بلیک کاربن، قراقرم گلیشیئرز کے لیے نیا خطرہ

شبینہ فراز  اتوار 30 اکتوبر 2016
گرین کلائمیٹ فنڈ نے پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے 38 ملین ڈالرز کی منظوری دے دی ہے۔ فوٹو: فائل

گرین کلائمیٹ فنڈ نے پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے 38 ملین ڈالرز کی منظوری دے دی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آئے ہوئے ممالک میں سرفہرست آچکا ہے اور وہ قدرتی آفات کے مقابلے میں جانی اور مالی نقصان کی صورت بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قیمت پاکستان میں سالانہ 6 سے 14 ارب ڈالرز کے درمیان ہے۔ اگر صرف 2010 کے سیلابِ بلاخیز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی معیشت 2010 میں 10ارب ڈالرز کا نقصان اٹھاچکی ہے۔

موسموں کی تبدیلی سے تیز اور بارشیں، سیلاب اور طوفان جیسے خطرات تو آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن ایک نیا خطرہ اور سامنے آچکا ہے اور اگر اس کا سدباب نہیں کیا گیا تو یقیناً یہ موسمی تغیرات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ ہم بات کررہے ہیں بلیک کاربن کی آلودگی کی۔ اس خطرے کے بارے میں ابھی بہت سے لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک یہ بھی موسموں کی شدت کو بڑھاوا دینے میں کسی دوسرے خطرے سے کم نہیں ہے۔ یہ آلودگی یا بلیک کاربن کے ذرات ہمارے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز کے جلد پگھلنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔

پاکستان کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے پیش کردہ نئی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ تیس برسوں سے ہمارے خطے میں موجود برفانی گلیشیئرز کیوں کم ہورہے ہیں۔

پاکستان کے محکمۂ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہم نے قراقرم سلسلہ کوہ سے پانچ گلیشیئرز سے برف کے نمونے حاصل کیے پھر ان کا چین کی لیبارٹری میں آئسو ٹوپک تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ برف کی نچلی سطح پر سیاہ کاربن کی خاصی تعداد موجود ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ کس طرح کاربن کے بھاری ذرات نشیب میں جا کر گلیشیر کے دامن میں جمع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاہ کاربن کی موٹی تہہ ایک کالی چادر کی طرح عمل کرتی ہے اور برف میں سورج کی روشنی منعکس کرنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد برف کے ذخائر سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرنے لگتے ہیں اور برف پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ اس سے برف پگھلتے پگھلتے گلیشیئرز کے دامن میں پانی کی جھیلیں بن جاتی ہیں۔

مختلف گلیشیئرز کے نمونوں میں بلیک کاربن کی آلودگی کا معیار مختلف پایا گیا۔ یہ تفصیل درج ذیل ہے:

ہنارچی گلیشیئر، جس کی لمبائی 17کلومیٹر ہے، کے برف کے نمونوں میں کاربن کی مقدار 224mg/m2 پائی گئی۔ ہسپر گلیشیئر جس کی لمبائی 53کلومیٹر اور آلودگی کی مقدار161mg/m2، میناپن کی لمبائی  16کلومیٹر اور آلودگی کی مقدار 192mg/m2، گوٹومی گلیشیئر کی لمبائی 14کلومیٹر اور کاربن کی آلودگی کی مقدار 105mg/m2اور بالتر گلیشیئر کی لمبائی 20کلومیٹر ہے اور کاربن کی آلودگی کی مقدار  63 mg/m2پائی گئی۔

محکمۂ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف تبت پلیٹو ریسرچ سے وابستہ چینی سائنس دانوں کے کام کا حوالہ بھی دیا، جنہوں نے گلگت بلتستان کی استور وادی میں ہوا میں موجود بلیک کاربن کے نمونوں پر کام کیا تھا اور گلیشیئرز کے پاس نچلی سطح میں موجود کاربن کی غیرمعمولی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔

’’انہوں نے ان ذرات کا سراغ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان کی اسٹیل انڈسٹری سے خارج ہورہے ہیں، جو ہوا کے ذریعے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اور پھر یہی ذرات سردیوں میں گہری سیاہ دھند کی وجہ بن رہے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر غلام رسول نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گلیشیئرز پر موجود بلیک کاربن کی آلودگی کے ماخذ دراصل دو پائے گئے، ایک تو سبب مقامی ہے جس میں سردیوں میں ہیٹنگ اور کوکنگ کے لیے لکڑی یا کوئلے کا جلنا ہے۔ ان سے نکلنے والا دھواں وادیوں کے اوپر ایک تہہ سی بنالیتا ہے اور پھر ہلکی ہوا کے ساتھ یہ تہہ گلیشیئرز پر جم جاتی ہے، جب کہ دوسری وجہ ٹرانس باؤنڈری یا سرحدوں سے ماورا مسئلہ ہے۔ انڈیا میں ہمالیہ کے فٹ ہل پر موجود شہروں کی انڈسٹری سے نکلنے والی آلودگی ہے مثلاً ہماچل پردیش یا اترپردیش میں موجود صنعتیں اس کی ذمے دار ہیں۔ ہوا کی سمت عموماً مشرق سے مغرب ہوتی ہے جب انڈیا سے ہوا آتی ہے تو یہ آلودگی ساتھ لاتی ہے ۔ سردیوں میں یہی دھواں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں شدید دھند کا سبب بنتا ہے۔ سردیوں میں چوںکہ ہوا کم چلتی ہے اس لیے یہ دھند کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ غلام رسول صاحب نے بتایا کہ زوردار بارشوں سے بھی گلیشیئرز کے حجم کم ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز کی مختلف بلندیوں سے پانی کے نمونوں کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مون سون کی شدت بلندیوں پر زیادہ ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر بھی بارش میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی گذشتہ تیس برسوں کے موسمیاتی ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد غلام رسول صاحب نے بتایا کہ بلندی پر بھی مون سون کی ہوائیں شدید ہوتی جارہی ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں جھاڑ کھنڈ انڈیا اور دو ہزار دس میں نوشہرہ پاکستان اس کی اہم مثالیں ہیں۔

اس طرح نہ صرف بارش کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے بل کہ گلیشیئرز والے بلند علاقوں میں بارشیں تیز ہورہی ہیں۔ مون سون بارش کا پانی برف کے مقابلے میں قدرے گرم ہوتا ہے اور اس طرح برف زیادہ تیزی سے پگھلتی ہے۔ دوسری طرف گرمیوں میں زیادہ بلندیوں پر تیز بارشوں سے سیلاب کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ برف باری کے اوقات میں بھی تبدیلی ہورہی ہے۔

غلام رسول صاحب نے بتایا کہ برف باری نومبر سے شروع ہوجاتی ہے اور مارچ تک جاری رہتی ہے، جب کہ سب سے زیادہ برف جنوری میں گرتی ہے۔ جتنے عرصے تک برف گلیشیئرز پر رہے گی ہوا ٹھنڈی رہے گی اور نرم برف ٹھوس شکل میں ڈھلتی جائے گی، لیکن اب زیادہ سے زیادہ برف باری جنوری کے بجائے فروری میں ہورہی ہے۔

شمالی پہاڑوں میں درجۂ حرارت میں اضافے سے اب سردیاں بھی سکڑ رہی ہیں، جب کہ مارچ میں درجۂ حرارت صفر درجہ سینٹی گریڈ سے اوپر نوٹ کیا گیا ہے۔ اس سے بھی برف پگھل رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوکش ہمالیہ اور قراقرم گلیشیئرز میں برف کم کم جمع ہوگی۔

گلیشیئرز پر کام کرنے والے کچھ ماہرین نے بلیک کاربن کی آلودگی کا سبب پاکستان اور ایشیا کے آبادی کے لحاظ سے بڑے اور صنعتی شہروں کو قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2010 کے شدید سیلاب اور میدانی علاقوں میں کئی کئی دنوں تک مسلسل چھائے رہنے والے دھند کے گہرے بادلوں میں کراچی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ناسا کے ماحولیاتی سائنس کے ایک ماہر ولیم لیو کی زیرقیادت ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے کے گنجان آباد شہروں بالخصوص کراچی، نئی دہلی اور ڈھاکا ہمالیہ پر موجود برف کی ہزاروں سال پرانی پرتوں کے لیے شدید خطرہ بنتے جارہے ہیں، اگر ان شہروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات نہیں کیے گئے تو اس صدی کے وسط تک گلیشیئرز پگھلنے کا خطرہ موجود ہے۔

ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ 1550میل تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کی 110بلند ترین چوٹیاں اسی سلسلۂ کوہ میں واقع ہیں اور یہاں دس ہزار سے زیادہ گلیشیئر موجود ہیں، جو خطے کے تمام دریاؤں کو میٹھا پانی فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ستر کروڑ سے زیادہ آبادی کی خوراک اور پانی کی ضروریات کا انحصار ہمالیہ کے سلسلۂ کوہ پر ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین شمالی اور جنوبی قطب کے بعد ہمالیہ کو تیسرا قطبی علاقہ قرار دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی اور خطے کے دوسرے بڑے شہروں کے اکثر گھروں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی، کوئلہ یا گیس کے ایسے چولہے استعمال کیے جاتے ہیں جن سے خارج ہونے والے دھوئیں میں کاربن کے ذرات کی مقدار خطرے کی حد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ میں ناقص ایندھن کے استعمال اور انجن کی معمول کی دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑی مقدار میں کاربن گیسیس پیدا ہورہی ہیں۔ علاقے میں موجود کارخانے بھی گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہے ہیں، جو بالآخر گلیشیئرز پر آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔

بلیک کاربن سے مراد وہ باریک سیاہ ذرات ہیں جو مکمل طور پر جل نہیں پاتے اور گیسوں کے ساتھ شامل ہوکر دھوئیں کی شکل میں فضا میں پھیل جاتے ہیں۔ ماہرین انہیں بلیک کاربن کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ذرات برف کے تیزی سے پگھلنے کا سبب ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بلیک کاربن فضا میں موجود گرد کے ذرات سے مل کر گہرے بادل بناتا ہے، جو زمین پر آنے والی سورج کی تاب کاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ پہاڑی سلسلے میں پہنچ کر گردوغبار کے یہ بادل وہاں کا درجۂ حرارت بڑھا دیتے ہیں، جس سے نہ صرف برف پگھلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے بل کہ شمال کی طرف جانے والی مون سون ہواؤں پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔

گرین کلائمیٹ فنڈ، بھارت کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی امداد منظور

اب بھارت نے طے کرلیا ہے کہ وہ پاکستان کو نیچا دکھانے اور نقصان پہنچانے کے لیے کسی جگہ پیچھے نہیں رہے گا۔ ایسا ہی موقع تازہ ترین گرین کلائمیٹ فنڈ کی میٹنگ کا تھا جہاں اس نے پاکستان کے پیش کردہ پروجیکٹ پر اعتراضات کرتے ہوئے اسے مسترد کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر اسے اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب دیگر ممبران نے پروجیکٹ کو موضوع کے مطابق قرار دیتے ہوئے بھارت کے اعتراضات رد کرکے اس پروجیکٹ کو منظور کرلیا۔

یہ ذکر ہے گذشتہ ہفتے کا، جب جنوبی کوریا کے شہر سان ڈیاگو میں میٹنگ ہورہی تھی۔ واضح رہے کہ گرین کلائمیٹ فنڈ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے تحت 2010 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ وہی سال ہے جب پاکستان ایک تباہ کن سیلاب سے نبردآزما ہوا تھا۔

سان ڈیاگو میں گرین کلائمیٹ فنڈ کے اجلاس کا مقصد دنیا بھر سے پیش کیے گئے 10 پروجیکٹس کا جائزہ لینا تھا، جن کی مالیت800 ملین ڈالر تھی۔ یہ منصوبے ان غریب لوگوں کی مدد کے لیے تیار کیے گئے جو کلائمیٹ چینج جیسی بلا کے مہلک اثرات بھگت رہے ہیں۔ ان دس منصوبوں میں سے ایک پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے بھی پیش کیا گیا تھا۔ یہ پروجیکٹ گلیشیائی سیلابوں اور ان کے خطرات سے نبردآزما گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی مدد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

گرین کلائمیٹ فنڈ کی آزاد ٹیکنیکل کمیٹی کے تجزیے کے مطابق پاکستان کا پیش کردہ منصوبہ موضوع سے مطابقت کا حامل اور 700,000 غریبوں کی مدد کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت کے بورڈ ممبر دنیش شرما، جو بھارت کی وزارت خارجہ میں خصوصی سیکریٹری بھی ہیں، نے اپنے اعتراضات داغ دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے حوالے سے سائنسی شواہد بہت کم زور ہیں اور پاکستان کا منصوبہ بھی کم زور ہے۔ ان کے اعتراضات میں کوئی دم نہیں تھا۔ اس لیے دیگر 23 اراکین نے پروجیکٹ کو موزوں قرار دیتے ہوئے بھارتی رکن کے اعتراضات مسترد کردیے۔

گرین کلائمیٹ فنڈ نے پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے 38 ملین ڈالرز کی منظوری دے دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔