جیتنے کے لیے تو سب ہی کھیلتے ہیں، ہارنے کے لیے کھیلو تو کمال ہے

فہیم پٹیل  منگل 29 نومبر 2016
مجھے بقیہ ٹیموں کے بارے میں تو شاید بہت زیادہ علم نہیں، لیکن اگر کسی نے میچ ہارنے کا خفیہ راز معلوم کرنا ہو تو ہماری قومی ٹیم آپ کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔

مجھے بقیہ ٹیموں کے بارے میں تو شاید بہت زیادہ علم نہیں، لیکن اگر کسی نے میچ ہارنے کا خفیہ راز معلوم کرنا ہو تو ہماری قومی ٹیم آپ کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔

مجھے بقیہ ٹیموں کے بارے میں تو شاید بہت زیادہ علم نہیں، لیکن اگر کسی نے میچ ہارنے کا خفیہ راز معلوم کرنا ہو تو ہماری قومی ٹیم آپ کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔

ہیملٹن میں کھیلے گئے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں ابتدائی چاروں دن قومی ٹیم کمزور دکھائی دی۔ جب چوتھے دن کے اختتام پر نیوزی لیںڈ نے قومی ٹیم کے لئے 369 رنز کا ہدف سامنے رکھا تو کم از کم مجھے تو یہ یقین ہوگیا تھا کہ، لو بھائی اِس میچ میں بھی شکست ہونے والی ہے، مگر حیران کن طور پر آخری روز چائے کے وقفے تک سمیع اسلم اور اظہر علی کی سست مگر ذمہ دارانہ اننگز کی وجہ سے یہ اُمید ہوچلی تھی کہ یہ میچ جیسے تیسے  ڈرا تو ہو ہی جائے گا، اور وائٹ واش سے بہتر تو 0-1 کی شکست ہے، لیکن بھلا ہمارے اور آپ کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے؟ جب میدان میں لڑنے والے سپاہی ہی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو بھلا جیت کا خواب کیسے حقیقت میں تبدیل ہوسکتا ہے؟

اگر آپ کو میچ کی اپ ڈیٹ اب تک معلوم نہیں ہوسکی تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ صورتحال ایسی ہرگز نہیں جس کے بارے میں زیادہ جانا جائے، لیکن اگر آپ پھر بھی بضد ہیں کہ نہیں ہمیں معلوم کرنا ہے کہ آخر آج قومی ٹیم کس طرح میچ بچاتے بچاتے شکست کی کھائی میں گرگئی تو ایسے تمام لوگوں کے لیے میچ کا مختصر ترین خلاصہ حاضر خدمت ہے۔ 369 رنز کے تعاقب میں قومی ٹیم نے 72.2 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر 181 رنز بنائے۔ یہ وہ وقت تھا جب تقریباً سب ہی کو یقین ہوچلا تھا کہ میچ اب ڈرا کی طرف جارہا ہے۔ لیکن، قومی ٹیم نے اپنے عزم سے سب کو ہی غلط ثابت کردیا اور پوری ٹیم اگلے 20 اوورز یعنی 92.1 اوورز میں صرف 49 رنز کے اضافے کے بعد 230 رنز پر آوٹ ہوگئی، اور یوں ہمارے کھلاڑیوں نے ایک بار پھر اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے بتادیا کہ ہاتھ میں آیا ہوا میچ کس طرح ہاتھ سے نکالا جاتا ہے، یہ کوئی اُن سے پوچھے۔

جب نیوزی لینڈ کے خلاف مختصر سیریز کا آغاز ہوا تو کرکٹ کے بارے میں تھوڑا بہت بھی جاننے والا ہر ایک پرستار بہت خوش تھا، اور خوشی کی وجہ یہ تھی کہ قومی ٹیم کیوی میدانوں میں 1984ء کے بعد سے کوئی بھی سیریز نہیں ہاری، اور ہماری ٹیم جس شاندار فارم میں اِس وقت ہے اُس کو دیکھتے ہوئے تو اِس بار فتح کا امکان تو 200 فیصد تک بڑھ چکا تھا۔

آج کی افسوسناک کارکردگی اور موجودہ سیریز میں وائٹ واش سے ہٹ کر اگر آپ نیوزی لیںڈ کے میدانوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی سے آگاہ نہیں ہیں تو آپ کی معلومات میں اضافہ کردیتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے درمیان کیوی میدانوں میں اب تک 12 ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی ہیں جن میں پاکستان کو واضح برتری حاصل ہے۔ یعنی 12 سیریز میں قومی ٹیم نے 7 میں فتح سمیٹی تو نیوزی لیںڈ کو صرف ایک سیریز جیتنے کا موقع ملا جبکہ چار سیریز بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئیں۔

نیوزی لیںڈ کے میدانوں میں ملنے والے نتائج تو یہ واضح طور پر یہ اشارے کررہے تھے کہ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم کا پلڑا صرف بھاری ہی نہیں بلکہ بہت بھاری ہے، لیکن سیریز کے پہلے دن سے آخری دن تک بدقسمتی سے قومی ٹیم فتح کی پوزیشن پر نظر ہی نہیں آئی۔

اگرچہ جیت اور ہار کھیل کا لازمی جز ہے۔ لیکن جیت اور ہار سے زیادہ اہم جز کھیل میں لڑنے اور لڑتے ہوئے مقابلہ کرنا ہے۔ آج جس طرح کھلاڑیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں وہ افسوسناک کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سیریز صرف دو میچوں پر مشتمل تھی ورنہ شاید ایک اور شکست کا منہ دیکھنا پڑسکتا تھا۔ خیر یہاں تو ہماری جان چھٹ گئی، لیکن آسٹریلیا میں کس طرح خود کو بچائیں گے؟ ابھی کل ہی کی خبر ہے جس میں سلیکشن کمیٹی نے دورہ نیوزی لینڈ میں بھیجی گئی ٹیم کو ہی دورہ آسٹریلیا کے لئے منتخب کیا ہے، یعنی جو بلے باز اور گیند باز نیوزی لیںڈ میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں، اب وہی کھلاڑی آسٹریلیا جیسے مشکل میدانوں میں خطرناک ٹیم کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔ آسٹریلیا میں قومی ٹیم کو تین ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنی ہیں۔

ابتدائی طور پر اُمید یہی تھی کہ نیوزی لیںڈ میں فتح کے حصول کے بعد کھلاڑیوں کے جذبے اور حوصلے بلند ہونگے اور ممکنہ طور پر آسٹریلیا میں کچھ اچھی کارکردگی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس اچھی سی اُمید کو قائم کرنے کی ایک وجہ آسٹریلوی ٹیم کی خراب کارکردگی ہے۔ اگر جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ سیریز پر نظر ڈالی جائے تو تین میچوں کی سیریز میں اُسے 1-2 سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب ابتدائی دو ٹیسٹ میچوں میں میزبان آسٹریلیا کو شکست ہوئی تو تیسرے ٹیسٹ میچ کے لیے اُس نے 11 میں سے 6 کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کردیا۔ قومی ٹیم کے حوالے سے تو ہمارے لیے اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی عام سی لگتی ہے مگر آسٹریلیا کے اعتبار سے یہ لمحہ فکریہ ہے۔

دوسری اور اہم ترین بات یہ کہ قومی ٹیم کی مسلسل فتوحات اور آسٹریلوی ٹیم کی پریشانیوں کی بدولت مختلف ماہرین کرکٹ یہ دعوی کرچکے ہیں کہ گزشتہ 17 سال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا یہ پہلا دورہ ہوگا جب سیریز میں اُس کے بھی فتح کے کچھ امکان ہونگے، کیونکہ اِس سے قبل 1980 کے بعد سے قومی ٹیم کو وہاں صرف دو میچوں میں فتوحات حاصل ہوئی ہیں۔

اِس لیے اب ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مشکل سفر کا آغاز درحقیقت اب ہونے جارہا ہے، اور پریشانی یہ ہے کہ نہ ہمارے بلے باز اچھی فارم میں دکھائی دے رہے اور نہ گیند باز، جن پر ہمیشہ سے ہمارا تکیہ رہا ہے۔ اگر 15 دسمبر سے شروع ہونے والی میچ سے پہلے کوئی مربوط حکمت عملی نہ بنائی گئی تو ایسا نہ ہو کہ آسٹریلوی میدانوں میں ایک بار پھر رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے۔

کیا قومی ٹیم دورہ آسٹریلیا میں کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوسکے گی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔
فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔