میکسیکو کا منفرد قصبہ ؛ جس کے باسی پولیس اورسیاست دانوں سے نجات پاکر پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں

عبدالریحان  منگل 25 اکتوبر 2016
شیران کی خودمختار حکومت کو وفاقی حکومت نے بھی تسلیم کرلیا ہے: فوٹو : فائل

شیران کی خودمختار حکومت کو وفاقی حکومت نے بھی تسلیم کرلیا ہے: فوٹو : فائل

میکسیکو کو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ بد عنوان سیاست دانوں، کرپٹ پولیس اور ضمیرفروش منصفوںکے تعاون نے اسمگلروں اور مافیاز کو بے انتہا طاقت ور بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میکسیکو میں منشیات کی اسمگلنگ، قتل و غارت، ڈکیتی و راہ زنی اور سرکاری و نجی املاک پر قبضے کے واقعات عروج پر ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں با اثر مجرموں اور مافیاز کی حکمرانی ہے۔

مگر ایک قصبہ ایسا ہے جہاں کسی مافیا کی عمل داری نہیں اور نہ ہی یہاں بد عنوان سیاست دانوں اور پولیس کا زور چلتا ہے۔ ریاست میشواکان میں واقع شیران نامی قصبہ اس امر کی بہترین مثال ہے کہ جب کسی علاقے کے باسی متحد ہوجائیں تو پھر طاقت ور مافیاز بھی ان کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں، کرپٹ سیاست دانوں اور بد عنوان پولیس افسران کی حمایت بھی مجرموں کو وہاں قدم جمانے میں مدد نہیں دے سکتی۔ شیران ہمت نسواں کی بھی روشن مثال ہے کہ آج اگر اس قصبے کے باسی چین کی نیند سوتے ہیں اور نصف شب کو بلا خوف و خطر گھر سے باہر نکل آتے ہیں تو اس کے لیے وہ ان جری خواتین کے ممنون ہیں جنھوں نے جرائم پیشہ گروہ کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔

یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ سولہ ہزار کی آبادی پر مشتمل شیران ریاست کے دوسرے قصبوں ہی کی طرح ایک قصبہ تھا۔ شیران کے باسی کئی برس سے دیکھ رہے تھے کہ غنڈوں کا ایک گروہ قصبے کے اطراف واقع پہاڑی جنگل کا صفایا کرتا چلا جارہا ہے۔ قصبے کی بیشتر آبادی کا پیشہ کاشت کاری اور گلہ بانی ہے۔ جنگل ان کے مویشیوں کے لیے چارے کی فراہمی کا بڑا ذریعہ تھا مگر اب انھیں جنگل کا رخ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان غنڈوں کو منشیات کے اسمگلروں کی طاقت وَر مافیا، Familia Michoacana کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ مقامی سیاست داں اور پولیس افسران بھی ان کی مٹھی میں تھے۔ مافیا پہاڑی جنگل کا صفایا کرکے یہاں مگر ناشپاتی (avocado) کی کاشت کرنا چاہتی تھی۔

مافیا کے کارندے تیزی سے جنگل کا صفایا کررہے تھے۔ روز کئی ٹرک درختوں کے تنوں سے بھر کر جاتے تھے اور قصبے کے لوگ بے بسی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے میئر اور پولیس افسران کئی بار اس صورت حال پر ایکشن لینے کی درخواست کی مگر ان کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ اب ان کے پاس جرائم پیشہ گروہ کے سامنے سینہ سپر ہونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچاتھا۔

قصبے کے لوگ اپنی ضروریات کے لیے پانی ایک قدرتی چشمے سے حاصل کرتے تھے۔ مافیا کے کارندے درختوں کا صفایا کرتے کرتے جب چشمے کے قریب پہنچ گئے تو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ انھیں ڈرتھا کہ درخت کٹ جانے سے چشمہ سوکھ جائے گا اور پھر وہ قصبہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیںگے۔ یہ گویا اب ان کی بقا کا معاملہ بن گیا تھا۔ مسلح جرائم پیشہ گروہ کے خلاف مزاحمت کا آغاز مارگریٹا الویرا رومیرو نے کیا۔ وہ چند ہم خیال عورتوں کو ساتھ لے کر جنگل میں گئی اور غنڈوں کو درختوں کی کٹائی بند کردینے کے لیے کہا۔ جواباً انھیں مغلظات سننی پڑیں اور ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کے بعد ان عورتوں نے قصبے میں سے گزرنے والے ٹرکوں کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ قصبے کے مرد بھی اب اس منصوبے میں شریک ہوگئے تھے جنہیں مارگریٹا اور دوسری عورتوں کے ساتھ مسلح بدمعاشوں کے ناروا سلوک نے مشتعل کردیاتھا۔

15 اپریل 2011 کی شب مارگریٹا اور اس کے ساتھیوں نے قصبے میں سے گزرنے والی بس پر سنگ باری کرتے ہوئے اسے روک لیا۔ بس میں مسلح کارندے سوار تھے۔ اس کارروائی سے کچھ ہی دیر قبل قصبے کے واحد چرچ کا گھنٹا بجاکر اور پٹاخے چھوڑ کر لوگوں کو خطرے سے خبردار کردیاگیا تھا۔ آتش بازی اور گھنٹے کی آواز سن کر قصبے کے سبھی مرد، عورتیں اور بچے چھریاں بغدے، پتھر اور لاٹھیاں لیے دوڑتے ہوئے قصبے کے مرکز میں پہنچ گئے جہاں مارگریٹا اور اس کے ساتھیوں نے جرأت کی مثال قائم کرتے ہوئے مسلح غنڈوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اب گھریلو ہتھیاروں سے مسلح قصبے کے باسی یرغمالیوں کے ساتھیوں کی آمد کے منتظر تھے۔ دو گھنٹے بعد وہ پولیس اور میئر کی ہمراہی میں وہاں پہنچ گئے۔

غنڈوں کے سرغنہ اور راشی پولیس افسران کی دھمکیوں کے باوجود اہل قصبہ نے اس وقت تک یرغمالیوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا جب تک کہ جرائم پیشہ گروہ جنگل کی کٹائی ترک کرکے یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلا نہیں جاتا۔ طویل بحث مباحثے کے بعد بالآخر مافیا باس اور اس کے کارندوں کو دیہاتیوں کی بات ماننی پڑی۔ مارگریٹا نے ان پر یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اگر مافیا باس اپنے وعدے سے پھر گیا اور درختوں کی کٹائی بند نہ ہوئی تو قصبے کے لوگ جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پھر یہی کارروائی کریں گے۔ ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے فلک شگاف نعرے لگاکر مارگریٹا کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس جم غفیر کو ہم آواز دیکھ کر غنڈوں کے سرغنہ اور اس کے حواریوں کو وہاں مزید ٹھہرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔

یہ شیران کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ اس دن سے قصبے میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ قصبے کے لوگوں نے جرائم پیشہ عناصر کا ساتھ دینے کی پاداش میں میئر اور دیگر منتخب نمائندوں کو قصبہ بدر کردیا اور قصبے میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل پر پابندی عائد کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اہل کاروں کو بھی قصبے سے مار بھگایا۔ سیاسی جماعتوں کے متبادل کے طور پر قصبے کے ہر چار اضلاع میں سے نمائندے منتخب کرکے قصبے کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ٹاؤن کونسل تشکیل دی گئی اور اس کے اراکین تین سال کے لیے منتخب کیے گئے۔

علاوہ ازیں مقامی مردوں اور عورتوں پر مشتمل ملیشیا تشکیل دی گئی اور قصبے میں سے گزرنے والی تین سڑکوں کے داخلی مقامات پر چوکیاں قائم کی گئیں۔ اسمگلروں اور ٹمبر مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکیوں میں مسلح محافظ تعینات کیے گئے۔ آج قصبے میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ قتل، اغوا اور مسلح ڈکیتیوں کی وارداتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، البتہ چوری یا شراب کے نشے میں ہاتھا پائی جیسے اکا دکا واقعات ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی بڑی واردات ہوجائے تو پھر فیڈرل اٹارنی کو بلایا جاتا ہے مگر پانچ سال کے دوران محض دو بار یہ موقع آیا تھا۔ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد کو سزا ٹاؤن کونسل دیتی ہے۔ یہ سزائیں عموماً جرمانے، کمیونٹی ورک میں حصہ لینے یا پھر چند روز حوالات کی ہوا کھانے پر مشتمل ہوتی ہیں۔

شیران کی خودمختار حکومت کو وفاقی حکومت نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔ اطراف کے قصبوں میں جہاں جرائم کی شرح بلندیوں کو چُھو رہی ہے، شیران کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے مگر انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیوں کہ ان آبادیوں میں شیران کے باسیوں جیسا اتحاد و اتفاق موجود نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔