اے ٹی ایم کا استعمال مضر صحت

غ۔ع  جمعرات 1 دسمبر 2016
جراثیم کے علاوہ کی پیڈز سے مختلف غذاؤں کے ننھے ذرات بھی چپکے ہوئے پائے گئے۔ فوٹو : فائل

جراثیم کے علاوہ کی پیڈز سے مختلف غذاؤں کے ننھے ذرات بھی چپکے ہوئے پائے گئے۔ فوٹو : فائل

اے ٹی ایم کا استعمال تو سبھی کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ انتہائی مفید ایجاد ہے جس نے کسی بھی وقت بینک سے نقد رقم کا حصول ممکن بنادیا۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اے ٹی ایم سے نقد رقم کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی آپ کے ہاتھوں میں منتقل ہوتا ہے؟ یہ دراصل جراثیم ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں آپ کے ہاتھوں سے چپک جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں نیویارک میں ایک ریسرچ کی گئی۔ ریسرچ کے دوران پتا چلا کہ اے ٹی ایمز جراثیم سے پُر ہوتی ہیں جو صارفین کے ہاتھوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ منتقلی کا یہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب ہم مشین کا کی پیڈ استعمال کرتے ہیں۔ جراثیم یوں تو ہر طرف ہوتے ہیں مگر اے ٹی ایمز کے معاملے میں جراثیم کی تعداد سے زیادہ ان کی اقسام قابل تشویش ہوسکتی ہیں۔ اے ٹی ایمز کے کی پیڈ پر درجنوں اقسام کے جراثیم پائے گئے۔

دوران تحقیق ریسرچ ٹیم نے نیویارک کے مختلف علاقوں میں قائم چھیاسٹھ مشینوں کا خصوصی آلات کی مدد سے جائزہ لیا۔ کی پیڈز پر انھیں انسانی جلد پر پائے جانے والے یک خلوی جان داروں سے لے کر مختلف جگہوں اور ماحول میں رہنے والے جراثیم نظر آئے۔

جراثیم کے علاوہ کی پیڈز سے مختلف غذاؤں کے ننھے ذرات بھی چپکے ہوئے پائے گئے۔ یوں جراثیم کی موجودگی کے علاوہ ماہرین کو یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کس علاقے میں ان دنوں کون سی غذا زیادہ استعمال کی جارہی ہے۔ مثلاً انھیں پتا چلا کہ چائنا ٹاؤن میں مچھلی کا استعمال عروج پر تھا، مرکزی ہارلیم کے باسی مرغی شوق سے کھار ہے تھے، جب کہ مین ہٹن کے باسیوں کا زور اُبلی ہوئی غذائیں کھانے پر تھا۔

اے ٹی ایمز کے کی پیڈز پر موجود جراثیم کا تجربہ گاہ میں تجزیہ کرنے کے بعد سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر بے ضرر تھے۔ تاہم کچھ جراثیم سے صارفین مختلف امراض میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ Trichomonas Vaginalis اور  Tosoplasmaنامی طفیلیوں کی وجہ سے کئی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔