‘‘اظہار محبت‘‘ اتنا آسان کبھی نہ تھا

مزمل فیروزی  بدھ 26 اکتوبر 2016
پہلے لوگ فقط ایک جملہ کہنے کی غرض سے گلی کے کونوں پر کھڑے پورا دن ضائع کردیا کرتے تھے مگر نوبت نہیں آپاتی تھی، جبکہ آج سوشل میڈیا اور موبائل میسجز کی شکل میں یہ سہولت گھر کی چار دیواری میں دستیاب ہے۔

پہلے لوگ فقط ایک جملہ کہنے کی غرض سے گلی کے کونوں پر کھڑے پورا دن ضائع کردیا کرتے تھے مگر نوبت نہیں آپاتی تھی، جبکہ آج سوشل میڈیا اور موبائل میسجز کی شکل میں یہ سہولت گھر کی چار دیواری میں دستیاب ہے۔

پرانے زمانے میں ’’اظہار محبت‘‘ کے لئے پیار کرنے والے جب زباں سے قوت گویائی نہ کرپاتے تو پھولوں کو گواہ بناتے یا پھر خطوط لکھ کر اپنے لطیف جذبات کا اظہار کرتے۔ ایسے خطوط کو حرف عام میں ’’لو لیٹرزز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ مشرقی تہذیب ان ’’لو لیٹرز‘‘ کی اجازت نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ نوجوان ایسے جرم کی پاداش میں اکثر و بیشتر پکڑے جانے پر ارباب خانہ کے ہاتھوں دھر لئے جاتے اور خوب عزت افزائی سے مستفید ہوتے۔

مگر آج انٹرنیٹ کی چکا چوند نے اس کے بھی پرخچے اڑادیئے کیونکہ سوشل میڈیا کے زیر سایہ اخلاقی قدروں کو پامال کرتی برہنہ تہذیب نے جنم لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ قدرے پاکیزہ اور خوف کے سائے میں پلتی پیار محبت کی پینگیں اب بلا خوف خطر اور کسی بند کے بغیر علاقائی و قومی سے لیکر بین الاقوامی سرحدیں بھی چھو رہی ہیں۔

پہلے نوجوان اپنے خطوط پہنچانے کیلئے نت نئے طریقوں کا سہارا لیا کرتے تھے اور کئی کئی دن اپنے خطوط کے جوابات کا انتظار کیا کرتے تھے مگر اب فیس بک، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس جیسے برق رفتا ذرائع نے مشرقی تہذیب کے ہاتھوں پٹے ہوئے بنیادی ضروریات سے محروم نوجوان نسل کو موقع ملنے پر ایک دم نہ صرف آپے سے باہر کردیا بلکہ وہ تمام باتیں ان انجان لوگوں سے شئیر کرنے لگے جو اپنوں سے نہیں کرسکتے تھے۔

ہمارے ہاں اکثریت ایسے دل پھینک عاشقوں کی ہے جو فیس بک پر لڑکی کے چہرے کا فقط ایک انچ حصہ دیکھ کر بھی انٹرنیٹ کے سمندر کو پار کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ رومانوی خوش گفتاری کے علاوہ سوشل میڈیا کا دوسرا مگر مثبت پہلو سنجیدہ مسائل پر بحث و مباحثہ بھی ہے جہاں باہمی گفت وشُنید سے ایک دوسرے کو دلاسے دے کر تھراپی کا کام لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مشرقی تہذیب کے اقدار کی بات کی جائے تو انٹرنیٹ کی بے لگام دنیا اس کے نقوش مسخ کر رہی ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ اقدار دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن کا لوگ بھرے مجمع میں اعتراف کرتے ہیں اور دوسری وہ جن پر وہ اپنی زندگی کے فیصلے کیا کرتے ہیں۔ لہذا انٹرنیٹ نام کی بلا نے یہ ثابت کردیا کہ مشرقی تہذیب صرف پہلی قسم کی اقدار کا نام ہے۔

یہ وہ اقدار ہیں جن کے منہ پر اعتراف کرنے والے تو بہت ملیں گے مگر ان پر نہ تو زندگی گزاری جاتی ہے اور نہ ہی انسانی معاشرے میں ان اقدار کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے مشرقی اقدار انٹرنیٹ کی دنیا میں آتے ہی غائب ہوجاتی ہیں اور انسان وہ اقدار لے کر آتا ہے جن پر وہ حقیقی معنوں میں جی رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سائبر اسپیس میں قائم ہونے والی دوستیاں اچانک ان رشتوں سے زیادہ مضبوط ہونے لگتی ہیں جو ہم نے اپنی حقیقی زندگیوں میں قائم کر رکھی ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پر آمنے سامنے نہ ہونا ہے، جو بات ہم بالمشافہ نہیں کہہ سکتے وہ ہم اس سائبر اسپیس میں باآسانی کہہ جاتے ہیں۔

پہلے لوگ فقط ایک جملہ کہنے کی غرض سے گلی کے کونوں پر کھڑے ہوکر پورا پورا دن ضائع کردیا کرتے تھے مگر نوبت نہیں آپاتی تھی، اور اگر کہہ بھی دیتے تھے تو سُننے والی کو اگر آپ یا آپ کا جملہ ناپسندیدہ گزرتا تو پھر اتنی باتیں سننا پڑتی کہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈنا پڑتا، جبکہ آج وڈیو، آڈیو وائیسز یا ایس ایم ایس کی شکل میں یہ سہولت گھر کی چار دیواری میں باآسانی دستیاب ہے۔ گھر کے کمرے میں بیٹھ کر کسی بھی لڑکی لڑکے سے ہر طرح سے بات چیت کا کھلا میدان موجود ہوتا ہے یعنی زمانے کے ساتھ اب اس کام میں بدلاؤ آگیا ہے۔

گلی کے چبوترے پر بیٹھنے اور گلی کے کونے کھانچوں پر کھڑے ہونے والے اب سوٹڈ بوٹڈ ہوکر کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر وہی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ دونوں زمانے کے لڑکوں میں ایک چیز مشترک یہ ہے کہ خواتین کے بارے میں دونوں کا نقطہ نظر یکساں ہی ہوتا ہے۔ جبکہ قرب حاصل کرنے کیلئے آج کے نوجوانوں کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے کے لفنگے لڑکے پکڑ میں آجاتے تھے مگر آج کا مہذب لفنگا سب کچھ کرکے بھی شریف رہتا ہے۔

ویسے بات نئے زمانے کے مرد کی ہو یا پرانے زمانے کے مرد کی، دونوں ہی کسی بھی طرح صنف نازک کی قرابت کے طلبگار ٹھہرے ہیں، مگر یہاں بات ختم نہیں ہوجاتی۔ پہلے زمانے کا مرد جس کو چاہتا تھا اسی سے شادی رچاتا تھا جبکہ آج کا نوجوان دوستی کیلئے الگ اور شادی کیلئے الگ خاتون کا متمنی ہے اور اسی سوچ سے ہمارے اقدار کا قتل عام شروع ہوا ہے جس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے اقدار تک کو نہ پہچان پائے گی۔

اظہار محبت کے حوالے سے بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

مزمل فیروزی

مزمل فیروزی

بلاگر انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایک مقامی روزنامہ میں بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @maferozi پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔