انقلابی جدوجہد کا استعارہ کاسترو

ظہیر اختر بیدری  پير 5 دسمبر 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں انسانی عظمت کے مختلف معیار قائم ہیں لیکن معاشی اور معاشرتی تفریق اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت ایک ایسا معیار ہے جو باغی کو عظمت کی ایسی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے کہ دوست اور دشمن سب ظاہری اور باطنی طور پر ایسے انقلابی کی عظمت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی انقلابی جدوجہد میں فیڈل کاسترو کا نام سرفہرست ہے اور رہے گا۔ امریکا جیسی قاہرانہ طاقت عشروں تک اپنی دہلیز پر علم بغاوت بلند کرنے والے فیڈل کاسترو کو راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں پر سازشیں کرتی رہی لیکن وہ کاسترو کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

سرمایہ دارانہ ظلم و استحصال کے خلاف قانونی جنگوں سے مایوس فیڈل کاسترو نے کیوبا میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کر لیا اور ایک زیرزمین انقلابی تنظیم کھڑی کر لی۔ اس تنظیم میں بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ ان کے بھائی اور کیوبا کے موجودہ صدر راول کاسترو بھی شامل تھے۔ اس تنظیم کے تحت کاسترو نے 26 جولائی 1953ء کو سانتا گودی میں واقع مون کادا کی سرکاری فوجی بیرکس پر حملہ کر دیا۔

اگرچہ یہ بغاوت ناکام رہی اور کاسترو کے بہت سارے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کاسترو بچ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ فرار ہو کر سانتیاگو کے مشرق میں واقع پہاڑوں میں روپوش ہو گئے لیکن حکومت نے انھیں مع ساتھیوں کے گرفتار کر لیا۔ ان کے بیشتر ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن کاسترو بچ گئے۔ کاسترو کو بغاوت کے الزام میں پندرہ سال کی سزا سنائی گئی لیکن بتستا حکومت نے سیاسی دباؤ کی وجہ سے دو سال بعد ہی انھیں رہا کر کے جبراً میکسیکو بھیج دیا۔

کاسترو نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے جن میں چی گویرا سرفہرست تھے بتستا حکومت کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کر دی۔ کاسترو اپنے 82 ساتھیوں کے ساتھ 26 نومبر 1956ء کو بتستا حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا عزم لے کر کیوبا پہنچے اور صرف ایک ماہ کی تیاری کے بعد لاس کیناس کے مقام سے ایک بار پھر بغاوت کا آغاز کر دیا۔ لیکن یہ بغاوت بھی ناکام رہی، کاسترو کے بہت سارے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا۔ کاسترو اپنے بچے کچھے ساتھیوں کے ساتھ Sira Meestra کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ سامراجیوں کے خلاف مسلسل جنگ کی وجہ کاسترو کیوبا کے عوام کے ہیرو بن گئے۔

عوام کی اس حمایت کے بل بوتے پر کاسترو نے ایک بار پھر اپنے ساتھیوں کو منظم کیا، اور بتستا حکومت کے خلاف ملک کے اہم قصبوں اور شہروں میں ایک ساتھ گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس زمانے میں امریکن ٹی وی پر نشر ہونے والے ان کے ایک انٹرویو نے انھیں عالمی سطح پر مقبول بنا دیا۔ کاسترو کی دلیرانہ جدوجہد کی وجہ سے ان کے ساتھیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ حالات کو اپنے مقصد میں موافق دیکھ کر کاسترو نے بتستا حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا فیصلہ کر لیا اور اپنی فوج کو وسطی کیوبا کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ کاسترو کی فوج مسلسل آگے بڑھتی رہی اور عوام کاسترو کی فوج کی حمایت کرنے لگے۔ یہ بدلتی ہوئی صورتحال دیکھ کر کیوبا کا فوجی آمر بتستا یکم جنوری 1959ء کو کیوبا سے فرار ہوکر ڈومنیکن ری پبلک چلا گیا۔ آخرکار کاسترو نے 16 فروری 1959ء کو کیوبا کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ کاسترو 1976ء تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد انھوں نے کیوبا کے صدر کی حیثیت سے کیوبا کو تبدیل کرنے کا کام شروع کیا۔

امریکا کی سرپرستی میں فوجی استعمار نے سوشلزم کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کیں اور سوشلسٹ ملکوں کے وسائل کو ضایع کرنے کے لیے سردجنگ شروع کی اور اسے اسٹار وار تک پہنچا دیا۔ اقتصادی مشکلات نے سوشلسٹ ملکوں کا شیرازہ بکھیر دیا۔ روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ سوشلسٹ ملک نظریاتی پسپائی کے بعد سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنانے پر مجبور ہو گئے، لیکن کیوبا ابھی تک کاسترو کی زیر قیادت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ دنیا کی واحد سپرپاور کو ناکوں چنے چبوانے والا اور اس کی سازشوں کو ہر قدم پر ناکام بنانے والا کاسترو طویل بیماری کے بعد آخر 26 نومبر 2016ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ کیوبا سمیت جنوبی امریکا اور دنیا بھر کے مظلوم انسان آج کاسترو کی موت کا سوگ منا رہے ہیں۔

لیکن سامراجی ملکوں کے عوام دشمن حکمرانوں کے محلوں میں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہیں کہ نصف صدی تک انھیں قدم قدم پر رسوا کرنے والا اور سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کے خلاف انتھک جنگ کرنے والا اب اس دنیا میں نہ رہا۔ فیڈل کاسترو کی جنگ صرف کیوبا کے عوام کی امریکا کے خلاف جنگ نہ تھی بلکہ دنیا کی تاریخ کے بدترین نظام، نظام سرمایہ داری کے خلاف جنگ تھی۔ آج آپ دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں ہر طرف جنگوں، جنگوں کی تیاریوں، جنگوں کے خوف کے ساتھ کھربوں روپوں کے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کا ایک اندھا کلچر فروغ پاتا اور مستحکم ہوتا نظر آئے گا۔ آج کی دنیا کے بڑے مسائل میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی ایک بڑا اور سرفہرست مسئلہ بنا ہوا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول تک مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی گمنام تحریکیں تھیں روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اور روس سے براہ راست جنگ کے ناقابل یقین نقصانات سے بچنے کے لیے امریکا اور اس کے حواریوں نے پاکستان اور مسلم ملکوں کے جن مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کیا انھی مذہبی انتہا پسندوں نے آج ساری دنیا میں دہشتگردی کے ذریعے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ آغاز میں صرف ایک انتہا پسند تنظیم تھی آج اس کے درجنوں بچے جنوبی ایشیا، مشرقی وسطیٰ، عراق، شام، افریقہ کے کئی ملکوں میں بے گناہ انسانوں کے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے یہ دہشتگرد تنظیمیں امریکا کی سرپرستی میں معصوم اور بے گناہ عوام کا خون نہ بہا رہی ہوں لیکن ایک باخبر حلقے کا استدلال یہ ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام جس کرائسس میں گرفتار ہے اور دنیا بھر کے غریب 90 فیصد عوام میں اس استحصالی نظام کے خلاف بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے اس کا رخ موڑنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ سازوں نے خود دہشتگردی کے عفریت کو جنم دیا ہے۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر یہ سازش عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں سے ہٹانے میں کامیاب ہو لیکن جانے کتنے کاسترو، کتنے چی گویرا اس نظام ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوں۔ فیڈل کاسترو نے اپنے 82 ساتھیوں کے ساتھ ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا آج دنیا کے 7 ارب انسان ایک کاسترو کے منتظر ہیں جو انھیں سرمایہ دارانہ مکروہ نظام سے نجات دلا دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔