قلبِ ایشیا کانفرنس : پاکستان کو کیا ملے گا ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 1 دسمبر 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

4 دسمبر 2016ء کو بھارتی پنجاب کے شہر ، امرتسر، میں ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس کانفرنس کا اصل بانی اور آرکیٹکٹ ترکی ہے۔ پہلی کانفرنس بھی ترکی ہی میں ہوئی تھی۔ پانچ سال قبل بنائی جانے والی اس تحریک نما کانفرنس کا بنیادی مقصد یہی بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں نہ صرف یہ کہ پائیدار امن قائم کیا جائے بلکہ افغانستان کو معاشی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جائے۔ نیت بھی مستحسن تھی اور مقاصد بھی ارفع تھے ۔ افغانستان کو ’’قلب ‘‘ مان کر اس کے ارد گرد واقع جملہ ممالک کے حالات بھی بہتر بنانا پیشِ نظر تھا۔

اس خطے کو دہشت گردی اور منشیات کی بلاؤں اور وباؤں نے جس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، ان سے کامل نجات حاصل کرنا بھی اوّلین مقاصد میں شامل تھا۔ پاکستان ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے چودہ ممالک اس کانفرنس کے رکنِ رکین بنے اور عالمِ مغرب کے سترہ ممالک ایسے تھے جنہوں نے ’’ہارٹ آف ایشیا ‘‘ کانفرنس کو ممکنہ سپورٹ فراہم کرنے کے وعدے وعید کیے۔

اب اسی سلسلے کی چھٹی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اِس سے پہلے اِسی عنوان کے تحت افغانستان، ترکی، قزاقستان، چین اور پاکستان میں جتنی بھی کانفرنسیں ہوئی ہیں، سب کی سب مذکورہ ممالک کے مرکزی دارالحکومتوں میں منعقد ہوئیں ۔ اس اصول کے تحت تو چار دسمبر کی کانفرنس نئی دہلی میں ہونی چاہیے تھی لیکن بھارت اسے اپنے ایک صوبائی دارالحکومت میں کروا رہا ہے۔

آخر کیوں؟ اس سوال کا ایک جواب تو ایک بھارتی اخبار ’’دکن کرانیکل ‘‘نے اِن الفاظ میں دیا ہے :’’امرتسر پاکستانی سرحد ، واہگہ، سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کروا کر بھارت ، عالمی رہنماؤں کے موجودگی میں، پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ افغانستان اور بھارت کے تجارتی ٹرکوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے پاکستان سے گزرنے کی اجازت دی جائے۔ ‘‘ ہمارے نزدیک ، اس کانفرنس کے لیے، امرتسر پر نریندر مُودی کی نظرِ انتخاب اس لیے بھی پڑی ہے کہ اگلے سال ہی بھارتی پنجاب میں الیکشن ہو رہے ہیں ۔ جناب مودی بڑی چالاکی سے ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ کو اپنے سیاسی و انتخابی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مشرقی پنجاب کے نائب وزیر اعلیٰ ، سکھبیر سنگھ بادل، بھی اس ضمن میں مودی کے دستِ راست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان نے بھی ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ میں شریک ہونے کا اعلان کیا ہے۔ قیام ِ امن اور افغانستان کی بہتری کے لیے ہمارے حکمرانوں کا یہ مناسب فیصلہ ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں ’’سارک ‘‘ سربراہی کانفرنس میں بھارت نے دانستہ اور شرارت سے شریک نہ ہو کر جس طرح اسے ناکام بنایا ، پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس کا بجا طور پر رنج ہے اور اس کا تقاضا تھا کہ پاکستان بھی اب ’’قلبِ ایشیا کانفرنس ‘‘ میں شریک نہ ہو ۔ بھارت نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے جس طرح ہمارے درجنوں معصوم شہریوں اور جوانوں کر شہید کیا ہے، ان کا بھی یہی تقاضا تھا کہ پاکستان بطورِ احتجاج امرتسر میں ہونے والی ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ میں شریک ہونے سے انکار کردے لیکن پاکستان نے بھارت کی نسبت بہتر سفارتی اور عالمی اخلاقیات کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

وزیر اعظم جناب نواز شریف کے مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ چار دسمبر کو امرتسر جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس شرکت سے ملے گا کیا ؟ کیا پاک بھارت تعلقات میں بہتری آ سکے گی؟ بھارتی تیور اور انداز و اطوار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے اُس کے روئیے میں کسی مثبت تبدیلی کے امکانات کم کم ہیں۔ بھارتی فوج کے ایک سابق سینئیر جرنیل، لیفٹیننٹ جنرل پی سی کاٹوچ ، نے ابھی کل ہی ممتاز جریدے ’’ یوریشیا ریویو ‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان اگر ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ میں شریک ہوتا بھی ہے تو اسے کچھ نہیں ملے گا ’’کیونکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت سے ہر سطح پر تعاون کرنے سے انکاری ہے۔‘‘

امرتسر میں منعقد ہونے والی اس ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ سے صرف ایک ہفتہ قبل تین بڑے ایسے واقعات نے ’’جنم ‘‘ لیا ہے جنہیں پیشِ نگاہ رکھا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھارت شائد پاکستان کی طرف دستِ تعاون بڑھانے سے انکار کر دے۔ ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ سے قبل جنم لینے والے ان خونی واقعات کا جائزہ لینا از بس ضروری ہے :  27نومبرکو بھارتی پنجاب کے علاقے، نابھا، کی ایک ہائی سیکیورٹی جیل ٹوٹ گئی ۔کہا گیا کہ چھ(جعلی) باوردی پولیس والوں نے صبح سویرے جیل پر حملہ کرکے انتظامیہ کو قابو کیا اور مقید مجرموں کو چھڑا کر لے گئے۔

جیل توڑ کر بھاگنے والوں میں خالصتان تحریک کے دو مرکزی لیڈرز، ہرمیندر سنگھ منٹو اور کشمیرا سنگھ، بھی شامل تھے۔ ہرمیندر سنگھ تو دوسرے روز ہی گرفتار ہو گیا لیکن بھارتی حکومت اور بھارتی ذرایع ابلاغ نے اس سارے عمل کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ افسوس!! جیل ٹوٹنے کے اس واقعہ کی بازگشت ابھی کم بھی نہ ہوئی تھی کہ دو دن بعد ، 29 نومبر 2016ء کو، مقبوضہ کشمیر میں جموں اور اُدھم پور شہروں کے درمیان واقعہ ایک قصبے ( نگروٹہ ) پر بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ ہو گیا(یہ حملہ بھی باوردی پولیس والوں نے صبح سویرے کیا تھا ) حملے میں آٹھ بھارتی فوجی مارے گئے جن میں دو سینئیر فوجی افسر بھی شامل تھے۔ بھارت نے اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا ہے اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر۔ لیکن بھارت سرکار اور فوجی ذمے داران ابھی تک بھارتی میڈیا کے اٹھائے گئے ایک اہم سوال کا جواب نہیں دے سکے ہیں کہ نگروٹہ چھاؤنی تک پہنچنے کے لیے تیرہ ناکوں اور چیک پوسٹوں سے شناخت دکھا کر گزرنا پڑتا ہے ۔

ان ناکوں پر بھارتی فوج کھڑی ہوتی ہے ، پھر حملہ آور کیونکر فوجی کیمپ میں گھس کر بھارتی فوجیوں کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے ؟ ڈھائی ماہ قبل بھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے اُڑی ، کے فوجی کیمپ پر بھی اسی طرح کا حملہ ہوا تھا جس میں ڈیڑھ درجن کے قریب بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ نگروٹہ پر حملے کی شام ہی بھارت سرکار نے ایک عجب اعلان کیا اور وہ یہ تھا کہ پٹھانکوٹ ائر پورٹ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد چار تھی۔اس سے قبل بھارتی وزیر دفاع اور بھارتی وزیر داخلہ باقاعدہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی تعداد چھ تھی۔

اس حملے کی ذمے داری بھی پاکستان پر ڈالی گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ جب ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ کے انعقاد میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے، بھارت نے یہ اعلان کیوں کیا ہے حالانکہ پٹھانکوٹ پر مبینہ حملہ تو گیارہ ماہ پہلے جنوری میں ہوا تھا؟ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بھارت ’’قلبِ ایشیا کانفرنس ‘‘ کے اس نازک موقع پر ان بھونڈے الزامات کو اچھال کر پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے تاکہ اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد حاصل کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔