پشاور ائیر پورٹ پر دہشتگردوں کا حملہ

ایڈیٹوریل  اتوار 16 دسمبر 2012
ہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

ہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

پشاور میں باچا خان انٹرنیشنل ائیر پورٹ اوراس سے ملحقہ پاک فضائیہ کے ائیر بیس پر ہفتے کی رات دہشت گردوں جو حملہ کیا ، پندرہ گھنٹے پر محیط طویل آپریشن کے بعد سیکیورٹی اداروں نے اتوار کو دوپہر تک صورتحال پر قابو پالیا ہے۔ ائیر پورٹ پر حملے میں پانچ شہری جاں بحق‘45زخمی جب کہ پانچ دہشتگرد مارے گئے‘پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے دوسرے روز بھی کارروائی کرتے ہوئے تین دہشتگرد ماردیے جب کہ دو نے خود کو دھماکے سے اڑادیا۔ یوں اس سارے آپریشن میں دس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

اتوار کو ہونے والی کارروائی میں ایک پولیس اہلکاربھی شہید ہوا‘ سیکیورٹی اداروں نے ائیر پورٹ اور ملحقہ علاقوں کو کلیئر کردیا ہے اور ہوائی اڈے پر معمول کے مطابق پروازیں شروع ہوچکی ہیں‘ دو مشکوک افراد کوگرفتار کرلیاگیا‘ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے‘ آئی ایس پی آر نے دوسرے دن ائیر پورٹ سے ملحقہ علاقہ پائوکہ میں مارے جانے والے دہشتگردوں کے بارے میں بتایا کہ پانچوں ازبک باشندے تھے جب کہ باقی پانچ دہشت گردوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں یا غیر ملکی ہیں۔

پشاور ائیر پورٹ اور اس سے ملحقہ ائیر بیس پر ہونے والے اس حملے کا شمار ملک کی تاریخ میں  دہشت گردوں کے بڑے حملوں میں کیا جاسکتا ہے، اس سے قبل  دہشت گرد کراچی میں مہران بیس، کامرہ بیس، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور دیگر حساس اور اہم تنصیبات کو نشانہ بناچکے ہیں تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ان کے مذموم مقاصد ناکام بنا دیے۔ان حملوں سے دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاک فوج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت35  ہزار افراد  شہید ہو چکے ہیں۔

ارباب اختیار مسلسل یہ کہتے رہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے لیکن پشاور ائیر پورٹ پر حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے دہشت گرد پوری طرح فعال ہیں اور ان کا خفیہ اطلاعاتی نظام خاصا موثر ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی سیکیورٹی والے حساس مقامات پر بھی حملے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ در اصل ہمارا مقابلہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو علانیہ ہمارے ساتھ جنگ تو لڑ رہا ہے مگر یہ بے چہرہ دشمن ہماری ہی صفوں میں گھسا بیٹھا ہے، یہ دشمن ہمارے ساتھ ایک ایسی جنگ لڑنے میں مصروف ہے جس کا کوئی میدان نہیں ہے، ہمارا مقابلہ کسی منظم فوج کے ساتھ بھی نہیں ہے یعنی ایک ایسی جنگ جس میں ہمارا مدمقابل نظر نہیں آتا، ایسے دشمن سے مقابلہ کرنا صرف سیکیورٹی اداروں کا کام نہیں ہوتا، ہم سب کو مل کر یہ جنگ لڑنا ہوگی کیونکہ یہ اعصابی جنگ ہے جو قوم پر مسلط ہے اور ایسی جنگ ہم نے اعصاب کے ذریعے سے ہی لڑنی ہے اور لڑکر جیتنی ہے۔

یوں تو دہشت گردی کی اس جنگ میں پورا ملک متاثر ہورہا ہے لیکن صوبہ خیبرپختونخوا اوراس سے ملحقہ قبائلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہزاروں خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔2008ء میں اے این پی اور پیپلز پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا میں  اپنی کارروائیاں تیز کردی تھیں‘ آئے روز دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات معمول بن چکے تھے لیکن صوبائی حکومت نے دہشت گردوں سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان کے خلاف نہ صرف سخت سے سخت مؤقف اختیار کیا بلکہ دہشتگردوں کی بیخ کنی کے لیے پولیس فورس کے ساتھ ساتھ دیگر سیکیورٹی اداروں کی بھی مکمل پشت پناہی کی اس پاداش میں حکمراں جماعت کے کئی ارکان اسمبلی سمیت اے این پی کے ساڑھے چار سو سے زائد کارکن اور عہدیدار شہید ہوگئے بلکہ صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے بیٹے میاں راشد حسین کو بھی قربانی دینا پڑی۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ محض حکومت یا سیکیورٹی اداروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانا ہر گز مناسب نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بننا ہوگا اور اپنے دشمن کو ہم صرف اور صرف اتفاق اور اتحاد کے ذریعے شکست فاش دے سکتے ہیں۔اس معاملے میں ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کو نسلی، لسانی یا مسلکی اختلافات میں الجھانے کے بجائے انھیں دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کریں اور عوام کو اس جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

عوام کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں، اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھیں اور کسی بھی قسم کی گڑ بڑ کی اطلاع فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیں بلکہ ناخوشگوار صورتحال کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ لڑیں۔ اس قسم کی مثال ہم چند دن قبل ہی بنوں میں دیکھ چکے ہیں جب تھانہ ککی پر شدت پسندوں کے حملے کے فوراً بعد گائوں کے لوگوں نے بھی اسلحہ نکال لیا اور حملہ آوروں کا بے جگری سے مقابلہ کیا، اسی حملے کے دوران پاک فوج کا ایک ایسا جوان بھی شہید ہوا جو کھاریاں سے چھٹی پر اپنے گائوں آیا تھا مگر جب اس نے دیکھا قوم کو دشمن کے حملے کا سامنا ہے تو اس نے وردی پہنے بغیر لڑتے ہوئے قوم پر جان نچھاور کرنے سے دریغ نہیں کیا۔

پشاور ایئر پورٹ پر حملے کے دوسرے دن دہشت گردوں کا ایک زیر تعمیر مکان سے برآمد ہوکر دوبارہ مقابلہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے اور ان کی موجودگی کی اطلاع بھی مقامی لوگوں نے پولیس کو دی، یہ خوش آیند تبدیلی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف اپنی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردوں کو جڑ اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے۔صوبہ خیبر پختوخوا کی حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ  پولیس انفارمیشن سسٹم کو مزید بہتر بنائیں۔ایم این ایز اوراپم پی ایز اپنے حلقوں میں مشکوک افراد کا ڈیٹا جمع کریں اور خفیہ ایجنسیاں ان اطلاعات پر کارروائی کریں تاکہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں پر کریک ڈاؤں کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔