والدین کی تفریق بچوں کی شخصیت مسخ کردیتی ہے

سحرش پرویز  پير 24 اکتوبر 2016
اہم اور خاص محبت والدین اور اولاد کے درمیان ہوتی ہے جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔ فوٹو: فائل

اہم اور خاص محبت والدین اور اولاد کے درمیان ہوتی ہے جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔ فوٹو: فائل

انسان محبت اور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ محبت دلوں کو سکون بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے، وہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسے پسند کریں۔ محبت چاہے، والدین کی ہو یا بہن بھائی کی، دوستوں کی ہو یا رشتے داروں کی، انسان ہر محبت کا طلب گار ہوتا ہے، لیکن سب سے اہم اور خاص محبت والدین اور اولاد کے درمیان ہوتی ہے، جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ والدین کی جتنی بھی اولاد ہو، وہ سب ہی سے محبت کرتے ہیں، لیکن پہلی اور آخری اولاد کو والدین زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے درمیان والے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

پہلوٹھی کی اولاد چاہے بیٹی ہو یا بیٹا، والدین اسے خصوصی توجہ دیتے ہیں، لیکن جب دوسرے بچے ہو جاتے ہیں، تو دوسرے بچے نظر انداز ہونے لگتے ہیں۔ یہ بات بچوں کے ذہن پہ گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے جو سکھاؤ، وہ سیکھ جاتے ہیں۔ ان کے کچے ذہن میں جو بات ڈالی جائے، وہ ان کے دماغ میں رچ بس جاتی ہے۔ والدین کسی ایک بچے کو اپنے دوسرے بچے پر فوقیت دیتے ہیں، تو بچہ اس بات کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہ بے چینی اس کے رویے اور مزاج سے جھلکتی ہے، وہ ماں باپ کے اس رویے کی شکایت بھی کرات ہے، کبھی بہت زیادہ دل برداشتہ بھی ہوتا ہے، لیکن شاید والدین اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ اس طرح بچے کی معمول کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا۔ نہ اس کا دھیان پڑھائی کی طرف ہوتا ہے اور نہ گھر میں وہ کسی کے ساتھ بات کرتا ہے۔

والدین کی نظراندازی کی وجہ سے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے، اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوتا جاتا ہے کہ اس کے والدین اس سے اس طرح سے پیار اور محبت نہیں کرتے جس طرح اپنی باقی اولاد سے کرتے ہیں۔ بچہ اگر کسی معاملے میں والدین سے ضد کرتا ہے، تو اسے صاف انکار سننا پڑتا ہے، لیکن اگر وہی بات اس کے دوسرے بہن بھائی کرتے ہیں، تو فوراًمان جاتے ہیں۔ یہ بات اس بچے کو اندر سے توڑ دیتی ہے، کبھی وہ خود سے نفرت کرنے لگتا ہے، کبھی بغاوت پر آمادہ ہوتا ہے، جب وہ باہر نکلتا ہے اور دوسروں کا سامنا کرتا ہے، تو اسے اپنے اندر ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر سمجھتا ہے۔

اتنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی وہ خود کو تنہا سمجھتا ہے۔ یہی باتیں اسے آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ والدین کا سلوک اسے اندر ہی اندر مارتا ہے۔کچھ بچے اس بات کو اتنا زیادہ محسوس نہیں کرتے لیکن جنہیں یہ احساس ہوجائے تو پھر عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہاں تک کہ ان کی شخصیت کا ایک منفی رخ بن جاتا ہے۔ کچھ بچے تو اس بات کو اتنا زیادہ دل پہ لیتے ہیں کہ انہیں نہ صرف دنیا والوں سے بلکہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ ایسے بچوں میں خودکُشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔

جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کرتے۔ بڑے بچوں کو چھوٹوں پر یا بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاڈلے بچے، والدین کے بے جا پیار اور دوسرے بچوں کی حق تلفی سے ضدی، ہٹ دھرم اور خود سر بن جاتے ہیں، جب کہ دوسرے بچے احساس کم تری کا شکار ہو کر والدین سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ یقیناً والدین جان بوجھ کر کسی بچے کو نظرانداز نہیں کرتے، اکثر نادانستگی میں ان کے رویے ایسے ہوجاتے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کے بعد وہ بچوں کی بدتمیزی پر شکوہ کرتے ہیں کہ پتا نہیں بچے کیوں خودسر ہو رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں پر غور کریں اور کسی بچے کی حق تلفی نہ ہونے دیں، ان کی ایسی شکایات کا فوری ازالہ کریں اور سب سے یک ساں سلوک کریں۔ سب کی باتوں کو توجہ سے سنیں اور وقت دیں۔ والدین محبت کے ذریعے اپنے بچوں سے خاص تعلقات بنا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔