وفاقی دارالحکومت بند کرنے کے معاملہ پرسیاسی رابطے تیز

ارشاد انصاری  بدھ 26 اکتوبر 2016
طاہرالقادری نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کی حامی بھر لی ہے۔ فوٹو: فائل

طاہرالقادری نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کی حامی بھر لی ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد لاک ڈاون کرنے کے معاملہ پر سیاسی جماعتوں نے رابطے تیز کردیئے ہیں۔ ایک جانب تحریک انصاف بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب حکومتی جماعت بھی سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے۔

سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کی حکومت انتظامی اقدامات کی بھی بھرپور تیاری کررہی ہے اور اس مرتبہ حکومت کے تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے ملک کے سیاسی کلچر کو جس قدر پراگندہ کیا جارہا ہے اور سیاسی مفادات وپوائنٹ سکورنگ کیلئے غداری کے نعرے کو فیشن بنایا جارہا ہے وہ ملکی بقاء و سلامتی کیلئے خطرناک ہی نہیں بلکہ زہر قاتل ہے۔

سیاسی رہنما سیاسی مفاد کیلئے ایک دوسرے کو غدار،اسرائیل وانڈیا کے ایجنٹ و نجانے کیا کیا نام دے رہے ہیں وہ ملک کی خدمت کم اور اغیار کی زیادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ رویے معاشروں اور لوگوں کو جوڑنے اور اتحاد کی بجائے تقسیم درتقسیم کا سبب بن رہے ہیں، یہی دشمن کی خواہش ہے کہ اتحاد کو پارہ پارہ کرکے لوگوں کو تقسیم کرکے ان کی قوت کم کی جائے جس کا عملی نمونہ گذشتہ روز پیش آنے والے سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات کی صورت میں قوم کے سامنے ہے جس میں ساٹھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔

ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے ملک کو دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کیلئے آپریشن ضرب عضب میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں اور مشاہدہ کی بات ہے جب ملک میں سیاسی تناو اور خلفشار دھرنا سیاست جلاو گھیراؤ اور احتجاج کی سیاست زور پکڑتی ہے تو کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے اور شائد اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حکومت و حکومتی مشینری و اداروں کی تمام تر توجہ سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تناو کے نتیجے میں کسی قسم کے واقعہ کے رونما ہونے کو روکنے کے ا قدامات پر مرکوز ہو جاتی ہے ایسے میں ملک دشمن قوتوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنا وار کر جاتے ہیں جس پر پھر تمام سیاسی جماعتیں کف افسوس ملتی رہ جاتی ہیں اور ظلم یہ کہ ان سانحات کو بھی سیاست کی نذر کردیا جاتا ہے۔

کل کے حکمران آج اپوزیشن میں آکر احتجاج و دھرنوں اور ریلیوں کو اپنا حق قرار دے رہے ہیں یہی بات آج کے حکمرانوں کی ہے کہ کل جب اپوزیشن میں تھے تو اسی حق کو جتلاتے تھے اورمخالف سیاسی قیادت کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات ہوتے تھے۔ اور یہ مقافات عمل ہوتا ہے آج یہ حکومت میں ہیں تو وہی کاٹنے کو مل رہا ہے جو کل انہوں نے بویا تھا۔ جب دو بڑی میچور اور پُرانی سیاسی جماعتوں کا اپنا طرز عمل یہ تھا تو وہ کیسے تیسری ا‘بھرتی ہوئی سیاسی جماعت کو یہ سب کچھ روکنے سے منع کرسکتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کیسے مروجہ کلچر سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتی ہے اسے بھی اپنے حقوق یاد ہیں فرائض تو صرف غریب عوام کیلئے رہ گئے ہیں۔ اسی فارمولے کے تحت تحریک انصاف پھر سے معرکہ آراء ہے اور دو نومبر کو اپنا آخری معرکہ قرار دے رہی ہے۔ اسکے بعد یا توتحریک انصاف کے قائد عمراں خان مستقبل کے اصغر خان بن جائیں گے اور اگر کوئی ایڈونچر ہوتا ہے اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو یہ کلنک تحریک انصاف کی قیادت کے ماتھے پر سجے گا اور دوسری جماعتوں کی طرح اس جماعت کو بھی غیر جمہوری قوتوں سے فیض یاب ہونے کی سند مل جائے گی ۔

دو نومبر کو تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور اس آخری وقت ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ طاہرالقادری نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کی حامی بھر لی ہے۔ اب تحریک انصاف کے احتجاج میں ایک کی بجائے دو کنٹینر لگیں گے۔

تحریک انصاف کی پوری کوشش ہے کہ دو نومبر کے احتجاج میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی لوکل آبادی کو متحرک کیا جائے تاکہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی مشکلات کھڑی بھی کی جاتی ہیں تو مقامی لوگوں کے لئے ان کا مقابلہ کرنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر لوگ باہر سے آتے ہیں تو ان کے لئے پریشانی زیادہ ہوگی۔

تحریک انصاف نے اسلام آباد کو اٹھارہ پوائنٹ پر بند کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے میڈیا پر بھی تمام پوائنٹ آچکے ہیں۔ ان میں بڑے پوائنٹ فیض آباد اور زیروپوائنٹ ہوںگئے اور امکان یہی ہے کہ زیرو پوائنٹ پر عمران خان کا کنٹینر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے پوائنٹ ہیں جس سے نہ صرف اسلام آباد میں آنے والوں کو پریشانی ہو گی بلکہ پنڈی بھی متاثر ہو گا۔

دوسری طرف حکومتی بیانات سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کو روکے گی اور آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی جس کا مطلب ہے کہ یہ احتجاج تشدد کی طرف جائے گا جس پر سنجیدہ حلقوں میں پریشانی نظر آرہی ہے۔ عمران خان نے اپنی تمام کشتیاں جلا کر واپسی کے راستے بند کر دیئے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس کے بعد کوئی احتجاج نہیں کریں گے یہ ان کا آخری احتجاج ہو گا۔

حکومت کی جانب سے عمران خان سمیت اہم رہنماوں کو نظر بند کرنے کے متعلق سوچا جا رہا ہے جس پر پیپلزپارٹی حکومت پر تنقید کر رہی ہے کہ اگر عمران خان کو حکومت نظر بند کرے گی توا س میں بھی عمران خان کا فائدہ ہو گا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ کسی غیر جمہوری اقدام کو سپورٹ نہیں کریں گے اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

یہ بات واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کا احتجاج تشدد کی طرف جاتا ہے تو اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہی ہوگا۔ وزیراعظم دو نومبر کو پاکستان نہیں ہوںگے وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے بیرون ملک جائیں گے۔

حکومت اور تحریک انصاف کی اس کشید گی کا پیپلزپارٹی باہر کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہی ہے تاہم پیپلزپارٹی نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ اگر وزیرا عظم ان کے چار مطالبات کو تسلیم نہیں کرتے تو گڑھی خدابخش سے ستائیس دسمبر کو اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا جائے گا۔ مگر تاحال حکومت پیپلزپارٹی کے مطالبات پر بھی سنجیدگی سے غورنہیں کر رہی ہے۔

ان سارے حالات میں ایک بات مثبت ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف کے احتجاج سے قبل ہی سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی ہے اور بیک ڈور سے عمران خان سے بھی رابطہ کر لیا ہے تاکہ کوئی بھی صورت پید ا ہو او رمذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کر لیا جائے۔

وزیر ریلوے سعد رفیق نے سید خورشید شاہ اور دیگر رہنماوں سے مشاورت کی ہے۔ ملک میںجب سیاسی گرماگرمی ہے اور تحریک انصاف ایک بڑا احتجاج کرنے جا رہی ہے اس وقت میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق چین کے دس روزہ دورے پر روانہ ہوگئے ہیں اس طرح انہوں نے خود کو احتجاج سے الگ کر دیا ہے۔

اعتزاز احسن نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا چلے جائیں اور وہیں سے ریلی کی صدارت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں کیونکہ حکومت انہیں نظر بند کرنے پر غو ر کر رہی ہے، اگر وہ خیبر پختونخوا سے آتے ہیں تو پھر انہیں دو نومبر کو احتجاج سے کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم نے نئے آرمی چیف کیلئے نام کو حتمی شکل دیدی ہے اور آئندہ ہفتے اس کے اعلان کا بھی امکان ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے بھی معاملات میں تبدیلی متوقع ہے۔

دوسری جانب اس وقت آئی ایم ایف کی سربراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لیگارڈ نے کہا ہے کہ اقتصادی اصلاحات اور بہتر پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی بحران سے باہر نکل آیا ہے۔

خطے کے حالات کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت افغان طالبان کے وفد کی پاکستان کا دورہ ہے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے تصدیق کی ہے کہ ہے افغان طالبان کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور اب مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ آج(بدھ) سے پاکستان میں وسط ایشیاء علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس (کیرک) کا آغاز ہونے جارہا ہے جس میں آذربائیجان، افغانستان، چین، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، قرغزستان اور منگولیا سمیت دیگر ممالک کے دو سو سے زائد مندوبین اور آئی ایم ایف، عالمی بینک ،ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر ڈونر اداروں کے سربراہان و نمائندگان شرکت کررہے ہیں۔

اس وقت اسلام آباد سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور بھارت کی جانب سے سارک کانفرنس سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد کیرک کا یہ فورم بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اس اجلاس میں کیرک کی میڈیئم ٹرم ریویو پر مشتمل رپورٹ 2020 پیش کی جائے گی۔ یہ فورم علاقائی تجارت کے فروغ کیلئے ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔