ہفتہ خلا

ظہیر اختر بیدری  پير 24 اکتوبر 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اسپارکو کے زیر اہتمام ملک کے 14 شہروں میں 17 اکتوبر سے 23 اکتوبر تک ’’ہفتہ خلاء‘‘ منایا گیا۔ اس  ہفتے میں خلاء سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام تھا۔ دیہی علاقوں میں خلاء سے متعلق آگہی موبائل ایجوکیشن میں استعمال کی گئی۔ نیشنل پوسٹرز مقابلوں کی نمائش کی گئی۔ یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کے لیے خلاء سے متعلق لیکچرز کا اہتمام کیا گیا، پی اے ایف میوزیم میں دو روزہ فیملی فیئر کا اہتمام کیا گیا جس میں عوام کے ساتھ اسکولوں کالجوں اور جامعات کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ یہ پروگرام کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، گلگت، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، ایبٹ آباد، بہاولپور، لاڑکانہ، دادو، عمرکوٹ اور ٹنڈو الہ یار میں منعقد کیے گئے۔ اس کی افتتاحی تقریب اسپارکو کے ہیڈ کوارٹر کراچی میں منعقد کی گئی۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں شرح تعلیم بہ مشکل 50 فیصد ہے جس میں وہ پڑھے لکھے بھی شامل ہیں جن کا علم دستخط کرنے تک محدود ہے۔ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے، لیکن اس حوالے سے افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے عوام کی معلومات عموماً رمضان اور بقر عید کے چاند دیکھنے تک ہی محدود ہے۔

چونکہ ہمارا ملک ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی نظریاتی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے لہٰذا ہمارے عوام ابھی تک اکیسویں صدی کی ان حقیقتوں سے نابلد ہیں جو سائنس، ٹیکنالوجی، ارضیات اور فلکیات کے شعبوں میں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ بیسویں صدی میں انسان چاند کی یاترا کر کے آ چکا ہے لیکن ہمارے قبائلی معاشروں میں ان حقائق کو کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہماری روایات اور عقائد کے مطابق چاند پر نظر آنے والے دھبے یا تو چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں یا یہ دھبے چاند پر موجود اس بڑھیا کے ہیں جو چاند پر چرخہ کات رہی ہے۔ ایسی ذہنی پسماندگی کے حامل ملک میں اگرچہ خلاء کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے لیکن بہرحال اسپارکو کی یہ کوشش لائق مبارکباد ہے کہ وہ خلاء  کے حوالے سے پروگرام پیش کر رہا ہے۔

ہر دور کے عقائد و نظریات اس دور کے علم اور معلومات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ آج سے ہزار، دو ہزار سال پہلے جو عقائد و نظریات متعارف ہوئے وہ اس دور کے علم اور معلومات کے مطابق تھے لیکن بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کا علم اور معلومات ہزار، دو ہزار سال پہلے کے علم اور معلومات سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں۔ ہم ماضی کے علم اور معلومات کو آج کے علم اور معلومات کے تناظر میں پسماندہ کہتے ہیں، لیکن جس تیزی سے علم اور معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر مستقبل میں آج کا علم، آج کی معلومات، آج کا انسان پسماندہ کہلا سکتا ہے۔

ماضی کا انسان بلکہ آج کے انسانوں کی ایک بڑی تعداد سورج کو زمین کے گرد گردش کرتا مانتی ہے، اس کی عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ اربوں میل کے فاصلے سے روشن روٹی جیسا چھوٹا نظر آنے والا سورج ہماری زمین سے ہزاروں گنا بڑا ہے اور زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ اس قسم کے خیالات و نظریات کی پیداوار کی وجہ یہ ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والا انسان دنیا یعنی کرۂ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا بلکہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی زمین کو ہی کائنات سمجھتی ہے۔ ماضی ہی نہیں بلکہ حال میں بھی ہمارے سروں پر سایہ کیے ہوئے نیلے حد نگاہ کو آسمان سمجھا جاتا رہا لیکن پتہ چلا کہ یہ نیلا گنبد آسمان نہیں بلکہ حد نگاہ ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہزاروں سال پرانے عقائد و نظریات کو مسمار کر دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عقائد اور حقائق پر گفتگو کرتے وقت بڑی احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ماضی بعید کی بات ہے سیکڑوں سال پہلے کے بعض انسان اس حقیقت سے آشنا تھے کہ سورج زمین کے گرد گردش نہیں کر رہا بلکہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ لیکن کلیسائی عقائد میں چونکہ سورج زمین کے گرد گردش کر رہا ہے لہٰذا زمین کو سورج کے گرد گردش کرنے کی تھیوری کو دین میں مداخلت کہا گیا اور مداخلت کاروں کو کلیسائی عمائدین نے سزائے موت سنا دی۔ لیکن ان سزاؤں سے اس حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے، سورج زمین کے گرد گردش نہیں کر رہا ہے۔

انسان چاند کی تسخیر کے بعد اب مریخ پر کمند ڈال رہا ہے، مریخ پر ایک مشن بھیج دیا گیا ہے جو آٹھ ماہ کے برق رفتار سفر کے بعد مریخ پر پہنچے گا۔ ہمارے خلائی سائنسدانوں کو مریخ سے آنے والی معلومات کی بنیاد پر یقین ہے کہ مریخ کی فضا زندگی کے لیے سازگار ہے، اس یقین کا نتیجہ یہ ہے کہ کرۂ ارض کے مالدار انسان مریخ پر پلاٹوں کی بکنگ کر رہے ہیں، روز سیکڑوں لوگ ابھی سے مریخ پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کیا قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں بسنے والا انسان ان عجوبوں پر یقین کر سکتا ہے؟ ایک عشرے سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے کرۂ ارض کے انسان نے خلا میں ایک خلائی اسٹیشن تعمیر کر لیا ہے۔ اس خلائی اسٹیشن میں فروکش خلاء نورد کائنات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور مختلف تجربات کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خلا کی بے وزنی کی کیفیت انسانی جسم پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے۔

دنیا کے دوسرے ملک خلائی تحقیق کے لیے مشن بھیج رہے ہیں جن میں پسماندہ ملک بھی شامل ہیں۔ بھارت کئی خلائی مشن خلاء میں بھیج چکا ہے۔ چین کے کئی خلائی مشن خلاء میں موجود ہیں جن میں مواصلاتی مشن بھی شامل ہیں۔ اسی ہفتے چین نے ایک انسان بردار خلائی جہاز خلا میں بھیج دیا ہے، جس میں دو خلانورد سوار ہیں، جن میں سے ایک کا نام جنگ ہائی پنگ ہے اور دوسرے کا چن ڈانگ ہے۔ اس خبر کے ساتھ کچھ دلچسپ خبریں بھی موجود ہیں، جن کی سرخیاں ملاحظہ ہوں۔

1۔ کراچی مختلف علاقوں میں فائرنگ 3 افراد زخمی۔ 2۔ نارتھ کیرولینا میں ریپبلکن پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر پٹرول بم سے حملہ، آگ لگ گئی۔ 3۔ شامی سرحد کے قریب خودکش حملہ، 3 پولیس اہلکار ہلاک۔ 4۔ترکی نواز عسکری گروپ کا داعش کے اہم گڑھ دابق پر قبضہ۔ 5۔ داعش جنگجو بغیر مزاحمت کے حلب اپنے زیر قبضہ علاقے کی طرف بھاگ نکلے۔

یارو! ذرا غور کرو، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم مسلمان کس پاتال میں کھڑے ہیں۔ اسپارکو ہفتہ خلاء منا رہا ہے، بڑی اچھی بات ہے لیکن پہلے ایسے ذہن تیار کرنے کی ضرورت ہے جو خلاء کے اسرار کو ہضم کرنے کے قابل ہوں۔ ان کلیسائی ذہنوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو غیر عقلی عقائد کو تحقیقی حقائق پر ترجیح دیتے ہیں اور انھیں دین میں مداخلت کا نام دے کر سزائے موت کا حکم سنا دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔