پرویزالٰہی ‘عمران خان ایک صفحہ پر

اصغر عبداللہ  منگل 25 اکتوبر 2016
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

چوہدری پرویزالٰہی نے عمران خان کے اسلام آباد مارچ کی مکمل اورغیرمشروط حمایت کااعلان کردیاہے، بلکہ باقی اپوزیشن پارٹیوں سے بھی کہاہے کہ وہ بھی اسلام آباد مارچ میں بھرپورشرکت کریںاوراس کے لیے کسی باضابطہ دعوت کاانتظارنہ کریں۔ پرویزالٰہی کایہ فیصلہ ناقابل فہم نہیں، کیونکہ پچھلے آٹھ سال کے دوران پنجاب میں عمران خان کی طرح وہ بھی بطوراپوزیشن لیڈراپناکرداربڑی سرگرمی سے اداکررہے ہیں۔

2013ء کے الیکشن کے بعددھاندلی کی تحقیقات کے لیے احتجاجی تحریک میں بھی دونوں رہ نماوں کاموقف یکساں تھا۔2014ء میں دھرنا تحریک میں ہرچندکہ دونوںعلیحدہ علیحدہ اسلام آبادپہنچے تھے، مگرشاہراہ دستورپراکٹھے ہی تھے۔ پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔  پنجاب میں اپنے دورمیں صوبہ کی سطح پرانھوں نے تعلیم، صحت اورامن وامان کے شعبوں میں جوانقلابی اصلاحات کی تھیں، ان کاعمران خان نے اپنی تقریروں میں ہمیشہ کھلے دل سے اعتراف کیاہے، بلکہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی حکومت ان سے استفادہ بھی کررہی ہے۔

پانامہ لیکس کاتنازع شروع ہوا توحکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران عمران خان اور پرویز الٰہی دونوں کاپہلے دن سے موقف تھاکہ حکومت مذاکرات کی آڑ میںمسئلہ کوطول دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرح ق لیگ کی راے بھی تھی کہ پانامہ لیکس پر وزیراعظم سے استعفاکامطالبہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں، مگرپیپلزپارٹی تجویزمنظورنہیں کی تھی۔ چنانچہ جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی اوآرمذاکرات ناکام ہوگئے اورعمران خان نے حتجاجی تحریک چلانے کافیصلہ کیاتو پرویزالٰہی نے اس فیصلہ کو ہرلحاظ سے منطقی قراردیاتھا، حالانکہ ان کو علم تھاکہ کس طرح پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ عہدے داران کے ارکان سے براہ ر است رابطے کرکے ان کو شمولیت کی ترغیب دے رہے ہیں۔

عمران خان کی لاہور اور راولپنڈی کی دونوں ریلیوں میں پرویزالٰہی کی ہدایت پران کے کارکنوں نے بھرپورشرکت کی۔ راے ونڈمارچ پرچوہدری شجاعت حسین کوکچھ تحفظات تھے۔ عمران خان نے ان سے ملاقات کرکے وضاحت کی کہ ان کاکسی کے گھر کا گھیراو کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یاد رہے کہ رائے ونڈ مارچ پرعمران خان نے شجاعت حسین کے علاوہ اپوزیشن کے کسی اور لیڈرسے ملاقات نہیں کی تھی۔

اس ملاقات کے بعدق لیگ کا وفد راے ونڈ جلسہ میں شرکت کے لیے تیارتھا مگرنچلی سطح پربعض غلط فہمیوں کے باعث یہ وفدجلسہ میں نہیں پہنچ سکا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے بھی اردگرد ایسے لوگ ہیں، جوپرویزالٰہی اوران کے درمیان مفاہمت کے خلاف ہیں۔ حالانکہ اگرپنجاب میں پی ٹی آئی کوآیندہ الیکشن میں اگر ن لیگ کے مقابلہ میں متبادل انتخابی قوت بھی بنناہے توعمران خان اورپرویزالٰہی کواکٹھے ہوناہوگا، اور جولوگ اس میں رکاوٹ بن رہے ہیں، حقیقتاً وہ ن لیگ ہی کوفائدہ پہنچارہے ہیں۔

راے ونڈمارچ کے بعدنوازشریف حکومت نے جس اندازمیں پاک بھارت کشیدگی پرپارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلایااوراس میں پیپلزپارٹی نے جس پرجوش  لب ولہجہ میں حکومت کی حمایت کی اورعملی طورپرخودکو پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست سے بالکل الگ کرلیا، بلکہ اس کو یک وتنہا کرنے کی کوشش کی، اس کے نتیجہ میں بھی پرویزالٰہی اورعمران خان کے درمیان سیاسی فاصلے کم ہوئے ہیں پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں صرف عمران خان نہیں، پرویزالٰہی نے بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس ضمن میں جوتحفظات عمران خان کے تھے، وہی تحفظات پرویزالٰہی کے بھی تھے۔ پرویزالٰہی کابھی یہی خیال تھاکہ یہ حکومتی اجلاس بلائے جانے کامقصد وزیراعٖظم پرسے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کادباؤکم کرنے کے سوا کچھ اورنہیں۔

حکومت کے مسلسل تاخیری حربوں سے برافروختہ ہوکرعمران خان نے ایک بارپھراسلام آباد میں دھرنادینے کااعلان کردیا، جیساکہ توقع کی جارہی تھی، اس پرمتحدہ اپوزیشن کی بلی تھیلے سے باہرآگئی اورپیپلزپارٹی نے کھل کے عمران خان کی احتجاجی سیاست کی مخالفت شروع کردی۔ اس طرح کاتاثر قائم ہواکہ اپوزیشن کی کوئی پارٹی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہونے کوتیارنہیں۔ ق لیگ بھی تذبذب کاشکارنظرآرہی تھی۔ مگرآخرکار پرویزالٰہی خودبھی اس تذبذب سے نکلے ہیںاوراپنی پارٹی کوبھی اس تذبذب سے نکالاہے اورعمران خان کے اسلام آباد مارچ کی مکمل اورغیرمشروط حمایت کااعلان کیاہے۔ پرویزالٰہی نے یہ فیصلہ کرکے جہاں حکومت کی  مشکلات میں اضافہ کردیاہے، وہاں ’متحدہ اپوزیشن‘ کوبھی پیغام دیاہے کہ ق لیگ پانامہ لیکس پرپیپلزپارٹی اورحکومت کی ملی بھگت کاحصہ بننے کے لیے تیارنہیںہے۔

اسلام آباد دھرناکے لیے چوہدری پرویزالٰہی کی حمایت کے فیصلہ سے پی ٹی آئی کس طرح استفادہ کرتی ہے اورپنجاب میں خود مسلم لیگ ق کی سیاست کو اس سے کس حدتک  تقویت پہنچتی ہے، یہ توآنے والے دن ہی بتائیں گئے ؛ مگریہ سمجھنامشکل نہیں کہ پرویزالٰہی نے اپوزیشن کی باقی پارٹیوں کے برعکس حکومت کے خلاف جو واضح پوزیشن لی ہے، اس کے نتیجہ میں حکومت ہی نہیں، اپوزیشن کے اندربھی ہلچل مچ گئی ہے۔ شاعر نے کہا تھا ،

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔