بش جونیئر افغانوں کی تہذیب و معاشرت اور آزاد روی سے ناآشنا تھا۔ اپنی زبردست طاقت کے غرور نے بھی اسے اندھا بنا دیا۔ صدر کی طرح اس کے وزیر مشیر بھی افغانستان کی تاریخ سے نابلد تھے۔ چناں چہ جس مقام پر جاتے ہوئے جن بھوت بھی کتراتے تھے، بے خبر امریکی وہاں جاپہنچے۔ امریکیوں کو علم ہی نہ تھا کہ لڑنا مرنا تو افغانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ ایسی بے پروائی سے جنگ لڑتے ہیں جیسے میدان جنگ میں نہ ہوں، بلکہ اپنے حجرے میں براجمان شطرنج کھیل رہے ہیں۔

سی آئی اے…  جنگ کی انچارج

واقعہ نائن الیون کے بارہ روز بعد رابرٹ گرینئیر (Robert Grenier) کو اپنے باس، جارج ٹینٹ کا فون موصول ہوا۔ رابرٹ صاحب بظاہر اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں ایک اعلیٰ افسر تھے۔ مگر درحقیقت وہ پاکستان میں سی آئی اے کا انچارج تھا۔ سی آئی اے کے سربراہ، جارج ٹینٹ نے اسے بتایا ’’سنو باب! افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے کل ہمارا اجلاس ہورہا ہے۔ تم بتاؤ، آغاز کیسے کیا جائے؟‘‘

رابرٹ گرینئیر 1999ء سے پاکستان میں تعینات تھا۔ جب واقعہ نائن الیون رونما ہو، تو اسی کو طالبان حکومت سے بات چیت کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ امریکی حکمران چاہتے تھے کہ طالبان اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکا کے حوالے کردیں۔ تاہم طالبان نے اپنے مہمانوں کو غیروں کے سپرد کرنے سے انکار کردیا۔اس زمانے میں ملا اختر محمد عثمانی طالبان لیڈر، ملاعمر کے دست راست تھے۔

رابرٹ گرینئیر  نے ان سے دو ملاقاتیں کیں اور ملا عثمانی پر زوردیا کہ وہ اپنے لیڈر کے خلاف بغاوت کردیں۔ تاہم حکومت پر ملا عمر کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ اس لیے ملا عثمانی کو جو مشورہ دیا گیا بیکار ثابت ہوا۔حکومت پاکستان اور بعض امریکی مدبروں کا کہنا تھا کہ کچھ وقت دیا جائے تو طالبان  اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ مگر نوجوان امریکی صدر بدلے کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ جلد از جلد نتیجہ چاہتا تھا کہ امریکی عوام کو اپنی کارکردگی دکھاسکے۔ اسی لیے بش جونیئر نے افغانستان پر حملے کا اذن جاری کردیا۔

24 ستمبر کو رابرٹ گرینئیر نے جانا کہ امریکی حکومت حملے کا فیصلہ کرچکی۔ چناں چہ اس نے تین گھنٹے مسلسل کام کرکے آٹھ صفحوں پر مشتمل ایک دستاویز تیار کی۔ اس میں جنگی پلان ترتیب دیا گیا تھا۔ امریکی حکومت نے یہ جنگی پلان معمولی ردوبدل کے بعد منظور کرلیا۔

امریکی بری فوج کا کمانڈر، جنرل ٹامی فرینکس چھ ماہ کی تیاری کے بعد چھ ہزار فوجی افغانستان بھیجنا چاہتا تھا۔ مگر امریکی حکومت کو فوری نتائج درکار تھے۔ چناں چہ صدر بش جونیئر نے انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان پر حملے کی ذمہ داری اپنی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کو سونپ دی۔ سی آئی اے کو حکم دیا گیا کہ وہ پہلے افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ کرے اور پھر اسامہ بن لادن کی تلاش میں سرگرم ہوجائے۔ گویا کم از کم آمدہ افغان جنگ کے معاملے میں امریکی افواج کو سی آئی اے کا ماتحت بنا دیا گیا۔

یہی وجہ ہے، امریکی حملے سے پیشتر ہی 26 ستمبر کو سی آئی اے کے ایجنٹ افغانستان میں داخل ہوگئے۔ ان کا سربراہ، گیری شیرون(Gary Schroen) افغانستان اور پاکستان میں طویل عرصہ سی آئی اے کا ایجنٹ رہ چکا تھا۔ اس ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ شمالی اتحاد کو اسلحہ اور افرادی قوت فراہم کرے تاکہ وہ طالبان حکومت کے خاتمے میں امریکا کی مدد کرسکیں۔

حملے کا آغاز

7 اکتوبر 2001ء کو امریکا نے افغانستان پر باقاعدہ حملہ کردیا۔ امریکی جنگی طیارے طالبان کی عسکری تنصیبات اور مورچوں پر زبردست بم باری کرنے لگے۔ اس خوفناک بمباری نے طالبان کو تتر بتر کردیا اور وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی دوران امریکی فوجی افغانستان آپہنچے۔ انہیں افغان شہروں پر قبضہ کرنے میں خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جلد ہی امریکیوں نے کابل میں اپنے کٹھ پتلی اور سی آئی اے کے کارندے، حامد کرزئی کی حکومت قائم کردی۔

امریکی حکومت کو توقع کے برعکس افغانستان میں بہت آسانی سے کامیابیاں مل گئی تھیں۔ اس امر نے امریکی حکمرانوں کو مذید تکبر میں مبتلا کردیا۔ اب وہ عراق پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ افغانوں کو خانہ جنگی، غربت اور جہالت سے نجات دلا کر امن، خوشحالی اور آزادی کے تحفے دیں گے۔ چناں چہ حامد کرزئی حکومت کو امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اربوں ڈالر ملنے لگے تاکہ وہ افغانستان میں عوام دوست ترقیاتی منصوبے شروع کرسکے۔ افغان فوج کھڑی کرنے کے لیے بھی کثیر رقم دی جانے لگی۔

امریکا کو یقین تھا کہ شکست خوردہ طالبان اب کبھی سر نہیں اٹھاسکتے۔ تاہم امریکی حکمرانوں کو علم نہیں تھا کہ پختون کبھی دوسروں کو زبردستی اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیتا۔ چناں چہ جیسے ہی طالبان منظم ہوئے انہوں نے امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی تاکہ انھیں افغانستان سے نکلنے پر مجبور کردیں۔طالبان کے سخت قوانین نے کئی افغانیوں خصوصاً ازبکوں اور تاجکوں کو ان سے متنفر کردیا تھا۔ تاہم انہیں پشتون عوام میں اب بھی حمایت حاصل تھی۔

اسی حمایت سے فائدہ اٹھا کر طالبان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں امریکی و سرکاری فوج پر حملے کرنے لگے۔یوں حملہ آوروں کے خلاف طالبان کی گوریلا جنگ کا  آغاز ہو ا جو اب تک جاری ہے۔طالبان کی چھاپہ مار کارروائیوں کے نتیجے میں امریکی غرور چکنا چور ہوگیا۔ امریکی حکمران پھر کامیابی پانے کی خاطر پینترے بدلنے لگے۔ کبھی وہ ترقیاتی منصوبے شروع کرکے افغان عوام کا دل جیتنے کی سعی کرتے۔ کبھی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھا دیتے تاکہ بزور قوت طالبان کو شکست دی جاسکے۔ مگر کوئی بھی حربہ امریکیوں کو افغان جنگ میں کامیابی نہیں دلواسکا۔

امریکا پہ قرضوں کا بوجھ

اعدادو شمار کی رو سے امریکا اور نیٹو ممالک نے افغانستان کی تعمیر نو پر تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر کی رقم خرچ کر ڈالی۔ یہ دماغ چکرا کر رکھ دینے والی بڑی رقم ہے۔پاکستانی کرنسی میںیہ  8400 کھرب روپے بنتے ہیں۔اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستانی حکومت پہ کل قرضوں کی رقم تقریباً ساٹھ کھرب روپے ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا نے ’’مارشل پلان‘‘ شروع کیا تھا تاکہ جنگ سے تباہ حال مغربی یورپ کے ممالک کی تعمیر نو ہوسکے۔ اس منصوبے پر 12 ارب ڈالر خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے 120 ارب ڈالر بنتے ہیں۔

مارشل پلان کی مدد سے فرانس، برطانیہ، مغربی جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، بیلجئم وغیرہ نے جنگ کی تباہ کاریوں پر قابو پایا اور معاشی و معاشرتی طور پر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ دوسری جانب امریکا نے افغانستان میں 800 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کردی مگر نتیجہ کچھ نہیں  نکلا؟ آج بھی تین کروڑ تین لاکھ افغانیوں میں سے ’’40 فیصد‘‘ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ وہ بمشکل اتنی آمدن کماپاتے ہیں کہ جسم اور روح کا رشتہ استوار رکھ سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالر امریکی و مغربی امداد سے صرف افغان حکمران طبقہ مستفید ہواجس کی کل آبادی میں تعداد محض 0.99 فیصد بنتی ہے۔ اس حکمران طبقے میں جنگی سردار، سرکاری افسر، سیاست داں اور بااثر افغان شامل ہیں۔ یہ افغان طبقہ بیشتر غیر ملکی امداد کھا پی گیا، اسی بنا پر عام افغانوں کی حالت سدھر نہ سکی۔وہ اب افیون کاشت کرکے کماتے ہیں جس پر طالبان نے پابندی لگا دی تھی۔

یہ کرپٹ ‘عیار  اورمکار حکمران طبقہ اب بھی افغانستان پر مسلط ہے۔ چونکہ افغانستان میں صرف یہی طبقہ امریکی حکومت کے اشاروں پر ناچتا ہے اور اسے کچھ طاقت بھی حاصل  ہے لہٰذا امریکی حکومت اس کا دامن چھوڑنا نہیں چاہتی۔ حالانکہ خود امریکا کے کئی اپنے سرکاری ادارے اور تھنک ٹینکس اپنی تحقیقی رپورٹوں میں افغان حکمران طبقے کو دنیا کی کرپٹ ترین حکومت قرار دے چکے۔ امریکا اب بھی اربوں ڈالر سالانہ دے کر اس طبقے کو پال رہا ہے۔ چناں چہ اس نے پنے آقا کے پیچھے ہی دم ہلانی ہے۔

امریکی حکومت جو حکم دے، افغان حکمران طبقہ آنکھیں بند کرکے اس پر عمل کرتا ہے۔امریکا افغانستان کی افواج کو بھی کثیر رقم فراہم کررہا ہے۔ حقیقتاً یہ افواج کھڑی کرنے پر ہی امریکا کی سب سے زیادہ رقم خرچ ہوئی جو تقریباً ’’600 ارب ڈالر‘‘ بنتی ہے۔ کابل کی افغان حکومت غیرملکی وافغان  افواج کے بل پر قائم و دائم ہے۔ گو طالبان کی گوریلا جنگ نے ان افواج کو شدید مشکلات میں گرفتار کررکھا ہے۔

پاکستان کے خلاف خفیہ کھیل

جب امریکی سی آئی اے کا ایک اور ایجنٹ، اشرف غنی ستمبر 2014ء میں برسراقتدار آیا، تو امریکا کے کہنے پر اس نے کوششیں کیں کہ طالبان سے مفاہمت کرلی جائے۔ مگر طالبان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ پہلے امریکی فوج افغانستان سے رخصت ہوجائے، تب امن کے سلسلے میں بات چیت ہوگی۔ اشرف غنی کی حکومت تو امریکی ڈالروں اور اسلحے کے بل پر ہی کھڑی ہے، وہ یہ مطالبہ کیونکر تسلیم کرلیتا؟ یوں فریقین کے مابین مذاکرات ناکام ہوگئے۔

اس دوران چین اور پاکستان ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کے منصوبے تیزی سے مکمل کرنے لگے۔ یہ میگاپروجیکٹ چین کو خلیج فارس، مشرقی وسطیٰ اور افریقہ تک رسائی دے گا۔اس منصوبے کی مخالفت میں امریکا نے افغانستان اور بھارت کو ساتھ ملا کر ایک نیا مخالف اتحاد کھڑا کرلیا۔ اسی باعث اشرف غنی اور نریندر مودی آئے دن دوستی کی پینگیں جھولتے رہتے ہیں۔ امریکا، بھارت اور افغانستان کی نئی گٹھ بندی نے نہ صرف طالبان کو افغان کٹھ پتلی حکومت سے مزید متنفر کردیا، بلکہ پاکستان بھی چوکنا ہوکر اس صف بندی کا جائزہ لے رہا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اکثریتی افغان عوام کی حمایت سے محروم کرپٹ افغان حکومت اس نئی گریٹ گیم میں پاکستان کے خلاف کس حد تک جاپائے گی۔افغان عوام بعض شکایات کے باوجود پاکستانیوں سے قریبی معاشرتی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے،ماضی میں بھی افغان حکمران پاکستان کے خلاف کھل کر سازشیں نہیں کر سکے۔ اشرف غنی نے مودی کو تجویز پیش کی ہے کہ بھارت دریائے کابل پر ڈیم بنانے میں افغانستان کی مدد کرے۔ یاد رہے، دریائے کابل کا پانی دریائے سندھ میں گرتا ہے۔مقصد پاکستان کو سندھ کے پانی سے محروم کرنا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ افغان اور عراق جنگوں کی وجہ سے امریکہ کا قرضہ آسمان پر جاپہنچا ہے، مگر اس کے جنگجو حکمران نت نئی مہم جوئیوں سے باز نہیں آرہے۔ ان کی جنگجوئی ہی نے امریکا میں معاشی و معاشرتی ابتری و بے چینی کو جنم دیا۔اعدادو شمار کے مطابق 2000ء میں امریکہ پر ‘‘چھ ٹرلین چھ سو انسٹھ ارب ڈالر‘‘ کا قرضہ تھا۔ اب یہ ’’انیس ٹریلین چار سو اٹھائیس ارب ڈالر‘‘ تک جاپہنچا ہے۔ قرضے کی رقم بڑھانے میں افغان اور عراق جنگجوں کا خاص کردار ہے۔ ان جنگوں پر امریکہ کے مجموعی طور پر چھ سے سات ٹرلین ڈالر کے مابین رقم خرچ ہوئی۔

امریکا گھر جانے کو تیار نہیں

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی حکمرانوں نے اپنے جنگی اخراجات پورے کرنے کی خاطر کسی قسم کے جنگی ٹیکس نہیں لگائے۔ اگر امریکی عوام پر ایسے ٹیکس لگتے، تو ان کی چیخیں نکل جاتیں اور وہ حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے کرنے لگتے۔ یوں امریکی حکمرانوں کے لیے ممکن نہ رہتا کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر جنگیں چھیڑ سکیں۔ لہٰذا امریکی حکومت نے جنگی اخراجات چھپانے کی خاطر انہیں قومی قرضے میں کھپانے کے احکامات جاری کردیئے۔

یوں بظاہر انصاف پسند امریکی حکومت نے اپنے عوام کو دھوکا دیا۔ عام امریکی یہی سمجھ کر اپنے ٹیکس ادا کرتے رہے کہ ان کی دی گئی رقم امریکیوں ہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ آخرامریکی عوام پر منکشف ہوا کہ ان کی رقم سے تو توپیں، ٹینک اور گولہ بارود بنایا گیا اور جو لاکھوں افغانوں اور عراقیوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے میں کام آیا۔

اس انکشاف نے امریکی عوام کو غم و غصّے سے بھر دیا۔ چناںچہ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی خاطر اعلان کر دیا کہ 2014ء میں افغانستان سے فوج واپس بلوا لی جائے گی۔ مگر یہ ایک شاطرانہ چال تھی۔ امریکی حکومت نے اپنے عوام کو دھوکا دیا تاکہ وہ افغان جنگ ختم ہونے پر اطمینان کا سانس لے سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج بھی امریکا اور نیٹو کی اچھی خاصی بڑی فوج سرزمین افغانستان پر موجود ہے۔ یہ26ہزار ملٹری کنٹریکٹروں‘6954امریکی فوجیوں‘ امریکی سی آئی اے کے 2850اہل کاروں اور 5859نیٹو فوجیوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر جدید ترین اسلحے سے لیس اسی فوج کے سہارے کابل میں کٹھ پتلی افغان حکومت قائم ہے۔ اگر آج یہ امریکی ومغربی فوج رخصت ہو جائے‘ تو طالبان جلد یا بدیر کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔اب بھی افغانستان کے کئی اضلاع میں وہ مکمل کنٹرول حاصل کر چکے۔

کٹھ پتلی افغان حکومت کی مسلسل حمایت یہ تلخ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ ا مریکا ابھی  افعانستان کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ گویا مستقبل میں بھی یہ اسلامی مملکت بدستور خانہ جنگی ‘ بدامنی اور شورش کا شکار رہے گی۔وجہ یہ کہ آزادی پسند طالبان کبھی کٹھ پتلی افغان حکومت کو تسلیم نہیں کر یں گے۔ امریکیوں کی مفاد پرستی،سازشوں  اور ہٹ دھرمی کے باعث افعانستان میں امن وآتشی کا قیام ایک بھیانک خواب بنتا چلا جا رہا ہے۔

پاکستان پر اثرات

یہ درست ہے کہ واقعہ نائن الیون سے قبل بھی پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ کراچی میں نسلی فسادات ہو چکے تھے جبکہ بعض مذہبی تنظیمیں ایک دوسرے سے دست و گریباں تھیں۔ مگر امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا حصہ بن کر پاکستان جس شدید خانہ جنگی‘ خود کش بم دھماکوں اور فساد کا شکار ہوا‘ اس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔

افغانستان پر امریکی حملہ ہوتے ہی القاعدہ اور طالبان کے بہت سے لیڈر ہمارے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں روپوش ہو گئے۔ جب امریکا کے دباؤ پر پاک فوج نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی‘ تو پاکستان بھی امریکیوں کی جنگ کا حصّہ بن گیا۔چناںچہ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم عمل امریکا کی مخالف تنظیمیں اب پاک فوج‘ پولیس اور سرکاری تنصیبات پر بھی حملے کرنے لگیں۔

اس جنگ نے پاکستانی قوم کو تقسیم کر دیا۔ امریکا کو شیطان قرار دینے والے بعض پاکستانی انتہا پسندی کا شکار ہو کر ہم وطنوں کو واجب القتل ٹھہرانے لگے۔ لہٰذا پاکستانی شہروں میں خودکش دھماکے معمول بن گئے۔ نظریاتی یا مذہبی اختلاف رکھنے والوں کو دن دیہاڑے قتل کیا جانے لگا۔ غرض امریکیوں کی جنگ میں شامل ہونے سے پاکستان کی معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی زندگی از حد متاثر ہوئی۔

ایک اندازے کے مطابق 2001ء سے لے کر 2016ء تک ’’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ کی وجہ سے تقریبا’’پچاسی ہزار‘‘ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں اسّی ہزار پاکستانی شہری ہیں جبکہ پانچ ہزار سے زائد شہید سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزید براں پاکستان کو کم از کم ’’50 ارب ڈالر‘‘ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ امریکی جنگ کا حصہ بن کر پاکستان کو کیا ملا؟ امریکی حکمران پاکستانی حکومت کو مالی امداد دیتے رہے مگر یہ ا ونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف تھی۔ پھر اس امداد کے ثمرات پاکستانی عوام تک نہیں پہنچ سکے حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے انہی کی معاشی و معاشرتی روزمرہ زندگیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ انہی کے ہزارہا پیارے جنگ کی لپیٹ میں آ کر لقمہ اجل بن گئے۔

یہ حقیقت ہے کہ امریکی جنگ میں شامل ہو کر پاکستانی معاشرے کے تار و پود بکھر کے رہ گئے ۔اب پندرہ سال بعد کہیں جا کر پاکستانی معاشرہ رفتہ رفتہ اخلاقی ‘ تہذیبی‘ ثقافتی ‘ معاشی اور سماجی طور پر متوازن ہو رہا ہے۔ مگر امریکی حکمرانوں نے پاکستانیوں کی بے مثال قربانیوں کا یہ بدلہ دیا کہ افغان حکمران طبقے کو ساتھ ملا کر اپنے محسن کے خلاف ہی خفیہ کھیل شروع کر دیا۔

اس خفیہ کھیل میں افغان حکمران طبقہ امریکی حکومت کے اشاروں پر ناچ رہاہے۔ امریکی حکمران افغان حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے  دشمن،بھارت سے مدد چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اہم جغرافیائی تزویراتی اہمیت رکھنے والے افغانستان میں انہی کی کٹھ پتلی حکومت برسراقتدار رہے تاکہ وہ خطے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھ سکے۔

امریکا اسی لیے افغان حکومت کو مسلسل مالی و عسکری امداد دے رہا ہے۔افغانستان میں بھارت کا بڑھتا عمل دخل پاکستان کے واسطے خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکہ کا خفیہ کھیل پاکستان اور طالبان کو قریب لا سکتا ہے کیونکہ دونوں انتہائی کرپٹ اور کٹھ پتلی افغان حکومت کا خاتمہ چاہیں گے۔

پچھلے پندرہ برس کی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو بطور چارااستعمال کیا۔ جب امریکیوں کے مفادات پورے ہو گئے اور انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں رہی ،تو انہوںنے اس کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔ امریکی حکمرانوں کا یہ خود غرضانہ اور منافقانہ رویہ اب بھی پاکستانیوں کی آنکھیں نہ کھول سکے تو ان سے بڑا بدھو کوئی نہیں!

چین کے مد مقابل کھڑا کرنے کی خاطر امریکا کو اب پاکستان نہیں بھارت کا ساتھ درکار ہے۔ چناں چہ وہ ہر معاملے میں بھارتی حکومت کی طرف داری کر  رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی سکیورٹی فورسز مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کاقتل عام کر رہی ہیں۔ وہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ مگر امریکہ اڑی حملے کے بعد یہی راگ الاپنے لگا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈے قائم ہیں ، وہ ختم کیے جائیں۔

امریکی حکمرانوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ پاک افواج عرصہ دراز سے سرزمینِ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ سیکڑوں پاکستانی فوجی اور سپاہی ان سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا ان دہشت گردوں کو نہیں روک سکا جو افغانستان سے پاکستان آ کر پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ امریکیوں کا یہ رویّہ واضح طور پر منافقانہ اور مفاد پرستانہ ہے۔

امریکا افغان طالبان کو شکست نہ دے سکنے پر جھنجھلاہٹ اور خجالت کا شکار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاک افواج پر ڈال دے۔ اسی لیے امریکی حکمران اکثر یہ واویلا کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے اڈے قائم کر رکھے ہیں جو وہاں سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں۔اس فہرست میں اب بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہو چکے۔ یہ افغانستان میں اپنی بدترین شکست چھپانے کا محض ایک حربہ ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں!n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔