ادب کی منڈی کے ساہوکار

علیم احمد  ہفتہ 3 دسمبر 2016
جب عالمی اردو کانفرنس کے نام پر اردو ادب کی منڈی سجی ہو، اور اس منڈی میں صرف ’’ادبی ساہوکاروں‘‘ ہی کو داخلے کی اجازت ہو، تو پھر ہم جیسے کم از کم ’’بلاگیانہ احتجاج‘‘ تو ریکارڈ کروا ہی سکتے ہیں۔

جب عالمی اردو کانفرنس کے نام پر اردو ادب کی منڈی سجی ہو، اور اس منڈی میں صرف ’’ادبی ساہوکاروں‘‘ ہی کو داخلے کی اجازت ہو، تو پھر ہم جیسے کم از کم ’’بلاگیانہ احتجاج‘‘ تو ریکارڈ کروا ہی سکتے ہیں۔

جب کبھی ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ کا اعلان ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ’’اردو ادب کی منڈی لگنے والی ہے!‘‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا ہو۔ شرکاء چاہے امریکہ سے آئیں، برطانیہ سے، کینیڈا سے، ہندوستان سے یا پھر مریخ سے، ایجنڈا وہی لگا بندھا ہوتا ہے۔ کچھ نئی کتابوں کی شان میں قصیدے، چند ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی ادبی خدمات پر مقالے، کچھ نقد و نظر کا اہتمام، تاریخ کا تذکرہ، اردو زبان پر کچھ نوحے اور کچھ مرثیے، فن و ثقافت کے علاوہ اعضاء کی شاعری اور موسیقی۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک لگی بندھی سی قرارداد جس میں برسوں پرانے، کھوکھلے تقاضے، شکوے اور شکایتیں، شریک دانشوروں کی جانب سے تائید اور… کہانی ختم، پیسہ ہضم۔

صاحبو! اب آپ خود ہی بتائیے کہ کیا ایسی کسی بھی کانفرنس کو اردو ادب کی منڈی کے سوا کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ یہ معاملہ نہ تو کسی کی زُلف پر شبِ دیجور کی پھبتی سوجھنے والا ہے، اور نہ ہی اس کا تعلق کسی اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھنے سے ہے۔ لیکن اس سالانہ کانفرنس کے دوران ریوڑیاں ضرور بٹتی ہیں جو اندھے کے ’’اپنے اپنوں‘‘ کے ہاتھ لگتی ہیں۔

یہ رائے رکھنے کے لئے ہم اس وجہ سے بھی خود کو حق بجانب محسوس کرتے ہیں کیونکہ ’’کانفرنس‘‘ بجائے خود ایک سنجیدہ لفظ ہے… اور اس لفظ سے وابستہ تصور ایک ایسے اجتماع کی جانب اشارہ کرتا ہے جس میں متعلقہ شعبے سے وابستہ، کہنہ مشق اور ماہر افراد اپنی تحقیق و تفتیش کے بارے میں کچھ تازہ تخلیقات پیش کریں۔ اگر ’’کانفرنس‘‘ کے پروگرام میں عمومیت پر بہت زیادہ اصرار کیا جائے، تب بھی کسی کانفرنس کے موضوع (تھیم) پر سنجیدہ بحث مباحثے کی اہمیت اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔

یعنی ہر چند کہ ’’عمومی‘‘ نوعیت کی کسی کانفرنس میں باقاعدہ قسم کے تحقیقی مقالہ جات نہ ہوں، لیکن پھر بھی تحقیقی مزاج پر مبنی، انفرادی و اجتماعی تجربات اور مشاہدات کے تجزیئے پر مشتمل تخلیقات ایسی کسی بھی کانفرنس میں جزو لازم کا درجہ ضرور رکھتی ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ نظم، نثر، افسانہ، ناول اور نقد و نظر جیسے کلاسیکی عنوانات کو عالمی اردو کانفرنس میں ضرور بالضرور شامل ہونا چاہئیے۔ لیکن اُردو میں جدید رجحانات سے منہ موڑ لینا بھی گویا عقب نما آئینے (بیک ویو مرر) میں مسلسل دیکھتے ہوئے، اپنی گاڑی کو صحیح راستے پر تیزی سے گامزن رکھنے کی سعئ لاحاصل سے کچھ مختلف بھی نہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دنیا بھر کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی حالات تبدیل ہوئے ہیں، وہیں اردو زبان پر بھی ان تمام عوامل کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اور تو اور، خود ’’اردو داں طبقے‘‘ کی اردو سے واقفیت میں بھی گزشتہ بیس بائیس سال کے دوران بہت فرق پڑچکا ہے۔ اس عرصے میں بہت سے نئے الفاظ اردو میں شامل ہوچکے ہیں، متعدد پرانے الفاظ یا تو متروک ہوچکے ہیں یا پھر اپنا چولا بدل چکے ہیں۔ کئی ایسے الفاظ جو آج سے دو عشروں پہلے تک معیوب اور فحش کے زمرے میں شامل تھے، آج عام استعمال ہونے لگے ہیں؛ اور کتنے ہی الفاظ جو ماضی میں غیر فصیح اور غلط العوام شمار ہوتے تھے، آج غلط العام بلکہ فصیح گردانے جارہے ہیں۔ (افسوس کہ اب تو ’’غلط العام‘‘ اور ’’غلط العوام‘‘ کا فرق سمجھنے والے بھی کم سے کم تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔)

سچ تو یہ ہے کہ اردو پر (بالخصوص پاکستان میں) اتنا کم تحقیقی کام ہوا ہے کہ آج یہ زبان، دوسری ہم عصر زبانوں سے اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ مثلاً ایسے کئی اُمور ہیں جن میں شعبہ ہائے اردو اور شعبہ ہائے کمپیوٹر سائنس کے مابین تعاون و اشتراک کی اشد ضرورت ہے۔ تلخ نوائی پر معذرت لیکن محبوب کی زلفِ گرہ گیر میں سمٹے ہوئے ادباء و دانشوران نہ تو ایسے مباحث کی اہمیت سے آشنا ہیں اور نہ اس قابل ہیں کہ ایسے مباحث میں حاضرین کے طور پر شرکت ہی کرسکیں۔ اس ذیل میں ایک دو نہیں، درجنوں موضوعات ہیں جن پر ایسی کسی بھی کانفرنس میں نہ صرف گفتگو کی جاسکتی ہے، بلکہ تحقیقی تعاون کی کوئی سبیل بھی نکالی جاسکتی ہے۔

اگر فنیاتی و تکنیکی اعتبار سے بات کی جائے، تو ایسے بہت سے ’’کمپیوٹری اوزار‘‘ (کمپیوٹر ٹولز) ہیں جنہیں دَورِ جدید میں اُردو زبان کی ترقی اور فروغ میں قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اردو املا کی درستگی، متبادل الفاظ تجویز کرنے کی خودکار سہولت (اردو تھیسارس)، درست صرف و نحو (گرامر اینڈ کمپوزیشن) کے ساتھ اردو لکھنے میں معاونت کرنے والے سافٹ ویئر اور خودکار خلاصہ نگار برائے اردو، یہ ایسے چند موضوعات ہیں جن پر تھوڑا بہت کام ہوچکا ہے مگر ان تحقیقی کاوشوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، قابلِ استفادہ مصنوعات کی صورت دینے کے لئے علمی تعاون اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کیا یہ عنوانات اس لائق نہیں کہ اردو کے لئے مخصوص کسی عالمی کانفرنس میں شامل کئے جاسکیں؟

فنیات (ٹیکنالوجی) ہی کے ذیل میں مشینی ترجمے (مشین ٹرانسلیشن) پر بھی علیحدہ سے بات ہونی چاہئے جبکہ اردو میں ادبی و علمی ابلاغ کو جدید سہولیات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے باعزت ذریعہ معاش بنانے کا امکان بھی زیرِ بحث آنا چاہئے۔ (واضح رہے کہ اردو میں عمومی، عوامی اور عامی نوعیت کے ابلاغ سے متعدد افراد اور اداروں کی آمدن، انٹرنیٹ کی بدولت پہلے ہی وابستہ ہوچکی ہے۔)

اسی تناظر میں ’’اردو بلاگنگ‘‘ ایک ایسا پہلو ہے جسے آج کے زمانے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ اس وقت بھی اردو زبان میں بلاگ نگاری کی تاریخ کم از کم دس سال پرانی ہوچکی ہے جبکہ یہ مسلسل ارتقاء پذیر بھی ہے۔ کانفرنس میں کوئی ایک نشست ایسی ضرور ہونی چاہئے تھی کہ جس میں کہنہ مشق کالم نگاروں اور عہدِ تازہ کے اردو بلاگروں میں مکالمہ ہوتا؛ اور قلم کاروں کی ان دو نسلوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقعہ بھی ملتا… مگر یہ ہو نہ سکا، کیونکہ ان نکات پر بات کرنے کے لئے ہمارے شعراء اور ادیب ابھی تیار ہی نہیں۔

اصطلاح سازی اور اردو میں سائنسی و علمی ابلاغ وہ سنجیدہ نکات ہیں جن پر ایسی کسی بھی ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ میں لازماً کوئی نشست ہونی چاہئے۔ لیکن واقعہ یہ ہے اگر آپ کسی جگہ سے ’’نفاذِ اردو‘‘ کا درد رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں کا مجمع منتشر کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے اردو زبان میں اصطلاح سازی اور سائنسی و علمی ابلاغ کا تذکرہ چھیڑ دیجئے، انشاء اللہ، صرف پانچ منٹ میں تمام دانشور کسی نہ کسی بہانے سے غائب ہوجائیں گے اور وہ جگہ ’’نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز‘‘ کی تفسیر و تصویر بن جائے گی۔ یہ فارمولا ہم نے بارہا آزمایا ہے اور اسے تیربہدف بھی پایا ہے۔

غرض کہ عصرِ حاضر میں اردو زبان کو درپیش چیلنجوں اور مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس کے لئے صحیح معنوں میں ایک پورا ’’دائرۃ المعارف‘‘ (انسائیکلوپیڈیا) درکار ہے۔ مذکورہ بالا سطور میں اس دیگ سے صرف چند دانے بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں۔

لیکن جب عالمی اردو کانفرنس کے نام پر اردو ادب کی منڈی سجی ہو، اور اس منڈی میں صرف ’’ادبی ساہوکاروں‘‘ ہی کو داخلے کی اجازت ہو، تو پھر ہم جیسے کم از کم ’’بلاگیانہ احتجاج‘‘ تو ریکارڈ کروا ہی سکتے ہیں۔ موقعہ ملا تو اردو کے زمینی حقائق پر کچھ اور لکھنے کی کوشش کریں گے۔ اب تک کے لئے تو اسی کلامِ سخن گسترانہ پر اکتفا کیجئے۔

اردو کانفرنس کے حوالے سے بیان کیے گئے بلاگر کے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔