- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
اے ٹی ایم کا استعمال مضر صحت
اے ٹی ایم کا استعمال تو سبھی کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ انتہائی مفید ایجاد ہے جس نے کسی بھی وقت بینک سے نقد رقم کا حصول ممکن بنادیا۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اے ٹی ایم سے نقد رقم کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی آپ کے ہاتھوں میں منتقل ہوتا ہے؟ یہ دراصل جراثیم ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں آپ کے ہاتھوں سے چپک جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں نیویارک میں ایک ریسرچ کی گئی۔ ریسرچ کے دوران پتا چلا کہ اے ٹی ایمز جراثیم سے پُر ہوتی ہیں جو صارفین کے ہاتھوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ منتقلی کا یہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب ہم مشین کا کی پیڈ استعمال کرتے ہیں۔ جراثیم یوں تو ہر طرف ہوتے ہیں مگر اے ٹی ایمز کے معاملے میں جراثیم کی تعداد سے زیادہ ان کی اقسام قابل تشویش ہوسکتی ہیں۔ اے ٹی ایمز کے کی پیڈ پر درجنوں اقسام کے جراثیم پائے گئے۔
دوران تحقیق ریسرچ ٹیم نے نیویارک کے مختلف علاقوں میں قائم چھیاسٹھ مشینوں کا خصوصی آلات کی مدد سے جائزہ لیا۔ کی پیڈز پر انھیں انسانی جلد پر پائے جانے والے یک خلوی جان داروں سے لے کر مختلف جگہوں اور ماحول میں رہنے والے جراثیم نظر آئے۔
جراثیم کے علاوہ کی پیڈز سے مختلف غذاؤں کے ننھے ذرات بھی چپکے ہوئے پائے گئے۔ یوں جراثیم کی موجودگی کے علاوہ ماہرین کو یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کس علاقے میں ان دنوں کون سی غذا زیادہ استعمال کی جارہی ہے۔ مثلاً انھیں پتا چلا کہ چائنا ٹاؤن میں مچھلی کا استعمال عروج پر تھا، مرکزی ہارلیم کے باسی مرغی شوق سے کھار ہے تھے، جب کہ مین ہٹن کے باسیوں کا زور اُبلی ہوئی غذائیں کھانے پر تھا۔
اے ٹی ایمز کے کی پیڈز پر موجود جراثیم کا تجربہ گاہ میں تجزیہ کرنے کے بعد سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر بے ضرر تھے۔ تاہم کچھ جراثیم سے صارفین مختلف امراض میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ Trichomonas Vaginalis اور Tosoplasmaنامی طفیلیوں کی وجہ سے کئی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔