لاہور میں جرائم کی لہر

ایڈیٹوریل  منگل 29 نومبر 2016
 ۔ فوٹو : اے ایف پی

۔ فوٹو : اے ایف پی

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جرائم کی لہر نے اس تاثر کا کسی حد تک خاتمہ کیا کہ پنجاب خصوصاً لاہور پرامن شہر ہے۔ بلاشبہ پنجاب کو پرامن صوبہ کہا جا سکتا ہے جب کہ لاہور ایک پرامن شہر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں میں لاہور میں ڈکیتی‘ قتل اور راہزنی کی وارداتوں نے شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے‘ زیادہ تفصیل میں جانے کے بجائے نمونے کے طور پر چند وارداتوں کا ذکر ہی صورتحال کی عکاسی کر دے گا۔

21نومبر کو لاہور میں موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر5افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا اور فرار ہو گئے‘ مرنے والوں میں باپ اور بیٹا بھی شامل تھے‘ اسی روز ایک دکاندار نے فائرنگ کر کے دو ڈاکوؤں کو مار ڈالا‘ چند روز بعد لاہور کے ایک انتہائی پر رونق علاقے فیصل ٹاؤن میں ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے کار سوار سے موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے لوٹ مار کی اور باآسانی فرار ہو گئے‘ لاہور میں ٹریفک سگنلز پر ایسی واردات انوکھا واقعہ ہے جس سے شہریوں میں تشویش پیدا ہونا قدرتی امر ہے‘ اب لاہور کے ایم این ایز ہوسٹل چنبہ ہاؤس کے ایک کمرے سے خاتون کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ چنبہ ہاؤس ایک حساس جگہ ہے اور یہاں وی آئی پی حضرات ہی آ جاسکتے ہیں۔

یہاں سے لاش برآمد ہونا سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے‘ اب وزیراعلیٰ پنجاب نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے حکم کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے‘ جب ادارے موجود ہیں‘ ان اداروں کے افسر و اہلکار موجود ہیں اور ڈیوٹیاں دے رہے ہیں‘ تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں‘ تو کیا انھیں روزانہ کی بنیاد پر اپنے فرائض ادا نہیں کرنے چاہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے زوال کا شکار ہیں اور یہ جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں‘ وہ کام نہیں کررہے۔حکمرانوں کو اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔