اسپورٹس کلچر واپس لائیں

سلیم خالق  جمعرات 27 اکتوبر 2016
پی سی بی گو کہ سب کچھ نہیں سنبھال سکتا لیکن رکی ہوئی کرکٹ شروع تو کرا دے۔ فوٹو: فائل

پی سی بی گو کہ سب کچھ نہیں سنبھال سکتا لیکن رکی ہوئی کرکٹ شروع تو کرا دے۔ فوٹو: فائل

چند سال پہلے کی بات ہے، ہمیں ’’ایکسپریس‘‘ کیلیے سب ایڈیٹرز کی تلاش تھی، ایسے میںکچھ لوگ انٹرویوز کیلیے آئے، ان میں سے ہی ایک اسپورٹس کے شوقین لڑکے سے میں نے پوچھا کہ آپ نے بتایاکھیلوں میں بہت دلچسپی ہے، کون سے گیمز کھیلتے تھے؟

’’میں تو اب بھی کرکٹ، ٹینس، فٹبال وغیرہ کھیلتا ہوں جناب‘‘

اچھا ویری گڈ، میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے ’’کمپیوٹر پر کھیلتا ہوں دیگر گیمز کی سی ڈی آسانی سے نہیں ملتیں تو وہ نہیں کھیل پاتا‘‘ یہ سن کر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا، یہ کوئی مذاق کی بات نہیں بلکہ سچا واقعہ تھا، اب میں اپنی مثال دیتا ہوں، اسکول کیلیے میں نے کرکٹ اور فٹبال دونوں میں حصہ لیا، کالج میں داخلہ ہی اسپورٹس کوٹے پر ہوا، بچپن میں ہاکی، بیڈمنٹن سمیت کئی دیگر گیمز بھی کھیلے، حالانکہ اس وقت کراچی کے حالات بھی خاصے خراب ہوا کرتے تھے، مگر پھر آہستہ آہستہ اسپورٹس کلچر ختم ہونے لگا۔

نوجوان پہلے کمپیوٹر اور اب موبائل فونز میں وقت صرف کرتے ہیں، پہلے ہمارے اصل دوست ہوا کرتے تھے اب فیس بک فرینڈز ہوتے ہیں، حقیقی رشتہ داروں کو لفٹ نہیں کراتے مگر پوسٹ کرتے ہوئے انجان لوگوں کو متاثر کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، آج ہم جو کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ سامنے نہیں آ رہا اس کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ اب لوگ کھیلوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، کل ہی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے منیجر اعظم خان سے بات ہو رہی تھی، وہ شکوہ کر رہے تھے کہ نیو یونائیٹڈ گراؤنڈ میں میلہ لگا دیا گیا، میں نارتھ ناظم آباد کی مثال دیتا ہوں، وہاں دو گراؤنڈز آمنے سامنے ہوا کرتے تھے، ایک پر ہاکی اکیڈمی بنا کر تالے لگا دیے، دوسرے پر بھی تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔

بفرزون میں جہاں سرفراز احمد نے اپنی ابتدائی کرکٹ کھیلی اس گراؤنڈ پر اب پارک بن چکا، اظہر زیدی ناراض ہیں ورنہ ان سے پوچھ کر بتاتا کہ لاہور میں بھی کلب کرکٹ کا کیا حال ہے مگر مجھے پتا ہے کہ وہاں بھی حالات اچھے نہیں ہیں، چھوٹے علاقوں کو تو چھوڑیں بڑے شہروں میں بھی اب کھیلوں کی سہولتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں، کلبز کے پاس اپنے گراؤنڈز موجود نہیں جو ہیں وہاں بھاری فیسز ادا کرنا پڑتی ہیں، پہلے لڑکوں کو کھیل کی بنیاد پر ملازمت مل جاتی تھی اب یہ سلسلہ محدود ہو چکا، کوئی غریب بچہ کمائے یا کھیلے؟

اسکول اور کالجز میں اسپورٹس کو اب اہمیت نہیں دی جا رہی،حالانکہ ماضی میں کئی عظیم کرکٹرزکو اسکول کرکٹ نے ہی ابتدائی پلیٹ فارم فراہم کیا، دیگر کھیلوں میں بھی ایسا ہی تھا، ہم صرف کرکٹ کی بات کرتے ہیں، آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کتنے زیادہ کلبز ہیں مگر ان میں سے گراؤنڈز کس کے پاس ہیں؟ پاکستان کرکٹ کلب کراچی کی معروف ٹیم ہے جس کیلیے سرفراز احمد، اسد شفیق وغیرہ کھیلتے ہیں اس کا بھی اپنا کوئی گراؤنڈ نہیں، جو گراؤنڈز ہیں ان پر بھی قبضہ و دیگر مافیاز کی بُری نظریں ہیں۔

گذشتہ دنوں شکیل شیخ نے مجھے بعض تصاویر بھیجیں جس میں سرکاری اہلکاروں نے اسلام آباد کے ایک گراؤنڈ کا تیا پانچہ کر دیا تھا،کراچی میں گوکہ پروفیسر اعجاز فاروقی کی زیرقیادت کے سی سی اے اپنا کام بخوبی کر رہی ہے، قومی ایونٹس میں ٹیموں کی عمدہ کارکردگی اس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے، مگر پی سی بی کو بھی سامنے آنا چاہیے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، ایسے میں گڑھی خدا بخش اور دیگر مقامات پر نئے اسٹیڈیمز بنانے کا کیا جواز تھا؟ اسلام آباد میں اسٹیڈیم بنا کر آپ کسے کھلائیں گے؟

ویسے ہی موجودہ وینیوز کی دیکھ بھال اور وہاں نوازنے کیلیے رکھے گئے ملازمین کی فوج کو تنخواہیں دینے پر ماہانہ کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں، میرا بورڈ کو مشورہ ہے کہ وہ نئے گراؤنڈزبنانے کیلیے ایسوسی ایشنز کا ساتھ دے اور موجودہ گراؤنڈز کو ایک بار پھر اپ گریڈ کرائے، ٹرف وکٹ کے حامل وینیوز میں کلبز کو مفت میچز کھیلنے اور پریکٹس کی سہولت دی جائے، ایسوسی ایشنز کے ساتھ مل کر وہاں وقتاً فوقتاً کیمپس بھی لگائیں، سال بھر فارغ بیٹھ کر مفت کی تنخواہیں اڑانے والے اکیڈمی آفیشلز اور کوچز کو وہاں بھیجیں تاکہ ٹیلنٹ بھی ملے، اسی طرح اسکول کرکٹ کواسپانسر ہی دلا دیں۔

میچز میں اسٹار کرکٹرز کو بھیجیں جو مین آف دی میچ ایوارڈز وغیرہ دیں، اپنے ساتھیوں کو مشہور ہوتا دیکھ کر دیگر بچے بھی کھیل کی جانب راغب ہوں گے، آسٹریلیا اور انگلینڈ وغیرہ میں ہمیشہ میں نے دیکھا کہ میچ کے وقفے میں بچے گراؤنڈ میں آ کر کھیلتے ہیں،ہمارے یہاں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی تو ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈومیسٹک میچز میں ہی ایسا کردیں، پورا کرکٹ بورڈ ہر ٹور میں مفت کی سیر پر جاتا ہے، ہر سیریز میں ملک بھر سے پانچ باصلاحیت بچوں کو لے جانے میں کتنی رقم خرچ ہو گی؟

یہ بھی کسی اسپانسر سے پوری ہو سکتی ہے، اس سے بھی دیگر کو کھیل کی جانب آنے کی تحریک ملے گی، زیادہ نہیں ابتدا میں ہر بڑے شہر سے پانچ حقدار نوجوان کرکٹرز کو ماہانہ 20 ہزار روپے ہی دینا شروع کر دیں، اس سے حوصلہ افزائی ہی ہو جائے گی، یقین مانیے سب رقم ملا کر ایک ڈائریکٹر کی تنخواہ کے برابر بھی نہیں بنے گی، کالجز میں بھی کرکٹ کے فروغ کیلیے اقدامات کریں۔

پی سی بی گو کہ سب کچھ نہیں سنبھال سکتا لیکن رکی ہوئی کرکٹ شروع تو کرا دے، ایک بار ماضی جیسے حالات ہو گئے تو پھر اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، جس طرح پی ایس ایل سے پیسہ کمانے کیلیے بورڈ حکام نے دن رات ایک کر دیے، ایک اسکول ، کالجز کی لیگ بھی کرا دیں، اس میں ٹیموں کو تمام سہولتیں دیں، جب چینلز رمضان کرکٹ کے میچز دکھا سکتے ہیں تو یہ میچ کیوں نہیں ٹیلی کاسٹ کریں گے؟ بورڈ کے بعض آفیشلز اتنے طاقتور ہیں کہ ایک فون کال پر اسپانسر لاکھوں روپے دینے کو تیار ہو جائیں، کوشش کریں پہلا قدم تو اٹھائیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری ٹیسٹ ٹیم میں موجودہ دور کے تین عمر رسیدہ کرکٹرز شامل ہیں، نوجوان کیوں نہیں آ رہے؟ ہنگامی اقدامات نہ کیے تو چند برس بعد بہت خراب حالات سامنے آنے والے ہیں، بورڈ والوں اپنا تو بہت بھلا کر لیا کچھ ملک کیلیے بھی سوچ لیں، یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ نئی نسل کو موبائل اور کمپیوٹرز پر گیمز کھیلنے اور فیس بک و ٹویٹر پر وقت گذارنے کا عادی بنانا ہے یا میدانوں میں مصروف رکھنا ہے، امید ہے کوئی تو اس بارے میں کچھ سوچے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔