ملک کی واحد بے اختیار بلدیہ عظمیٰ

محمد سعید آرائیں  جمعرات 1 دسمبر 2016

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کے چار ماہ تک اسیر رہنے والے میئر وسیم اختر کو ان کی ضمانتوں پر رہائی پر مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرانے میں کامیاب ہوںگے۔ میئر کی رہائی اور ان سے وزیراعلیٰ کی وابستہ توقعات پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ خالی ہاتھوں جاکر عوامی مسائل کے حل کا فریضہ انجام دے اور اپنی کارکردگی دکھائے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی ملک کی واحد بے اختیار اور ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ ہے جس کے اختیارات کراچی کی چھ ڈی ایم سیز سے بھی کم ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی شہر کی ترقی کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ اپنی ماتحت ڈی ایم سیز کی بھی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور بلدیہ عظمیٰ سے اس کی ضلعی میونسپل کمیٹیاں زیادہ با اختیار ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ اب وزیراعلیٰ سندھ، صوبائی وزیر و سیکریٹری بلدیات کے تابع اور ان ہی کی محتاج ہے اور دو کروڑ آبادی کا بلدیہ عظمیٰ کا میئر کمشنر کراچی تک کے احکامات ماننے کا پابند کردیاگیا ہے اور تمام ڈی ایم سیز کے منتخب چیئرمین اب اپنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کے بھی ماتحت کردیے گئے ہیں اور محکمہ بلدیات کی مرضی کے بغیر میئر کراچی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔

ملک کو بلدیاتی نظام ہمیشہ دور آمریت میں ملے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں بلدیاتی نظام ہی فوجی سربراہوں کی ضرورت ہوتے ہیں اس لیے 1958ء میں مارشل لا لگانے کے بعد جنرل محمد ایوب خان نے ملک کو بی ڈی (بنیادی جمہوریت) کا سسٹم دیا تھا۔

اس میں بلدیاتی سربراہ سرکاری افسر اور اس کا نائب ڈپٹی میئر یا وائس چیئرمین ہوتا تھا اور یوسیز کے چیئرمین اس بلدیاتی ادارے کے ارکان ہوتے تھے جن کے اجلاسوں میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق بلدیاتی ادارے کام کرتے تھے اور سیاسی مداخلت بھی بہت کم تھی، یہی بلدیاتی سسٹم ملک بھر کے کنٹونمنٹس بورڈز میں آج بھی نافذ ہے، جہاں طویل عرصے بعد سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے حکم دے کر بلدیاتی انتخابات کرائے تھے، جہاں ہر بورڈ میں کونسلروں کا انتخاب ہوا جنھوں نے اپنے وائس چیئرمین کو منتخب کیا اور ان اداروں کا سربراہ فوجی نہیں بلکہ سویلین سرکاری افسر ہیں جو کنٹونمنٹ افسر کہلاتے ہیں اور ان اداروں کے قواعد اور ڈسپلن مثالی ہے، جس کا تصور صوبائی حکومتوں کے ماتحت بلدیاتی اداروں میں ممکن ہی نہیں ہے۔

بی ڈی سسٹم کے بعد 1979ء میں جنرل محمد ضیا الحق نے ملک کو جو نیا بلدیاتی نظام دیا تھا اس میں بلدیاتی اداروں کے سربراہ منتخب میئر اور چیئرمین تھے اور ہر ضلع میں باہمی رابطوں کے لیے چیئرمین ڈسٹرکٹ رابطہ کمیٹی بھی ضلع بھر کے ارکان ضلع کونسل منتخب کرتے تھے جو ضلع کے دیہی علاقوں کے بلدیاتی اداروں کے درمیان رابطوں کا بھی ذمے دار تھے۔

اس نظام کے تحت ضیا دور میں ہر چار سال بعد باقاعدگی سے تین بار بلدیاتی انتخابات ہوئے اور یہ نظام بھی محکمہ بلدیات، کمشنروں، ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں کے کنٹرول میں تھا اور شہروں میں یوسیز نہیں تھیں بلکہ بلدیاتی یونٹ تھے جس کے ہر ایم سی یونٹ کے لیے میونسپل اور ٹاؤن کونسلرز منتخب ہوتے تھے مگر موجودہ بلدیاتی نظام کے برعکس وہ با اختیار تھے اور بیورو کریسی کے اتنے بھی ماتحت نہیں تھے جتنے موجودہ بلدیاتی نظام میں ہیں۔جنرل ضیا کے دوسرے بلدیاتی انتخابات کا پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا جب کہ 1979ء اور 1987ء میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے اس بلدیاتی نظام میں بھی بلدیاتی اداروں کے سربراہ فوجی دور کے باوجود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کی تقریبات کا بائیکاٹ کرتے تھے مگر فوجی دور میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جب کہ موجودہ جمہوری دور کا کوئی بلدیاتی افسر ایسا کرے تو فوراً برطرف کردیا جائے گا۔

جنرل ضیا کے بعد دس سال جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور 2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے ملک کو ایک مکمل ضلعی نظام دیا اور ہر ضلع میں مکمل با اختیار ضلعی حکومت قائم ہوئی اور کمشنری نظام ختم کرکے بیورو کریسی کو منتخب ناظمین کا ماتحت بنادیاگیا تھا اور ہر ضلعی حکومت کی کونسل اور ضلعی ناظم کو اپنے ضلع، تحصیل اور ٹاؤن میں مکمل مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے جس کی سب سے زیادہ تکلیف ارکان اسمبلی کو تھی جو ضلعی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے تھے اور عوام انھیں نظر انداز کرکے اپنے ناظموں اور کونسلروں کو اہمیت دیتے تھے جو ارکان اسمبلی کے ساتھ بیورو کریسی کی بے بسی اور محکومی کا مظہر اور ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے ترقیاتی فنڈ نہ دینے کے بالکل برعکس ارکان اسمبلی سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کے منتخب نمایندے ہیں اور سالانہ ترقیاتی کاموں کے نام پر ملنے والا فنڈ انھیں ملنا اور ان ہی کی صوابدید پر خرچ ہونا چاہیے اور ان کی موجودگی میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسی لیے جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتیں اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو بلدیاتی پر مسلط کرکے ان اداروں میں رشوت پر اضافی بھرتیاں کرکے اور لاکھوں روپے رشوت لے کر وہاں افسروں کے تقرر و تبادلے کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار اور اپنے ملازموں کو تنخواہیں دینے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں اور ہر جگہ بلدیاتی مسائل میں مبتلا ہیں اور وہاں کرپشن بھی عروج پر ہے۔

دنیا بھر میں بلدیات کے منتخب ادارے مکمل با اختیار ہیں اور وہاں سرکاری فنڈ ارکان اسمبلی کو نہیں ملتے میونسپل اداروں کو ملتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے اپنے وسائل خود پیدا کرتے ہیں اور انھیں عوام کے مجموعی مفاد کے لیے سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، سندھ کے وزیر بلدیات نے کہا ہے کہ حکومت نے قانون کے مطابق بلدیاتی اداروں کو مالی و انتظامی اختیارات دے دیے ہیں اور یہ بلدیاتی اختیارات ہیں کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے وزیر بلدیات کو بھی شاید شرم آرہی ہوگی، اس لیے ان اختیارات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے پر برہمی کا اظہار کرچکی ہے اور واضح کرچکی ہے کہ ارکان اسمبلی کا کام نالیاں، سڑکیں بنوانا نہیں آئین سازی ہے، مگر اس آئین سازی کے لیے ارکان اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب نہیں ہوتے بلکہ منتخب ہوکر اپنی رقم سود سمیت وصول کرنے کے لیے انتخابات لڑتے ہیں۔

جنرل پرویز نے ضلعی نظام میں ارکان اسمبلی کو فنڈ نہیں دیے اور حقیقی اختیارات ناظموں کو دیے تو متعدد ارکان نے اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر بلدیاتی انتخابات لڑا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ارکان اسمبلی عوام سے کتنے سچے ہیں اور اس لیے وہ بلدیاتی انتخابات کے مخالف ہیں بلدیاتی معاملات اب وفاق کا نہیں صوبوں کا اختیار ہے اس لیے ہر صوبے کا بلدیاتی نظام مختلف اور صوبائی حکومتوں کا محتاج ہے اور منتخب نمایندے بے اختیار ہیں انھیں صوبائی حکومتیں کبھی اختیارات نہیں دیںگی اور سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرائے ہیں اور وہی انھیں بلدیاتی اختیارات دلاکر با اختیار بناسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔