تعلیم کی قیمت زیادہ اورقدرکم ہورہی ہے

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 25 اکتوبر 2016

پاکستان میں کم شرح خواندگی ہی کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جو تعلیم دی جارہی ہے عمومی طور پر اس کا معیار بھی گرا ہوا ہے۔ غیرمعیاری تعلیم کی وجہ سے دس بارہ سال اسکولوں میں گزارنے کے باوجود اکثر شاگردوں کو معلومات اوراعتماد میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت تعلیم کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔

اس مقصد کے لیے حکومت نے گورنمنٹ اسکولزقائم کیے ہیں۔حال یہ ہے کہ گورنمنٹ اسکول کا نام سنتے ہی بوسیدہ دیواروں،کھڑکیوں اوردروازوں سے محروم ایک نظر اندازسی عمارت، اساتذہ کی لاپرواہی اور طالب علموں کی عدم دلچسپی سے وجود میں آنے والے ماحول کا نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے۔کئی گورنمنٹ کالجزبھی اسی حال میں نظرآتے ہیں۔ ایسے اکثر اسکولوں میں کلاسز تک باقاعدگی سے نہیں ہوتیں۔ رسمی خانہ پری کے بعد طالب علم بیٹھے بیٹھے اگلی کلاس میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔ صرف گورنمنٹ اسکولوں میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں قائم کئی پرائیویٹ اسکولز بھی طالب علموں کو معیاری تعلیم نہیں دے پارہے۔

تعلیم کے شعبے میں ایک بہت بڑا مسئلہ لوگوں کے عمومی مائنڈ سیٹ کا ہے۔ اچھے اسکول کا مطلب ہمارے ہاں بالعموم یہ لیا جاتا ہے کہ وہ انگلش میڈیم ہو اور وہاں پڑھنے والے بچوں کو اچھی انگلش بولنا آجائے۔انگلش زبان سے اس درجہ متاثر ہونا کہ اپنی زبان وثقافت سے ہی اعتنائی برتی جانے لگے دراصل شدید احساس کمتری اورمحرومیت کا اظہار ہے۔ یہ رویہ پاکستان میں طبقاتی نظام کی علامت بھی ہے۔

پاکستان میں حکومتوں کی جانب سے تعلیم کوکتنی سنجیدگی سے لیا گیا ہے؟اس کا اندازہ ملک میں قائم مختلف  نظام ہائے تعلیم، تعلیمی نصاب کے لیے قومی ضروریات کے واضح تعین سے اعراض، سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں، دیگر مراعات اور سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ پاکستان اس خطے کا شاید واحد ملک ہے جہاں ابتدائی تعلیم کے لیے بیک وقت کئی تعلیمی نظام کام کررہے ہیں۔

ہمارے ملک میں اسکول کی سطح پر بھی طبقاتی نظام کا بھرپور مشاہدہ ہوتا ہے۔ ایک طرف مفت تعلیم فراہم کرنے والے گورنمنٹ اسکولز یا ہزار روپے ماہوار سے کم فیسوں والے پرائیویٹ اسکولزہیں تو دوسری طرف دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ فیسیں وصول کرنے والے پرائیویٹ اسکولز ہیں۔ ان مہنگے پرائیویٹ اسکولز میں دیگر اخراجات فیس کے علاوہ ہیں۔اس فرق کی وجہ سے پاکستان کی نئی نسل میں ابتدائی عمر سے ہی امیر اور غریب ہونے کا احساس پروان چڑھ رہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پرائیویٹ اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے کی قیمت روزبروز بڑھتی جارہی ہے لیکن پاکستانی معاشرے کی ضروریات کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ مہنگی تعلیم پاکستان کے قومی تقاضوں کی تکمیل نہیں کر رہی۔

قوموں کے حوالے سے تعلیم کا مقصد نئی نسل کو وقت کے تقاضوں کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ کرنا، ان کے اعتماد میں اضافہ کرنا، نئی نسل کو اپنی زبان، تاریخ، ثقافت سے آگہی اور علمی ورثے کی منتقلی کا اہتمام کرنا ہے۔ تعلیم کا بڑا مقصد یہ ہے کہ کسی قوم کی نئی نسل کو ملک کی معاشی، سماجی، دفاعی، ثقافتی، ادبی اور دیگر ذمے داریاں نبھانے کے لیے تیارکیا جائے۔ قوم کے لیے معیاری تعلیم وہ ہے جو مذکورہ بالا مقاصد کے حصول میں معاون ہو۔ اب ذرا ایک نظر اپنے تعلیمی نظام سے حاصل ہونے والے نتائج پر ڈالیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام قومی اور ملکی تقاضے پورے نہیں کر رہا۔ اسکولوں میں بارہ سال گزارنے کے باوجود کئی نوجوان پاکستان کی تاریخ تو ایک طرف ملک کے حالیہ واقعات کے بارے میں بھی بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔  اسکول اور کالج کے زیادہ تر نوجوانوں میں قومی معاملات سے وابستگی کا زیادہ اظہار نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ اسکولزکے طالب علم ہوں یا پرائیویٹ اسکولزکے طالب علم، نصاب کی ترجیحات کے باعث نہ تو اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے بارے میں۔ اکثر نوجوانوں کی اپنے ملک سے وابستگی جذباتی بنیادوں پر تو ہے لیکن وہ اپنی تاریخ اور ثقافت سے زیادہ واقف اور وابستہ نہیں ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم خصوصاً انگلش میڈیم پرائیویٹ  اسکولز سے پرعزم پاکستانی تیار نہیں ہو رہے۔

ہمارے اکثر نوجوان بانیانِ پاکستان علامہ اقبال، قائداعظم، محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔  وہ  پاکستان کے حوالے سے دیگر اہم شخصیات مثلاً سردار عبدالرب نشتر، حسین شہید سہروردی، خان آف قلات، جعفر خان جمالی، فیروز خان نون، نواب بہادریارجنگ، جی ایم سید،خان عبدالغفارخان، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، نور الامین، عبد الحمید بھاشانی، سید ابو اعلیٰ مودودی، شاہ احمد نورانی مفتی محمود، سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔ تنازعہ کشمیر کا پس منظر، سندھ طاس معاہدے اور پاکستان میں اس معاہدے کے بعد ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں ہمارے اسکولوں کے اکثر طالب علم کتنی آگہی رکھتے ہیں؟

پاکستان کے ہر صوبے میں خصوصاً شمالی علاقہ جات میں کئی خطے مسحور کن حسن کے حامل ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے میں بدھ مت، ہندو مت اور سکھ مذہب کے حوالے سے اہم مقامات ہیں۔ پنجاب میں ہڑپہ، سندھ میں موہن جوداڑو، خیرپور کے قریب کوٹ ڈیجی، بلوچستان میںمہرگڑھ کے ہزاروں سال پرانے آثار اس خطے کو ہزاروں سال قدیم تہذیبوں سے جوڑتے ہیں۔ ان تفصیلات سے ہمارے طالب علموں کوکتنا اورکس طرح آگاہ کیا جارہا ہے؟ پاکستان کے شمال میں دنیا کی سب سے بڑی پہاڑی چوٹیوں میں سے پانچ  چوٹیاں واقع ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے صحرائی علاقے، بلوچستان اور سندھ کے گیارہ سوکلو میٹر طویل سمندری ساحل اور دنیا کے بہترین قدرتی ڈیپ سی پورٹ گوادر کے بارے میں ہمارے اسکول کے طالب علم کیا کیا جانتے ہیں؟ چند ایک پرکچھ معلومات ہیں تو بھی پاکستان اسٹڈیزکے موضوع پر جامع تعلیم کا انتظام نہیں ہے۔

ہمارے تعلیمی ادارے طالب علموں کو سماجی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ نہیں کررہے۔ ہمارے اکثر طالب علم اپنے مثبت کرداراور سماج کی تعمیرکے حوالے سے اپنے فرائض اورذمے داریوں سے کتنے واقف ہیں؟

ملکی قوانین کی پاسداری، ٹریفک کے قوانین سے آگہی اوران پرعمل کرنے،خواتین کے احترام، پڑوسیوں کے حقوق، لین دین میں دیانتداری، اعلیٰ اخلاق اوردیگر مثبت صفات کی تعلیم کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں اور ہمارے اسکولوں میں کیا اہتمام کیا گیا ہے۔؟

ہم ایک طرف شرح خواندگی میں شدید کمی اور دوسری طرف قومی ضروریات کے مطابق تعلیم عدم فراہمی کے بحران میں مبتلا ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ دن کب آئے گا جب اسلامی احکامات کی پیروی میں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 25Aکی تعمیل میں حکومت کی جانب سے معیاری تعلیم پاکستان کے ہر بچے کو فراہم کی جائے گی۔ آرٹیکل 25A میں کہا گیا ہے کہ ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے قانون کے ذریعے مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ معاشرتی انصاف کے فروغ اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کی ذمے داریوں کا تعین کرتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 37 میں کہا گیا ہے کہ ریاست پاکستان۔

(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے قابل دسترس بنائے گی۔

پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں والدین اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن گورنمنٹ اسکولوں کی زبوں حالی کے سبب بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں بھیجتے اور پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔آئین پاکستان ایسے تمام والدین کو ان کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس ضمانت کی ادائیگی حکومت کے ذمے ہے ۔ اب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری حکومتیں اپنی قومی اور آئینی ذمے داریوں کی مکمل ادائیگی کے لیے کب کمر بستہ ہوں گی؟

ایک عام پاکستانی تو بس آس لگائے ہی بیٹھا ہے۔ ان حالات میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کی قیمت کم اور علم کی قدر میں اضافہ کب ہوگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔