سکھر میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے ثمرات

پرویز خان  جمعرات 27 اکتوبر 2016
میں کمی اور عوام کو بنیادی سہولتیں بھی حاصل ہوں گی۔ فوٹو: نعیم غوری/ایکسپریس

میں کمی اور عوام کو بنیادی سہولتیں بھی حاصل ہوں گی۔ فوٹو: نعیم غوری/ایکسپریس

دنیا سکڑ رہی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں، ملکوں کے مفادات میں یکسانیت آرہی ہے، عالمی سرمایہ منافع کے حصول کے لیے موزوں سرمایہ کاری مراکز کی تلاش میں ہے اور یہ سرمایہ کاری وہیں ہوگی، جہاں امن ہوگا، ہنر مند افرادی قوت ہوگی، ترقی یافتہ ذرائع آمد و رفت ہوں گے، اہم جغرافیائی محل و وقوع ہوگا، کوئی بھی خرد مند اس امر سے بے خبر نہیں ہوگا کہ سوائے ترقی یافتہ ذرائع سے محرومی کے پاکستان درج بالا تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔

قوموں کی تاریخ میں بعض لمحوں اور دنوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، کسی قوم کو کوئی ایک دن فرش سے اٹھا کر عرش پر لے جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ پاک چائنا کوریڈور منصوبے کی شکل میں ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اس بات میں رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ ایک گیم چینجر منصوبہ نہ صرف پاکستان بل کہ پورے خطے کے لیے ایک ایسا سنہری موقع ہے جس کے ذریعے ہم ترقی کے زینے طے کرکے ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جگہ بناسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک چائنا اقتصادی راہ داری منصوبہ سندھ کی خوش حالی کا مظہر اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے روشنی کی کرن بھی سمجھا جارہا ہے۔

ملکی معیشت کسی بھی جمہوری ملک کے استحکام اور ترقی کا زینہ ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی، فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد، پشاور، سیال کوٹ، ملتان، حیدرآباد اور کوئٹہ کے صنعتی علاقوں پر حکومت نے توجہ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار میں آنے والے حکم رانوں نے اس جانب وہ توجہ نہیں دی جو کہ دینا چاہیے تھی۔

چار دہائی کی حکومتوں نے معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے جو بلند بانگ دعوے کیے وہ زیادہ تر اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں خبروں کی حد تک محدود رہے اور بڑے سرمایہ دار بیرون ملک سرمایہ کاری پر مجبور ہوئے، جس کے باعث سکھر سمیت سندھ کے صنعتی علاقوں میں صنعتی یونٹس تیزی سے غیر فعال ہوتے رہے اور بے روزگاری کے ایک طوفان نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

موجودہ حکمران جماعت نے اقتدار سنبھالتے ہی اقتصادی اصلاحات اور ترقی کے لیے کئی منصوبوں کا اعلان کیا مگر وہ بھی زیادہ تر اعلانات تک محدود رہے۔ ملک کی صنعتی سرگرمیوں پر نظر ڈالی جائے تو ایک اچھی فیکٹری یا کارخانہ کم از کم سو گھروں کے چولہے کو جلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ملک کے جنوب مشرق میں واقع صوبہ سندھ جو140914 کلومیٹر اسکوائر پر پھیلا ہوا ہے، ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا سندھ سات ڈویژن کے29 اضلاع پر مشتمل ہے۔ جس میں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، شہید بے نظیر آباد، لاڑکانہ اور بھنبھور ڈویژن شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے 168 اراکین جس میں38 مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں قومی اسمبلی کی مجموعی 75 نشستیں جس میں 14 مخصوص خواتین اعلی ایوانوں میں نمائندگی کرتی ہیں۔

محصولات میں جہاں کراچی بڑا حصہ ڈالتا ہے وہی سکھر سمیت بالائی سندھ میں لاکھوں ایکڑز رقبے پر کاشت ہونے والی فصلیں بھی محصولات میں اضافے کا سبب بنتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ترقی یافتہ مواقع نہ ہونے کے باعث یہ کسی کھاتے میں نہیں آتی۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ سکھر سمیت بالائی سندھ میں لاکھوں ایکڑز پر کاشت ہونے والی فصلوں کو ملکی و بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے کوئی سسٹم ہی موجود نہیں ہے۔

متعدد بار ڈرائی پورٹ، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون جیسے منصوبے بنائے گئے مگر وہ کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ ہر چند ماہ بعد وفاقی و صوبائی وزراء کی جانب سے اپنے دورہ سکھر کے موقع پر سکھر کے صنعت کار ان منصوبوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں مگر کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوتا۔ پاک چائنا اقتصادی راہ داری منصوبے سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ان منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے گا۔

پاک چائنا راہ داری منصوبہ خوش حالی کا ایسا منصوبہ ہے، جسے گیم چینجر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ معاشی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کا ایسا سفر ہے جس کا ہر پاکستانی کو برسوں سے انتظار تھا۔ سی پیک نہ صرف پاکستان بل کہ خطے کے تمام ممالک کے لیے خوش حالی کی نوید لے کر آیا ہے۔ راہ داری منصوبہ سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کے جال کے ذریعے گوادر پورٹ کو چائنا کے صوبے سنکیانگ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔

پہلا مغربی روٹ، گوادر سے ڈی آئی خان سے ہوتا ہوا میانوالی، حسن ابدال، داسو، گلگت اور خنجراب سے جا ملے گا۔ دوسرا، سینٹرل روٹ، گوادر سے خضدار، سکھر سے ہوتا ہوا ڈی جی خان، میانوالی، اسلام آباد، گلگت اور خنجراب سے جا ملے گا۔ تیسرا، مشرقی روٹ، کراچی، حیدرآباد، سکھر سے ہوتا ہوا رحیم یارخان، لاہور، اسلام آباد اور خنجراب سے جا کر ملے گا۔ اس منصوبے سے پاکستان کے چاروں صوبے مستفید ہوں گے اور تقریباً 55 شہروں کو آپس میں منسلک کیا جائے گا۔

پاکستان کے عوام، حکومت، سیاسی جماعتیں اس منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ سی پیک کے ذریعے توانائی، ٹرانسپورٹ، اقتصادی روٹس کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی۔ اس ضمن میں سب سے بڑا منصوبہ لاہور سے کراچی 6 رویہ موٹروے ہے جو کہ 1152کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

یہ موٹر وے کراچی، حیدرآباد، سکھر سے ہوتا ہوا لاہور تک جائے گا، جس کے بیشتر حصوں پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس میں سیکڑوں انٹر چینج پل، سروس ایریا، فلائی اوور، انڈر پاسز شامل ہیں۔ یہ منصوبہ خاص طور پر سکھر سندھ کی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا۔ منصوبے کے ذریعے اندرون سندھ کی منڈیوں تک رسائی ممکن ہوسکے گی اور عوام کو اس منصوبے کے ثمرات براہ راست حاصل ہوسکیں گے۔

پہلا سیکشن کراچی سے حیدرآباد تک 136 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ دوسرا سیکشن حیدرآباد سے سکھر تک 296 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ تیسرا سیکشن سکھر سے ملتان 387 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ چوتھا سیکشن ملتان سے لاہور 333 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ اقتصادی راہ داری کے منصوبے کے تحت سندھ میں سب سے زیادہ توانائی کے منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔ 35 بلین ڈالرز کے منصوبوں میں سے 11.5 بلین ڈالرز کے منصوبے صرف سندھ میں مکمل کیے جائیں گے جو سندھ کی ترقی و خوش حالی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اس کے علاوہ پورٹ قاسم کول پاور پروجیکٹ کے ذریعے 1320 میگا واٹ بجلی کی پیداوار بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ منصوبے دیہی اور دور دراز علاقوں میں بجلی اور روزگار کی فراہمی میں معاون ثابت ہوں گے۔ 660 میگا واٹ کا  حیپکو پاور پلانٹ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ توانائی کے منصوبوں میں سے ہوا سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے بھی شامل ہیں، جس میں 50 میگا واٹ کا سچل پاور پلانٹ بھی شامل ہے۔

ان تمام منصوبوں کے ذریعے سسٹم میں اضافی بجلی شامل ہوسکے گی اور لوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کے لیے نجات مل سکے گی۔ ملک کی بڑھتی ہوئی گیس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے گوادر، نواب شاہ LNG منصوبہ بھی اس میں شامل کیا گیا ہے جس کے تحت 711 کلو میٹر طویل پائپ لائن 2.5 ملین ڈالرز کی لاگت سے بچھائی جائے گی۔

دریائے سندھ کے کنارے آباد تجارتی شہر سکھر کی صنعتی سرگرمیوں پر نظر ڈالی جائے تو کچھ اس طرح ہیں۔ 6 دہائی قبل سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے 400 سو ایکڑز رقبے پر کام کا آغاز ہوا۔ سکھر کے صنعتی علاقے سائیٹ میں بڑے یونٹوں کے لیے 110 ایکڑز، چھوٹے صنعتی یونٹوں کے لیے (گولیمار) میں 50 ایکڑز، سندھ ویلفیئر ورکر بورڈ کے لیے 40 ایکڑز، ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے لیے 200 ایکڑز زمین مختص کی گئی۔

سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع تجارتی حب میں 1986 میں ڈرائی پورٹ کے قیام کے لیے آرائیں ریلوے اسٹیشن کو منتخب کیا گیا مگر آج تک اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس وقت سکھر، خیر پور اور گھوٹکی اضلاع میں مجموعی طور پر 1054 یونٹس ہیں جس میں سائیٹ سکھر میں 119 جب کہ گولیمار میں 100 جہاں علاقائی اور ملکی سطح کے سرمایہ کاروں نے 20 ارب روپے سے زاید کی سرمایہ کاری کرکے صنعتی علاقوں میں گھی، تیل، چینی، بسکٹ، آئس کریم، صابن، مشروبات، منرل واٹر، آٹا، چاول، کپاس، گتا، کھجور، تیزاب، آرسی سی پائپ، کپاس کے بیج، رنگ، پرنٹنگ پریس، ٹائلز، سنگ مرمر اور کھاد سمیت دیگر فیکٹریاں اور کارخانوں میں کئی لاکھ افراد برسر روزگار ہیں۔

اس کے علاوہ بالائی سندھ میں لاکھوں ایکڑز رقبے پر تیار ہونے والے موسمی فصلیں بھی بے روزگاری کے خاتمے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث سکھر ریجن میں 1035 بڑے یونٹ آج بھی غیر فعال ہیں اگر انہیں فعال کیا جائے تو ایک جانب بھاری محصولات میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہوگی۔

حاصل کلام یہ ہے کہ سکھر سمیت بالائی سندھ میں چھوٹے بڑے یونٹ حکومتی عدم توجہی کے باوجود اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں مگر ارباب اختیار نے آج تک انہیں وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق ہے۔ پاک چائنا اقتصادی راہ داری منصوبے کے پیش نظر امید کی جارہی ہے کہ اب ان تمام معاملات پر بھرپور توجہ دی جائے گی اور شہری و دیہی سندھ کو ترقی دینے کا خواب تعبیر پاسکے گا۔ شہروں و دیہی علاقوں میں ترقی ہوگی اور وہاں کے لوگوں کو روزگار ملے گا تو وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کریں گے جس سے ان کی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔

منصوبے کے ثمرات گو کہ آئندہ چند سالوں میں مرتب ہوں گے، تاہم حیدرآباد، سکھر اور ملتان تک موٹروے کی تعمیر کے حوالے سے شروع کردہ کام کے اثرات ابھی سے نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ نام ور ٹھیکے داروں کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ٹھیکے دار بھی مذکورہ تعمیراتی منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں۔ عام شہری یہ سمجھتا ہے کہ حیدرآباد سے کموں شہید سندھ و پنجاب بارڈر تک شروع ہونے والے کام کے دوران لوگوں کے مسائل میں تیزی سے کمی واقع ہوگی اور روزگار کے نئے مواقع ملیں گے۔

سکھر و نواحی علاقوں پر نظر ڈالی جائے تو لوگوں کا ذریعہ معاش دیہی علاقوں کی وہ زرعی زمین ہے جس پر وہ سال ہا سال محنت کرتے ہیں۔ بالائی علاقوں میں صنعتی انفرااسٹرکچر خستہ ہے، لوگوں کی بڑی تعداد مشکل حالات میں بڑے شہروں میں محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتی ہے، راہ داری منصوبہ دیہی سندھ سے گزرنے والی شاہ راہیں اور مستقبل میں صنعتی زون سے یہ مسائل حل ہوں گے، جس سے ہمارے مستقبل کے معماروں کا مستقبل بہتر ہوگا اور وہ بین الاقوامی سطح پر موجود چیلینجز سے بہ خوبی نمٹ سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔