بنگلہ لیگ پر اتنی مہربانی کیوں؟

سلیم خالق  جمعرات 1 دسمبر 2016
بنگلہ دیش کون سا پاکستان کے ساتھ مخلص ہے جو وہ ہمیشہ اس پر مہربان رہتا ہے۔ فوٹو: فائل

بنگلہ دیش کون سا پاکستان کے ساتھ مخلص ہے جو وہ ہمیشہ اس پر مہربان رہتا ہے۔ فوٹو: فائل

’’بورڈ نے جو اتنے سارے پلیئرز کو بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں شرکت کی اجازت دے دی، یہ فیصلہ گلے پڑ سکتا ہے، ماضی میں بھی یہ ایونٹ ہمیشہ شکوک کی زد میں رہا اور اب بھی حالات اچھے نہیں لگتے، ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ہوا تو پی ایس ایل میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘

چند روز قبل کی بات ہے میں نے یہ بات پی سی بی کی ایک اعلیٰ شخصیت سے کہی تھی، اس وقت وہ اس سے متفق نہیں تھے مگر اب جب متواتر سے میڈیا میں کچھ ایسی خبریں آنے لگیں تو ان کا ماتھا بھی ٹھنکا، اب وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اجازت نہ دیں تو آپ لوگ (میڈیا) ہی شور مچائیں گے کہ پلیئرز کی روزی روٹی روک لی، ایسے میں جائیںتو جائیں کہاں‘‘ البتہ اب مجھے ان کے انداز میں بھی تشویش محسوس ہو رہی تھی، شاید اسی لیے پی سی بی نے اپنے سینئر جنرل منیجر ویجیلنس محمد اعظم خان کو میڈیا رپورٹس کا جائزہ لینے کی ہدایت دی ہے۔

بی پی ایل کیلیے ہمارے بورڈ نے15 پلیئرز کو این او سی جاری کیے، دیگر تین شرجیل خان، محمد نواز اور بابر اعظم کو نیشنل ڈیوٹی کی وجہ سے اجازت نہیں دی گئی، باریسل بلز میں رومان رئیس،چٹاگانگ ویکنگز میںگذشتہ برس زمبابوے سے تین ٹی ٹوئنٹی کھیلنے والے پیسر عمران خان جونیئر، شعیب ملک،کومیلا وکٹورینز میں احمد شہزاد،عماد وسیم،خالد لطیف،شاہ زیب حسن، سہیل تنویر،کھلنا ٹائٹنز میں جنید خان، محمد اصغر (فرسٹ کلاس کرکٹر،اب واپس آ چکے) راجشاہی کنگز میں محمد سمیع، عمر اکمل جبکہ رنگپور رائیڈرز میں انور علی، ناصر جمشید اور شاہد آفریدی شامل ہیں۔

اب ہم دنیا کے دیگر ممالک کی بات کرتے ہیں، بھارت تو خیر اپنے کسی کرکٹر کو ایسی لیگز میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا، دیگر ٹیسٹ اقوام میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور زمبابوے کا بھی کوئی موجودہ انٹرنیشنل کرکٹر ایونٹ میں شامل نہیں، نیوزی لینڈ کے گرانٹ ایلویٹ اور جنوبی افریقی ڈیوڈ ملر ایکشن میں ہیں، موجودہ سری لنکن کرکٹرز میں نوان کولا سیکرا اور اپل تھارنگا بی پی ایل میں صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں، ویسٹ انڈیز کے کرکٹرز کی اپنی بورڈ سے لڑائی ہے اور اگر کمبوڈیا میں بھی انھیں چند لاکھ روپے دے کر کھیلنے بلایا جائے تو دوڑے چلے جاتے ہیں، اسی لیے بنگلہ دیش بھی آئے ہوئے ہیں، اب سوال یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک جب اپنے کھلاڑیوں کو بی پی ایل میں نہیں بھیج رہے تو ہمارے بورڈ نے کیوں قائد اعظم ٹرافی کے درمیان تھوک کے حساب سے این او سی بانٹ دیے۔

اس کی وجہ یہ بیان ہو رہی ہے کہ انھوں نے پہلے اپنے اداروں سے اجازت لی تھی، یہ بات بھی حیران کن ہے کہ سال بھر کھلاڑیوں کو تنخواہیںدینے والے ادارے ضرورت پڑنے پر کیوں پلیئرز کو جانے دیتے ہیں، پی سی بی سے زیر معاہدہ پلیئرز ماہانہ کئی لاکھ روپے کما لیتے ہیں، اب تو پی ایس ایل کے ذریعے بھی انھیں اچھی آمدنی ہو رہی ہے، ایسے میں ایک مشکوک لیگ میں شرکت سے وہ اپنا نام کیوں خراب کر رہے ہیں؟ حالیہ ایڈیشن میں عمران خان جونیئر پر وائیڈ بال کے معاملے پر شکوک ظاہر کیے جا چکے، ایک کرکٹر جوپیٹر گھوش نے ٹیم سے نکالے جانے کی وجہ فکسنگ سے انکار کو قرار دیا، باریسل بلز کے برانڈ ایمبیسڈر گلوکار آصف اکبر نے اپنے ہی کھلاڑیوں پر فکسنگ کا الزام لگایا ہے،ماضی میں رانا نوید الحسن اور ناصر جمشید کے پاسپورٹس ضبط ہوئے، ایک پاکستانی بکی پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا،اس کے باوجود ہمارے کھلاڑی وہاں دوڑے چلے جاتے ہیں۔

اس سال تو ایک ٹیم کا مالک ایونٹ سے پہلے ٹیم فروخت کر کے چلاگیا، پلیئرزکو معاوضے نہ ملے تو ایونٹ میں عدم شرکت کی دھمکی دی جس پران کا مطالبہ پورا کیا گیا، پہلے بھی اس حوالے سے بڑے مسائل تھے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش بورڈ نے خود معاوضے دینے کے ذمہ داری سنبھالی تھی، انگلینڈ کی پروفیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن نے 2012کے پہلے ہی ایڈیشن میں کرپشن و معاوضے کی عدم ادائیگی کے کیسز سامنے آنے پر اپنے پلیئرز کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا،مشرفی مرتضیٰ اسپاٹ فکسنگ آفر کی رپورٹ کرت چکے، پہلا ہی ایونٹ داغدار ہونے کے بعد بی سی بی نے اگلے برس تمام 6 فرنچائزز کے مالکان کو معطل کرتے ہوئے ڈھاکا گلیڈی ایٹرز کے اونر پر تاحیات پابندی عائد کر دی تھی، سابق کپتان محمد اشرفل، نیوزی لینڈ کے لو ونسنٹ سمیت کئی پلیئرز و آفیشلز بھی فکسنگ پر پابندی کا شکار ہوئے،دو سیزنز تک لیگ نہ ہونے کے بعد بھی جب انعقاد ہوا تو مسائل برقرار رہے۔

بنگلہ دیش کون سا پاکستان کے ساتھ مخلص ہے جو وہ ہمیشہ اس پر مہربان رہتا ہے، ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں ہمارے ملک نے اہم کردار ادا کیا، جواب میں کیا ملا؟ جب ضرورت تھی تو ٹور سے انکار کر دیا اور اس کے لیے عدالتی حکم کی آڑ لی گئی، پی سی بی کو ایک خدشہ یہ ہے کہ اگر اپنے پلیئرز کو نہ بھیجا تو بی سی بی بھی پی ایس ایل کیلیے کھلاڑی ریلیز نہیں کرے گا، میں انھیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پہلے ایڈیشن کیلیے بھی بنگلہ دیش نے 18 نہیں بلکہ احسان جتاتے ہوئے صرف 2 یا 3کھلاڑیوں کو ہی اجازت دی تھی، بھارت اتنا بنگلہ دیش کا دوست بنا پھرتا ہے وہ کیوں اپنے کھلاڑی نہیں بھیجتا؟ وجہ صاف ہے ایونٹ میں کئی باتیں ایسی ہیں جو کوئی پسند نہیں کرتا، ہمارا ملک ویسے ہی انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے نوگو ایریا بنا ہوا ہے، ہوم سیریز نیوٹرل وینیو پر کھیلنا پڑتی ہیں، عامر، آصف اور سلمان بٹ کے اسپاٹ فکسنگ کیس نے دنیا بھر میں امیج خراب کیا، کئی دیگر فائلز بھی اے سی ایس یو کے پاس موجود مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کئی بڑے پلیئرز بچ گئے۔

ایسے میں ہم مزید کسی تنازع کے متحمل نہیں ہو سکتے، پی سی بی کو آئندہ سختی کرنا ہوگی، اول تو کھلاڑیوں کو ایسے مشکوک ایونٹ کیلیے ریلیز ہی نہ کریں، خاص طور پر اگر ڈومیسٹک سیزن جاری ہو تو کسی صورت جانے کی اجازت نہ دی جائے، البتہ سابق کرکٹرز کو ضرور جانے دیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اب جب ہماری اپنی لیگ ہو رہی ہے تو پلیئرز کو اس میں کھیلنے کے مواقع دیں، خدا خدا کر کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی تلخ یادیں اب مٹنا شروع ہوئی ہیں، ایسے میں احتیاط بہتر ہے، اب اگر کوئی چھوٹا سا بھی واقعہ ہوا تو دیگر بورڈز پی ایس ایل کیلیے بھی کھلاڑی ریلیز کرنا چھوڑ دیں گے پی سی بی کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔