باخبر سے بے خبری بہت بہتر ہے!

مدیحہ ضرار  جمعـء 28 اکتوبر 2016
90 کی دہائی بھی کتنی اچھی تھی جب ایک چینل تھا جسے دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ ملک میں ترقی ہی ترقی ہو رہی ہے، لیکن اب تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں ترقی کے سوا سب کچھ ہورہا ہے۔

90 کی دہائی بھی کتنی اچھی تھی جب ایک چینل تھا جسے دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ ملک میں ترقی ہی ترقی ہو رہی ہے، لیکن اب تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں ترقی کے سوا سب کچھ ہورہا ہے۔

کچھ دن پہلے مجھے نیوز چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کافی عرصے سے میں نے یہ قابل احترم کام ترک کر رکھا تھا۔ شاید اپنی زندگی کو مزید پُرسکون اور خوشیوں سے بھرپور بنانے کے لئے، اور میں اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔ ہاں بس ایک طعنہ ضرور سننے کو ملتا تھا،

’’آج کل پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس سے باخبر رہنا چاہیئے۔‘‘

یہاں باخبر ہونے سے مراد روز کے 50 نیوز چینلز، 100 ٹاک شوز، 150 تبصرے اور 2 سو کے لگ بھگ بریکنگ نیوز ہیں۔ جن میں سوائے دہشت گردی، قتل و غارت، دنگا فساد، پولیس کرپشن، لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، بحث و تکرار کے اور کچھ بھی نہیں۔ ایک خبر پر پورا میڈیا پاگل ہوجاتا ہے اور جب تک ان کا اور ناظرین کا دل اکتا نہ جائے اس پر گفتگو چلتی رہتی ہے۔ اتنے موقف سامنے آتے ہیں کہ سب ایک ساتھ یا تو یکسر غلط لگنا شروع ہوجاتے ہیں یا پھر سب ٹھیک لگنے لگتے ہیں۔ لہذا ایسے باخبر رہنے سے تو ہم بے خبر ہی بھلے۔

مجھے وہ 90 کی دہائی کا وقت بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب ہمارے گھر میں صرف رات 9 بجے کا خبرنامہ لگا کرتا تھا۔ اس میں سب خبریں بھی دیکھ لیتے تھے اور سب سے اہم بات سب بڑوں کا موڈ بھی خوشگوار رہتا تھا۔ کیا خوبصورت کلاسیفیکیشن ہوتی تھی خبروں کی، ایسے لگتا تھا کہ ملک پاکستان میں صرف ترقی ہی ترقی ہو رہی ہے۔

  • آج وزیراعظم نے فلاں جگہ فلاں چیز کا افتتاح کیا۔
  • آج فلاں صدر سے ملاقات ہوئی اور ادارے کی کاکردگی کو بہتر بنانے پر غور کیا گیا۔
  • آج فلاں ملک کے سفیر پاکستان آئے اور فلاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔
  • آج فلاں ادارے نے ملکی ترقی و سلامتی کے لئے چند تجاویز پیش کیں۔

لیکن اب تو اللہ رحم کرے ایسے لگتا ہے کہ ترقی کے علاوہ سب کچھ ہورہا ہے۔ کرہ ارض پاکستان پر

  • آج فلاں جگہ پر اتنی چوری کی وارداتیں ہوئیں
  • آج ملک کے فلاں فلاں حصے میں اتنے گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی
  • آج فلاں علاقے میں دو بہنوں کو زندہ جلا دیا گیا
  • فلاں علاقے میں شہریوں کے حکومت کے خلاف نعرے

ہائے قسمت! ایک چینل دیکھا نہیں تو گھر کے بڑے بزرگوں کا پارہ چھٹے آسمان پر، دل کی بھڑاس زبان کے ذریعے نکالی اور اگلے چینل پر سوئچ کردیا، لیکن اگلے چینل پر جا کر بھی کونسی خیر کی خبر سن لی۔ پل پل ان کو یہ احساس دیا جاتا ہے کہ،

’’اے کرپٹ قوم کے بدترین لوگوں! تم سب کے پاس خوش ہونے کا اب کوئی حق باقی نہیں رہا‘‘

ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تم میں جو تندرست ہیں وہ جلد بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ تمہارے ہر ادارے کی کارکردگی ناقص ہے جو تمہارے احساس کمتری میں مزید اضافہ کرے گی۔ روز اپنے حکمرانوں کی کرپٹ خبریں سن کر تمہارے اعتماد کی دھجیاں اڑ گئیں۔ آئے دن خون خرابہ دیکھ کر تمہادے اندر احساس مرے گا، تم شکر کرو گے کے 2 مرے 10 نہیں مرے، اور جس دن 10 مارے گئے اس دن کہو گے کہ 100 تو نہیں مرے۔

میرے مطابق آج کل جو باخبر ہے وہ اپنے اندر احساس اور اعتماد کو کہیں کھوتا چلا جارہا ہے۔ جب آئے دن اتنے منفی پہلو سے باخبر رکھا جائے گا تو مثبت سوچ یا پہلو بمشکل ہی نظر آئے گا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم بحثیت قوم اتنا منفی سوچنے لگے ہیں کہ اگر کوئی اچھی سوچ کی سمت دکھا بھی رہا ہو تو فوراً اُس کو رد کردیا جاتا ہے۔ انہونی سی بات سمجھ  کر کوئی ہمارے ساتھ بحثیت قوم اچھا کرنے کا سوچ کیسے سکتا ہے؟ اور اگر کوئی اچھا کرنے والا آ بھی جائے تو اس کی اچھائی میں سو قسم کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا اور ایک سرسری سی رائے ہر کسی کے دل میں قائم ہوجاتی ہے کہ ضرور اس کے اپنے کوئی مفاد ہوں گے۔ آئے دن اتنا بُرا سن سن کر کانوں کو عادت نہیں رہی اچھا سننے اور دیکھنے کی۔ ایسے میں قوم ہر وقت ڈپریشن اور مایوسی کا شکار نظر آتی ہے۔ مسدس حالی میں الطاف حسین حالی نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے مسلمانوں کی پست سوچ اور حالت کا، کہ جب انہی  میں سے ایک  لیڈر سر سید احمد خان ایک نظریہ لے کے ابھرا۔

اگر اک جوانمرد ہمدرد انساں
کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں
کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں
وگرنہ پڑی کیا کسی کو کسی کی
یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی

نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت
تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت
سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت
تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا
نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی
تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی
تو گویا تمنا ہماری بر آئی
بس سے نہیں مشغلہ خوب کئی
تماشا نہیں ایسا مرغوب کوئی

اگر میڈیا نے ہمیں باخبر ہی رکھنا ہے تو پل پل کی جرائم کی بریکنگ نیوز دینے کے بجائے مجرموں کو ملنے والی سزاؤں کی خبریں دی جائیں کہ آج فلاں فلاں مجرم کو اُس کے جرم کی پاداشت میں یہ سزا دی گئی۔ اس سے ہمارے اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی اور ان میں مزید اچھا کرنے کی امنگ بھی پیدا ہوگی۔ سب سے بڑھ کر سزاؤں کو ملتا دیکھ کر کئی لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے۔ اگر ہم آئے دن قوم کو ڈارک روم میں بٹھا کر اندھیرے ہی دکھاتے رہے تو آہستہ آہستہ قوم کی بینائی صلب ہوجائے گی۔ روشنی سے مانوس رہنے کے لئے روشنیوں میں رہ کر اندھیروں کے شیڈز کو دیکھنا ہوگا۔ باخبر رہیں لیکن اندھیروں میں اندھے بہرے اور گونگے بن کر نہیں، بلکہ صبح روشن میں پرندوں کے نغموں کے ساتھ  ڈھیروں امیدوں کی کرنیں بن کر، کیونکہ روشنیوں میں امیدیں کبھی دم نہیں توڑتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔