’دعا‘ بندوں کے لیے عطیۂ خداوندی

زینب ادریس ڈار  جمعـء 2 دسمبر 2016
عمومی طور پر دعا قبول ہونے کے حوالے سے تین مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

عمومی طور پر دعا قبول ہونے کے حوالے سے تین مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجا، درخواست، عرضی، پکارنا، بلانا، مانگنا یا پھر سوال کرنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ المومن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ عن قریب ذلت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ ‘‘

دعا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بہ راہ راست رابطے کا ایک بہترین اور بہت ہی خوب صورت اور آسان ذریعہ ہے۔ اہل ایمان کا تو اس بات پر کامل یقین ہے کہ دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی عرشِ بریں تک پہنچتی ہے۔ دعا ایک فریاد اور پکار ہوتی ہے جو ربِ کائنات کے حضور ایک فریادی کی جانب سے پیش کی جاتی ہے، جسے اﷲ تعالٰی ہمہ وقت سن رہا ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے دعا عطیۂ خداوندی ہے، دعا کا طریقہ نبی کریمؐ نے اپنی امت کو سکھایا ہے۔

ترمذی کی ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ تمہارا پروردگار باحیا اور سخی ہے، جب اس کا بندہ اس کی جانب دونوں ہاتھوں کو اٹھاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹائے۔‘‘

دعا جھولی اٹھا کر مانگی جائے یا پھر خاموشی سے دل میں، دونوں ہی حالتوں میں رب تعالیٰ کی ذات ہی اسے قبول کرنے والی ہے کہ وہ دلوں کے حال بھی خوب جانتا ہے اور اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لرزش سے بھی خوب واقف ہے، دعا کے دوران آنسو کا ایک قطرہ بھی رب تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں رہتا کہ وہ ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔

سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے: ’’ میں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پالیں۔‘‘

دعا جب بھی اس یقین اور بھروسے کے ساتھ پوری یک سوئی و دل جمعی کے ساتھ مانگی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات اسے سن رہی ہے اور وہی تمام پریشانیوں اور مشکلوں کا مداوا کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے کہ جو بندے کی مصیبتوں کو حل کرے تو پھر ضرور قبولیت کا شرف پاتی ہے۔

دعا میں عاجزی اور انکساری بندے کو اس کے رب کے نزدیک تر کردیتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کی اپنی بارگاہ میں کی گئی عاجزی اور گریہ بہت پسند ہیں اور وہ بہت خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ اپنے ہر معاملے میں صرف اور صرف مجھ پر توکل کرتا ہے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا۔

سورۃ الاعراف میں ارشاد ہے : ’’ اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

حضرت ابن عمرؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے کہ ’’ دعا ان مصیبتوں اور بلاؤں کو دور کرنے میں بھی نافع ہے جو نازل ہوچکی ہوں اور ان میں بھی جو نازل نہ ہوئی ہوں اور قضا کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، پس تم پر لازم ہے کہ دعا کرو۔‘‘ (ترمذی)

ایک حدیث میں دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ دعا ایک ایسی عبادت ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہر کام کے لیے صرف اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہے اور اسی کی مدد چاہتا اور مانگتا ہے جس کی بہ دولت اس کا اپنے رب کے ساتھ تعلق مزید مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔

دعا مانگتے ہوئے اول و آخر درود شریف پڑھنا باعث افضل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ہر دعا معلق ہے جب تک دعا سے پہلے اور آخر میں درود و سلام نہ بھیجا جائے۔‘‘

(صحیح الجامع)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا رب تعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمان سے دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے اور میں اس کو بخش دوں۔‘‘ (بخاری شریف)

تہجد کا وقت دعاؤں کی قبولیت کے اوقات میں سے سب سے بہترین وقت مانا جاتا ہے۔ دعا میں اگر پوری یک سوئی نہ ہو تو اس کے رد کیے جانے کا بھی ڈر رہتا ہے اور پھر بندہ دعا قبول نہ ہونے کا شکوہ کرنے لگتا ہے جو گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات خود میں اتنی اعلیٰ و ارفع اور یکتا و رحیم ہے کہ وہ اگر چاہے تو کسی گناہ گار کی تمام دعائیں قبول کرکے اس کے گناہ فوراً معاف فرما دے اور اگر چاہے تو کسی مقرب کی دعا کو رد کردے، اس لیے صبر سے دعا کے قبول ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔

عمومی طور پر دعا قبول ہونے کے حوالے سے تین مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔

(1) اگر وہ دعا اس شخص کے حق میں بہتر ہو تو اﷲ اس کو ویسا ہی قبول کرکے پورا کردیتا ہے۔

(2) بعض اوقات انسان دعا مانگتا ہے اس پر اگر کوئی پریشانی آنے والی ہوتی ہے تو اﷲ اس کی دعا کے بدلے آنے والی پریشانی کو ٹال دیتا ہے۔

(3) کسی کی دعائیں نیکیوں کا خزانہ بن کر آخرت کے لیے جمع کردی جاتی ہیں اور پھر ان کا بدلہ اسے آخرت میں دیا جائے گا۔

آج کے دور میں بیشتر مسلمان اپنی بہت سی پریشانیوں کے باوجود دعا کی قبولیت کی تاثیر سے غافل دکھائی دیتے ہیں اور دعا میں جلد بازی کا عنصر بھی نظر آتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ دعا مومن کا ایک بہترین ہتھیار ہے جس کا استعمال وہ مشکلات اور پریشانیوں میں رب تعالیٰ سے مانگ کر اور آسائشوں اور آسانیوں میں شُکر کے لیے ہاتھ پھیلا کر کرسکتا ہے۔ اس لیے مانگیے اور بار بار مانگیے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے خزانوں اور عطا کی کوئی حد نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔