قومی سوچ

راؤ منظر حیات  پير 5 دسمبر 2016
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

گزشتہ چالیس برس کے دورانیہ میں ہماری قومی ذہنی ساخت مکمل طورپرتبدیل کردی گئی ہے۔یہ تمام کام حددرجہ کرخت اور ادنیٰ طریقے سے کیا گیا ہے۔ تمام سیاستدان، ریاستی ادارے اورسرکاری ملازم جواس کام میں ملوث رہے ہیں آج اس کی ذمے داری لینے سے انکارکرتے ہیںبلکہ وضاحتیں تک پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا لیکن ان کے تسلیم یانہ تسلیم کرنے سے معروضی حقائق پرکوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ نقصان بہرحال ہوچکاہے۔

اب کوئی ایساراستہ بھی نظرنہیں آرہاجس پرچلتے ہوئے ہم دنیامیں ترقی کرتی ہوئی اقوام کے ساتھ قدم ملاکرچل سکیں۔قومی سطح پرہم مسائل کو سمجھتے اورجانتے ہوئے بھی انکاسامنا نہیں کرسکتے۔ بنیادی وجہ صرف ایک ہے ہم صرف اپنی مرضی کاجزوی سچ یاجزوی جھوٹ سنناچاہتے ہیں۔یہ تمام صورتحال ہمارے وجود کو شدید دباؤمیں ڈال چکی ہے۔فوج اس دباؤکی شدت سے آگاہ ہے اورصورتحال کو کودرست کرنے کی جزوی کوشش کر رہی ہے۔یہ سب کچھ کہاں تک جا سکتا ہے، اسکاادراک ہمارے چندسیاستدان بھی کرچکے ہیں۔ حالات ہمارے ہاتھ سے بڑی حدتک نکل رہے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ دنیاہمارے فیصلوں،خواہشوں اور اُمنگوں کے حساب سے چلے۔یہ ایک نیک خواہش ہے مگر یہ صرف ایک خواہش ہے۔خاموشی سے کمرے میں بیٹھیے۔ فہرست بنائیے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ دہشت گردی، ہمسایہ ملکوں سے کشیدہ تعلقات،بدترین کرپشن، چند اہم علاقوں میں خانہ جنگی کی کیفیت اوردوعملی رویہ۔ دنیا کا کوئی بھی انسان ان سنجیدہ ترین معاملات کونظراندازنہیں کر سکتا۔ ہم بھی نہیں کرسکتے۔لیکن عملاًہم اپنے ان تمام سنگین مسائل کوقالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج تک مجھے کوئی ایسی مربوط اورطاقتورحکمتِ عملی نظرنہیں آئی جو معاملات کوہمت اورمدبرانہ طرزِعمل سے حل کرنے کی کوشش کرے۔میں غلط بھی ہوسکتاہوں مگرسب سے پہلا اور اہم کام قومی معاملات پرسچ بولناہے۔

ہم آج بھی کسی سطح پر سچ نہیں بول سکتے۔یہ قدغن کسی نے ہمارے اوپر نہیںلگائی، بلکہ اس جذباتی اورسطحی قومی سوچ نے عائدکی ہے جسے ہم نے خوداپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا ہے۔ ہم تمام لوگ اب اتناڈرچکے ہیں کہ ہم مسائل پرحقیقی رنگ میں بحث تک نہیں کرسکتے۔ہر سیاستدان،اہل فکراوراہم ریاستی سربراہ کوخوف ہے کہ کوئی بھی سرپھراصرف اورصرف نظریات کی مخالفت میں آپ کوجان سے مار سکتا ہے۔ پاکستان کی کوئی عدالت بھی آپکوانصاف نہیں دے پائیگی کیونکہ وہ خوداس خوف اورردِعمل کاشکارہیں جوتمام ملک کوگھن کی طرح کھاچکاہے۔

المیہ یہ ہے کہ سچ اگرہمت کرکے بول بھی دیاجائے تو اسے سنے گاکون،اس پرعمل کون کریگا۔صرف لکھنے سے تومعاملات حل نہیں ہوسکتے۔تاریخ ہمیشہ ان قوموں کے ساتھ ہے جواپنے پیروں پرخودکھڑے ہوکرمشکلات کوحل کرنے کی کوشش کرتیں ہیں۔سب سے پہلے پاک وہندتعلقات کے تناظرمیں گزارشات پیش کرونگا۔انھیں کیسے بہتر کیا جائے۔ آخرکیااقدامات عمل میں لائیں جائیں کہ صورتحال بہتر ہو۔اپناجواب ایک سوال سے شروع کرتا ہوں۔کیاہم جنگ کرکے ہندوستان سے اپنے معاملات بہترکرسکتے ہیں؟ اسکاجواب صرف ایک ہے ہرگز ہرگز نہیں۔کیاہم انڈیا سے مکمل طورپرصلح کرسکتے ہیں؟اس پرکئی جوابات ہوسکتے ہیں کہ صلح بتدریج ہو،یاتیزی سے ہو۔شرائط کیاہوں اورکتنے عرصے میں یہ اہم کام سرانجام دیا جاسکے۔

صلح کی بنیاد ہمارے دوطرفہ وفودیاہاٹ لائن پررابطے قطعاً نہیں رکھ سکتے۔ یہ بنیادی کام صرف اورصرف دونوں ملکوں کے وزراء اعظم کے درمیان حددرجہ سنجیدہ مذاکرات سے شروع ہو سکتا ہے۔ مشکل اَمریہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اگر ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کی ایماندارانہ کوشش کریگاتوہماری دائیں بازوکی جماعتیں اورنان اسٹیٹ ایکٹرزاس شخص کو غدار کہنے میں ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کرینگے۔عوام میں ان جماعتوں کااثراس تبدیل شدہ قومی سوچ کی بدولت اس درجہ مضبوط ہے کہ وہ وزیراعظم ملکی الیکشن تک ہارسکتاہے۔

ہمارے ایک قومی سطح کے سیاستدان کویہ فیصلہ کرنا پڑیگا کہ جوبھی منفی ردِعمل ہو،وہ اپنے ہمسایہ ممالک سے قومی مفاد میں تعلقات کوبہتربنائیگا۔یہ حددرجہ مشکل کام ہے۔مگریہ ہو سکتاہے۔ اندرکمارگجرال سے اخبارکے ایڈیٹرنے پوچھا تھا کہ پاکستان سے اتنے اچھے تعلقات رکھنے پرکیوں زور دیتے ہیں۔اتنے پاکستان پرست کیوں ہیں۔گجرال کا جواب بہت مختصرتھاکہ ہمسایہ ملک سے بہترین تعلقات رکھنا ہندوستان کے قومی مفادمیں ہے۔گجرال کسی طور پر معمولی سطح کاسیاستدان نہیں تھا۔بخوبی اندازہ تھاکہ وہ کیا بات کررہاہے اورکیوں کررہاہے۔

آج دونوں ممالک کے وزراء اعظم اپنے اپنے ملک کی دائیں بازوکی جماعتوں کے ردِعمل سے خوف زدہ ہیں۔اگرایک طرف سَنگھ پریوارہے تو دوسری طرف اسلامی مذہبی جماعتیں اورنان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں لیکن درمیانی راہ بھی نکالی جاسکتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس آج بھی ایسے ادارے ہیں جودائیں بازوکی جماعتوں پرفیصلہ کن حدتک اثراندازہوسکتے ہیں۔جوان کو کافی حدتک خاموش کرواسکتے ہیں۔مگراس مشکل اورنازک کام کے لیے سیاستدانوں کوایک دوسرے کااعتمادحاصل کرنا اَشد ضروری ہے۔

پہلے ہمیں ادارک ہوناچاہیے کہ ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرکے ہی ترقی کرسکتے ہیں۔وگرنہ ترقی اس کشیدگی کی نظرہوجائے گی۔ہم سی پیک سے بھی بھرپورفائدہ نہیں اُٹھاپائینگے۔وزیراعظم کواس میں پہل کرنی چاہیے اور بھرپورکرداراداکرناچاہیے۔اس کی وجہ سادہ سی ہے۔انھیں انڈیا میں ایک صلح پسندلیڈرکی حیثیت سے جانا جاتا ہے مگریہ قدم بھی پھونک پھونک کررکھنے والاہے۔صلح کاعمل آخرکہیں نہ کہیں سے توشروع کرناہے۔ورنہ یہ جنگ دونوں ممالک کی مثبت طاقت کوختم کرڈالے گی۔قطعاًیہ عرض نہیں کر رہا کہ ہم ہمسایہ ملک کی بالادستی قبول کریں،مگرصلح اورامن کی خواہش بالادستی قبول کرنے کے مترادف قطعاًنہیں۔

دہشتگردی کی طرف آئیے۔پولیس،فوج،پیراملٹری فوج، خفیہ ادارے اس وقت مکمل طورپرحالت جنگ میں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی کی ہے۔مگرسِکے کادوسرارخ بھی موجودہے اور بدستور موجودہے۔آخردہشتگردکہاں پیداہورہے ہیں۔کم کیوں نہیں ہورہے۔ان کے پاس مضبوط پناہ گاہیں آج تک کیسے موجودہیں۔ابتدائی بیانیہ کی طرف توجہ دلاؤنگاکہ ایک مسخ شدہ قومی سوچ دہشتگردی کوختم کرنے کی راہ میں حائل ہے۔  مدارس میں بچے اوربچیاں صرف اسلیے داخل ہوتے ہیں کہ ریاست تعلیم کے میدان میں برابرکے مواقع فراہم کرنے میں مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے۔غریب کے بچوں کے لیے کوئی معیاری درسگاہ نہیں ہے لہذامدارس میں داخل ہونا ایک سماجی مجبوری بن چکاہے۔

میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی بھی حکومت نے مدارس کووسائل فراہم کیے ہوں۔ نناوے فیصدمدارس کادہشتگردی سے دوردورتک کاکوئی تعلق نہیں لیکن مجموعی طورپرہم مدارس کوبہتربنانے کے بجائے انکو زیرعتاب لارہے ہیں۔ ہمیں مدارس کوقومی تعلیمی دھارے میں لانے کی اَشدضرورت ہے۔اس مدابرانہ قدم کے بغیر ہم خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ہمارے تمام دشمن ممالک ہماری اس کمزوری سے واقف ہیں۔وہ بین الاقوامی سطح پرہمیں کٹہرے میں کھڑاکردیتے ہیں اورہم خوف کی بدولت آدھے سچ اورآدھے جھوٹ سے وقت گزارنے کی ناقص حکمتِ عملی پرقائم رہتے ہیں۔موجودہ پالیسی سے ہم دہشتگردی کوکم توکرسکتے ہیں مگرختم نہیں کرسکتے۔

کراچی عملی طورپرخانہ جنگی کاشکارہے۔حقیقت صرف ایک ہے۔اس شہرمیں مختلف فریق صرف اورصرف پیسے حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں۔کراچی میں دولت کا بہاؤ اس درجہ مضبوط ہے کہ تمام سیاسی اورغیرسیاسی فریق اس سنہرے دریامیں غوطے لگاناچاہتے ہیں۔مگرکوئی حقیقت پر بات کرنے کے لیے تیارنہیں۔عرض کرونگاکہ کراچی میں کوئی متحارب فریق نظریہ یاجمہوریت کی جنگ نہیں لڑرہا۔سب دھڑے دولت کے کیک میں اپنے حصے کے لیے برسرپیکار ہیں۔ ذراغورکیجیے،کہ کراچی کے سابقہ گورنربغیراستعفیٰ دیے دبئی روانہ ہوگئے۔

ان کوعلم تھاکہ معاملہ اتناتلخ ہے کہ سرکاری حفاظت کے بغیروہ ایک دن بھی کراچی میں نہیں رہ سکتے۔ باقی ایک دوسرے پرالزامات کالامتناہی سلسلہ ہے جولوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے جاری رہیگا۔ہرباخبرشخص جانتاہے کہ اصل جنگ صرف اوردولت کے حصول کے لیے ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں چاہتاکہ کراچی میں امن ہو۔ہرفریق بدامنی کے مزے لوٹ رہاہے۔اسلیے کہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔کوئی خفیہ گولی ان تک نہیں پہنچ سکتی۔جب تک اس حقیقت کوبے رحمی سے آشکارہ نہیں کیا جائیگا، معاملات بگڑیں گے، بہترنہیں ہوںگے۔

دوعملی کی طرف آئیے۔اس معاشرہ میں منافقت سِکہ رائج الوقت ہے۔ہماری قومی سوچ یہ بن چکی ہے کہ اپنے آپکو بظاہربہت نیک اوردیندارظاہرکرومگرچھپ کرہروہ کام کرو جس پرسارادن تنقیدکرتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کے کونے کونے میں شراب سرعام فروخت ہوتی ہے۔آخران تمام گناہ گارکاموں سے ہمارے شہری ہی حظ اُٹھارہے ہیں۔لیکن کوئی بھی ان حقائق کوتسلیم نہیں کرتا۔ وجہ وہی سوچ جس نے دنیامیں ہمیں مذاق بناکررکھ دیا ہے۔ ہمارا بدنصیبی کاسفرآج بھی جاری وساری ہے۔ہمیں ایک نارمل اورصحت مندمعاشرہ بنانے کے لیے “سوشل انجینئرنگ” کی ضرورت ہے۔ایک ایسی ذہنی فکر جو 1977ء تک کے پاکستان میں کسی نہ کسی حدتک موجود تھی۔ مگراب ذہنوں کی تالہ بندی اس درجہ ہوچکی ہے کہ معتدل اندازمیں سوچنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ جعلی طورپرترتیب دی گئی مسخ شدہ سوچ ہماری اصل دشمن ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔