مخلص اور نیک سیرت دوست

راحیل گوہر  جمعـء 28 اکتوبر 2016
اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کا سچا خیر خواہ ہو۔ فوٹو: فائل

اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کا سچا خیر خواہ ہو۔ فوٹو: فائل

رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، دوستی قائم کرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔‘‘ ( مسندِ احمد)

دوست بنانے کا چلن برس ہا برس سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بسا اوقات بعض دوستیاں خون کے رشتوں سے بھی بڑھ کر مثالی ثابت ہوتی ہیں، دوستی کی لاج رکھنے کی خاطر اپنی جان پر کھیل جانا بھی غیرت کا تقاضا سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ دوست نے دوستی کا وقار اس طرح بھی بلند رکھا ہے کہ ایک نے دوسرے کے لیے اپنی چاہت اور پیار کو دوسرے دوست کی چاہت پر قربان کر دیا ہے اور دوستی کے تقدس پر آنچ نہیں آنے دی۔ گہری دوستی انسان کے فکر و عمل پر گہر اثر ڈالتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، دوستی قائم کرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔‘‘ ( مسندِ احمد)

اس تناظر میں دیکھیں تو انسان کی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ دوست کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ دنیا میں بسنے والے لوگوں کی اس بھیڑ میں مخلص، وفا شعار، پاکیزہ ذہنیت اور اعلیٰ اوصاف کے حامل دوست کا ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اسلام اجتماعیت اور محبت کا دین ہے، اسی لیے لوگوں سے ربط و تعلق پیدا کرنے، باہمی راہ و رسم بڑھانے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنے پر زور دیتا ہے۔

اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کر تا ہے اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے نہیں ملتا اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر نہیں کر تا۔‘‘ ( رواہ الترمذی)

لیکن آج کے اس پُرفتن اور مادہ پرستانہ دور میں دوستیاں بھی خودغرضی، مفاد پرستی، دھوکا دہی، چھل فریب اور احسان فراموشی کا روپ ڈھال چکی ہیں۔ مخلص اور بے لوث دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ آج کل دوستیاں سیاسی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ اب دوستیاں بعض اوقات مجرموں کے ہاتھ مضبوط کر نے کے لیے بھی کی جاتی ہے اس طرح کی دوستیوں میں مادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور اثر و رسوخ کا دائرہ بھی وسیع ہو جاتا ہے۔ جس سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں کے لیے دروازے کھل جا تے ہیں۔ اسلام اس طرز عمل پر بھی ان الفاظ میں انسان کی راہ نمائی کر تا ہے۔

’’ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اﷲ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (المائدہ)

اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کا سچا خیر خواہ ہو۔ وہ ہمیشہ دوست کی بھلائی اور اس کے سکون و راحت کا ہر مرحلے پر خیال رکھے۔ کوئی ایسا عمل جو دوست کی اخلاقی کج روی یا قانون شکنی کا باعث بنتی ہو ، تو پیار و محبت اور حکمت کے ساتھ اس کے عمل کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بر وقت دوست کو آگاہ کردے، یہی سچی دوستی اور خد ا ترسی کی پہچان ہے۔ صحابہ کرامؓ کی دوستی اور دشمنی کا معیار قرآن حکیم میں یوں بیان ہوا ہے:

’’ محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں یعنی جو لوگ اﷲ کے نافرمان ہیں ان کے ساتھ دوستی کا کوئی بندھن نہیں باندھا جاسکتا۔ اور جو لوگ زیادتی اور سرکشی کے کاموں سے خو د کو بچاتے ہیں وہ دوستی، رحم اور رواداری کے اصل مستحق ہیں۔ مسلمانوں کی دوستی، رفاقت اور بے لوث اجتماعیت جتنی بڑھتی جائے گی، اﷲ کی خصوصی رحمتیں اور برکتیں وسیع ہوتی جائیں گی۔ کیوں کہ اﷲ کسی کی نیکیوں کو ضائع کر نے والا نہیں ہے۔ اسی لیے نماز جو ارکان اسلام کا دوسرا بڑا اور اہم رکن ہے اس کے بارے میں اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’ تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھی جائے، اور ایک آدمی کے ساتھ نماز کی ادائی سے زیادہ ثواب دو آدمیوں کے ساتھ مل کر ادا کرنے میں ہے۔ اور یہ تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی اﷲ کی نظر میں محبوب ہوگی۔‘‘ (رواہ احمد)

اس طرح کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کی عظیم اجتماعیت کو دیکھنا چاہتا ہے، انہیں منتشر اور علیحدہ دیکھنا اس کی مزاج کے قطعی خلا ف ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ امت سے الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات سے فرار حاصل کرنا ہے۔ اور یہ فرار دراصل دوسرے معنی میں امر با المعروف اور نہی عن المنکر کے مقدس فریضے سے جان چھڑانے کے مترادف ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر انسان کو ایک مخصوص مزاج، طبیعتوں کے تضاد، مختلف رجحانات اور ترجیحات کے ساتھ پید ا کیا ہے۔ ان میں بعض لوگ بڑے عجلت پسند ہوتے ہیں اور بہت جلد ایک دوسرے سے دوستی اور راہ و رسم بڑھا لیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ محفلوں اور اجتماعیت سے کتراتے ہیں اور اپنی دنیا میں محصور رہتے ہیں۔ ایک اجنبیت اور انجانا سا خوف ان کے وجود سے چمٹا رہتا ہے۔ اور یہ خوف انہیں اپنی ذات کے خول میں بند رکھتا ہے۔ اسلام چوں کہ دین فطرت ہے لہٰذا وہ ہر مزاج اور افتاد طبع کے مطابق ان کی راہ نمائی کر تا ہے۔ وہ پہلے گروہ سے مطالبہ کر تا ہے کہ لوگوں سے میل جول رکھو اور ان کو دین سکھاؤ۔ جب کہ دوسرے گروہ کو اس کی ہدایت یہ ہے کہ مسلمان کو نرم دل اور بااخلاق ہونا چاہیے، ہم درد ِ خلائق اور محبوبِ انسانیت ہونا چاہیے۔ گوشہ نشینی اور تجرد کی زندگی اسلام میں پسندیدہ نہیں۔ اپنی ذات کا طواف وہی لوگ کر تے رہتے ہیں جو زندگی کی حقیقت سے صحیح طور پر واقف نہیں ہوتے۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ ( الذاریات )

بات دوستی کی ہورہی تھی، تو بہترین دوستی اور صحبت کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے اغراض و مفادات سے پاک ہو اور خالص حبّ انسانیت کی نیت سے استوار کی گئی ہو۔ دوست میں ایمان، خود احتسابی اور وفا داری کا جذبہ کار فرما ہو تو دوست کا یہ انداز اﷲ کو بھی محبوب ہے۔ انسان کے اپنے دل میں جب ایمان و یقین کی شمع فروزاں ہوجاتی ہے، اسلام کی حقانیت اور ذریعہ ہدایت ہونے کا ادراک جب اس کے قلب و نظر میں جا گزیں ہو جاتا ہے تو پھر وہ ہر دوست اور دشمن کو اسی آئینے میں دیکھنے کا آرزومند رہتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے پاکیزہ اور حرص و ہوس سے پاک دوستی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے اور مسلمانوں کو اس طرف رغبت دلائی ہے کہ وہ خالص اﷲ کے لیے دوستی کریں اور اسی کی رضا کے لیے اسے قائم رکھیں۔ اﷲ نے اس کا بہترین اجر متعین کیا ہو ا ہے۔

سیدنا عمر بن خطابؓ اﷲ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث بیان کر تے ہیں کہ: ’’ اﷲ کے کچھ بندے ایسے ہوں گے جو انبیاء میں سے ہوں گے نہ شہداء میں سے، لیکن ان کے مقامِ خداوندی کی وجہ سے انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے‘‘ لوگوں نے پوچھا : اے اﷲ کے رسول ﷺ ! ہمیں بتائیے وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ ؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اﷲ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کی ہوگی حالاں کہ ان کے درمیان کوئی نسبی رشتہ ہوگا نہ وہ ایک دوسرے کو مال دیں گے۔ ‘‘ (ابوداؤد)

دوستی بڑی اہمیت اور دوررس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ چناں چہ اگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں یہ دوستی اور رفاقت کارفرما ہے تو اجر و ثواب کا باعث بن سکتی ہے اور اگر گناہ، سرکشی، اﷲ کی نافرمانی اور قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی میں یہ دوستی ایک دوسرے کی معاون ہے تو اﷲ کے حضور یہ دوستیاں کسی کام نہ آسکیں گی اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بن جائیں گی۔ اس دن نہ کوئی دوست کسی کے کام آسکے گا اور نہ کوئی رشتہ یا نسبی تعلق انسان کی جاں بخشی کر وا سکے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہر انسان دوستوں کا انتخاب کر تے وقت اِن حقائق کو پیش نظر رکھے۔ اسی میں اس دنیائے فانی میں خیر و بھلائی، سکون و راحت ہے اور اسی پر نجات ِ اخروی کا دار و مدار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔