عقیدۂ ختم نبّوت کی اہمیت

مولانا عزیزالرحمن جالندھری  جمعـء 28 اکتوبر 2016
نبی اکرم ﷺ ختم نبوت کے محل کی آخری اینٹ ہیں۔ آپؐ کی آمد کے بعد اس محل کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔۔ فوٹو: فائل

نبی اکرم ﷺ ختم نبوت کے محل کی آخری اینٹ ہیں۔ آپؐ کی آمد کے بعد اس محل کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔۔ فوٹو: فائل

ختم نبوت کا عقیدہ دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا تھا اسے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ پر ختم فرما دیا اور ختم نبوت کے عظیم الشان محل کی تکمیل حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ پر مکمل فرما دی۔ ختم نبوت کے عظیم الشان محل کی تکمیل حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کا وجود مسعود ہے۔

ختم نبوت کے اس عقیدے پر قرآن کریم میں متعدد آیات موجود ہیں اور تقریباً دو سو سے زیادہ روایات ہیں، جن سے عقیدۂ ختم نبوت بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے، ایسے تواتر اور قطعیت کی نظیر کسی اور مسئلے میں ملنا مشکل ہے۔

مذکورہ مسئلے پر نہ صرف امت محمدیہؐ کا اجماع ہے بل کہ تمام کتب سماوی کا اور تمام انبیاء کرامؑ کا اس پر اجماع ہے۔ عالم ارواح میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا اس پر عہد و پیمان ہے۔ جیسے توحید الٰہی تمام ادیان کا اجماعی عقیدہ ہے اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ بھی تمام کتب الٰہیہ، تمام انبیاء کرامؑ اور تمام ادیان سماویہ کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے۔ آغاز انسانیت سے لے کر آج تک اس پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ ہی ہیں اور سلسلۂ نبوت و رسالت آپؐ کی ذات گرامی پر ختم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب سماویہ میں اس کی اَن گِنت پیشن گوئیاں کی گئیں، آپؐ کا نام، القاب، جائے ولادت اور آپؐ کے دارِہجرت کی خبریں دی گئیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس عقیدے کے بیان کے سلسلے میں تمام مخلوقات پر اور تمام اقوام عالم پر اپنی حجت پوری فرما دی اور اس عقیدے سے کسی صاحب ایمان کو کسی زمانے میں اختلاف نہیں رہا۔

دین اسلام میں جس طرح توحید باری تعالیٰ، رسالت اور قیامت کے بنیادی، قطعی اور اصولی عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح اس امر پر بھی ایمان لانا لازم ہے کہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں۔ یوں تو مکمل قرآن کریم ختم نبوت کی دلیل ہے، کیوں کہ قیامت تک کے لیے امتِ مسلمہ کے لیے راہِ نجات قرآن کو ماننا اور اس میں موجود احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اگر آپؐ کے بعد بھی کسی نبی کی بعثت متوقع ہوتی تو لازمی تھا کہ اس پر وحی الٰہی بھی نازل ہوتی تو پھر نجات کے لیے اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہوتا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو آپ پر نازل ہوئی اور جو آپ سے پہلے نازل ہوئی اور یوم آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کام یاب ہیں۔‘‘ (البقرۃ)

قرآن کریم کی ایک سو کے قریب آیات سے مسئلہ ختم نبوت بڑی صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’ محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن آپ اﷲ کے رسول اور تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب)

اس آیت کریمہ میں صراحت ہے کہ حضرت محمد ﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور تمام نبیوں کے بعد آپؐ کی بعثت ہوئی، گویا آپؐ کی آمد کے بعد کوئی نیا نبی پیدا ہی نہیں ہوسکتا اور آپؐ کے بعد قیامت تک پیدا ہونے والے لوگ آپؐ ہی کی امت میں داخل ہوں گے۔ مذکورہ آیت میں نبی اکرم ﷺ سے أبوت (باپ ہونے) کی نفی کرکے اس طرف اشارہ کر دیا گیا کہ آپؐ کے بعد اگر ہمیں کسی کو نبوت عطا کرنا ہوتی تو ہم آپؐ کے فرزندان گرامی کو زندہ رکھتے اور انہیں یہ منصب عالی عطا فرماتے۔ مگر چوں کہ آپؐ پر سلسلۂ نبوت ختم تھا، اس لیے نہ آپؐ کی اولاد نرینہ زندہ رہی، نہ ہی آپؐ کسی بالغ مرد کے باپ کہلائے۔ یہی بات ایک حدیث میں بیان فرمائی: ’’ اگر (حضورؐ کے بیٹے) ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو وہ نبی ہوتے۔‘‘ یعنی آپؐ کے بعد اگر کسی قسم کی نبوت کی گنجائش ہوتی تو اس کے لیے گرامی قدر بیٹے کو زندہ رکھا جاتا اور وہی نبی ہوتے، لیکن ابراہیم ؓ اس وجہ سے بچپن میں دنیا سے رخصت ہوگئے کہ آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور وہ زندہ رہتے تو نبی بنتے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کو منظور تھا آپؐ پر نبوت کا دروازہ بند کرنا، تو اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی نرینہ اولاد کو بھی بچپن میں دنیا سے اٹھا لیا۔

حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی ختم نبوت کا اعلان مختلف عنوان اور مختلف پیرایوں میں سیکڑوں مرتبہ، متعدد مواقع پر فرمایا ہے اور ختم نبوت کی روایات حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے نبوت کو ایک محل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اپنی ختم نبوت کو اس طرح بیان فرمایا: ’’ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کوئی عمارت بنائی ہو اور اس کو خوب سجایا ہو اور مزیّن کیا ہو مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہو، لوگ اس کے ارد گرد چکر لگانے لگے اور اس کے حسن تعمیر پر خوش ہونے لگے اور کہنے لگے کہ یہاں پر اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی، آپؐ نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی تمام نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔‘‘

(مسلم 2، 248)

نبی اکرم ﷺ ختم نبوت کے محل کی آخری اینٹ ہیں۔ آپؐ کی آمد کے بعد اس محل کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ اب اس میں نہ کسی اضافے کی گنجائش ہے اور نہ کمی کا امکان۔ ختم نبوت کے محل کی تکمیل کے بعد جو شخص کسی بھی انداز میں نبی بنائے جانے کا دعویٰ کرے گا وہ شخص جھوٹا اور کذاب ہے اور اس کا دعویٰ باطل ہے ۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ میری امت میں تیس جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ (مسلم)

اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد نبوت کا ہر دعوے دار جھوٹا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کے بعد مدعیان نبوت بھی ضرور پیدا ہوں گے، جن کا دعویٰ ہوگا وہ نبی ہیں مگر وہ جھوٹے ہوں گے۔

صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کی جسم و جاں کی حفاظت کی، آپؐ کے دین کو محفوظ رکھا اسی طرح آپ ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ میں جان کی بازیاں لگائیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔