’’اوئے‘‘ سے نہیں، ’’آپ‘‘ سے بات کیجیے!

شاہد کاظمی  منگل 25 اکتوبر 2016
صحافت کیجئے تھانیداری نہیں۔ جہاں ’’اوئے‘‘ کہہ کر سوال کرنے کا کلچر پروان چڑھے گا۔ وہاں ’’تھپڑ‘‘ سے جواب کا کلچر بھی ساتھ ہی پھلے پھولے گا۔

صحافت کیجئے تھانیداری نہیں۔ جہاں ’’اوئے‘‘ کہہ کر سوال کرنے کا کلچر پروان چڑھے گا۔ وہاں ’’تھپڑ‘‘ سے جواب کا کلچر بھی ساتھ ہی پھلے پھولے گا۔

اوئے! تمہیں شرم نہیں آتی (ہاتھ چہرے تک بلند ہوا)۔ تمہارے گھر میں مائیں، بہنیں نہیں ہیں (ہاتھ کو چند مرتبہ گھما کر چیخا گیا)۔ عورتوں سے ایسے بات کرتے ہو؟ یہ دیکھئے (جرم ثابت دکھایا گیا)۔ ذرا ان کی وردی بھی دکھائیے (ہاتھ وردی تک پہنچا)۔ یہ ہے ان کا ایچی چیوڈ اور اس کے بعد اہلکار کا ہاتھ اُٹھا اور خاتون صحافی لڑکھڑا گئی۔

یہ وہ منظر ہے جس میں نہ کوئی تحریف کی گئی ہے نہ ہی کسی قسم کا مبالغہ اور اس منظر میں کسی قسم کی لفاظی کا سہارا بھی نہیں لیا گیا اور کسی بھی طرح سے اس منظر میں صحافتی گھماؤ پھراؤ بھی حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس بظاہر نظر آنے والے منظر میں ہرگز نہ تو شک کیا جاسکتا ہے نہ ہی مخالف رائے دی جاسکتی ہے کہ اہلکار کا خاتون صحافی کو تھپڑ مارنا سراسر غلط تھا اور کسی بھی طرح سے اس اہلکار کے رویے کی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔

لیکن اس تھپڑ سے پہلے کی دھکم پیل میڈیا سے اس وقت اوجھل ہے اور نہ اس طرف کسی بھی طرح کی کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس تھپڑ اور میڈیا پر چلنے والی ویڈیو میں جو سب سے اہم بات نظروں سے اوجھل ہے وہ میڈیا کا تھانیداری کردار ہے۔ نادرا آفس میں بے ہنگم رش اور بند انتظامی اپنی جگہ درست ہے۔ اس لئے کہ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ اس وقت عملاً انتظامی لحاظ سے مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اختیارات کو گھر کی باندی سمجھ کر جب دل چاہا استعمال کرنا شروع کردیا۔ ذمہ دارانہ صحافت کی دُم کہیں دور اٹک گئی ہے اور اِس وقت پاکستان میں میڈیا ہر کام کررہا ہے سوائے صحافت کے۔

آپ چوراہوں میں دیکھیں، شاہراہوں پر نظر دوڑائیں، عدالتوں کا رخ کریں، اسپتالوں کی خبرلیں، شادی کا فنکشن سامنے رکھیں، مرگ کو بطور مثال لیں۔ میڈیا باقی سب کام کررہا ہے صرف وہی کام نہیں کر رہا جو اس کو کرنا چاہیئے۔ سب سے خطرناک پہلو جو پچھلے کچھ عرصے میں پروان چڑھ رہا ہے کہ اب تو میڈیا بھی اپنے ساتھ پولیس وین لے کر جاتا ہے کہ صاحب وہاں ریڈ کرنا ہے۔ بے شک وہاں غلط کام ہو بھی رہا ہے تو کیا میڈیا کا یہ کردار اہم ہے کہ وہ پارٹی بن کر چھاپہ ڈلوائے یا پولیس کے کردار کو زیر بحث لائے جو کوتاہی برت رہی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ صحافتی تنظیمیں موسمی پودوں کی طرح ابھر رہی ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ صحافیوں کی عملی تربیت کا اہتمام کسی تنظیم نے آج تک نہیں کیا۔ کسی نے صحافیوں کو یہ نہیں سکھایا کہ بھئی بات ’’اوئے‘‘ سے نہیں شروع کرنی۔ بلکہ آپ سے شروع کرنی ہے۔ خاتون صحافی کو تھپڑ پڑنے کی جتنی مذمت کی جائے وہ یقینًا کم ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ بے چارے لوگ لائن میں خاموشی سے کھڑے ہیں تو میڈیا کو اس پر اعتراض کیوں ہے؟ یا کیا ایسا ہونا چاہیئے تھا کہ ایک وقت میں ہی سب کو آفس کے اندر داخلے کا پروانہ دے دیا جاتا؟ اور سونے پر سہاگہ کہ فرض کریں وہ بے چارہ اہلکار کسی کو نہ روکتا اور جو ہورہا تھا، ہونے دیتا تو جن صاحبان نے اس کو وہاں متعین کیا تھا وہ اس سے جواب طلبی نہ کرتے؟

میڈیا میں جو ویڈیو وائرل ہوئی بدقسمتی سے وہ ایک مخصوص وقت سے ہے۔ جبکہ اس سے پہلے دیکھا جاسکتا تھا کہ وہ اہلکار کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کہ کسی طرح بی بی صحافی سے جان چھوٹے مگر گھر کی ماں، بہنوں تک بات پہنچی تو ضبط جواب دے گیا۔ صحافی کو کم از کم اتنا باعلم ضرور ہونا چاہیئے کہ کسی بھی طرح کہ سوال کے جواب کے لئے گارڈ کو زحمت نہیں دی جاسکتی کہ اس کا کام بندوق اٹھائے کھڑا ہونا ہے۔ کجا یہ کہ وہ افسر تعلقات عامہ کے فرائض سر انجام دے۔ وہ بے چارہ کس حیثیت سے صحافی کے سوال کا جواب دیتا یا کیا جواب دیتا؟

پولیس اسٹیشن کا ذکر کریں تو شریف النفس انسان حق پر ہونے کے باوجود بھی وہاں کا رخ نہیں کرتا کہ صاحبِ ثروت غلطی پر ہونے کے باوجود صاف بچ نکلیں گیں اور بے چارہ شکایتی بال کی کھال اتروانے کے عمل میں اپنی کھال یقینًا اتروالے گا۔ اسپتالوں کا حال ملاحظہ کریں تو آپ بناء سفارش بستر نہیں لے پاتے۔ نادرا بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے، وہاں کے گارڈرز سے لڑائی کے بجائے حقیقی قبلہ درست کیجئے اور صحافتی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافت کیجئے نہ کہ تھانیداری۔ جہاں ’’اوئے‘‘ کہہ کر سوال کرنے کا کلچر پروان چڑھے گا۔ وہاں ’’تھپڑ‘‘ سے جواب کا کلچر بھی ساتھ ہی پھلے پھولے گا۔

اِس واقع سے متعلق بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔