اک نظر ادھر بھی اے مہرباں

مقتدا منصور  پير 5 دسمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اکثر نجی محفلوں اور تقریبات میں لوگ استفسار کرتے ہیں کہ نجی شعبہ میں چلنے والے ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلوں میں کیا زبان کی صحت پر توجہ دینے کا کوئی انتظام واہتمام نہیں ہے؟ اس سوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا ذرایع ابلاغ میں خبریں پڑھنے والے اور مختلف پروگراموں کے میزبان جو زبان استعمال کر رہے ہیں، اس میں زبان و بیان کی بے تحاشا غلطیوں کے علاوہ انگریزی الفاظ اور جملوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

جو زبان بولی جا رہی ہے، وہ نہ انگریزی ہے اور نہ اردو، بلکہ ایک نئی زبان جسے URDISH کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ معاملہ صرف غلط اردو ہی کا نہیں ہے، بلکہ مقامی زبانیں بھی غلط تلفظ کے ساتھ بولی جا رہی ہیں۔ مجھے دوسری زبانوں کے بارے میں تو مکمل معلومات نہیں ہیں، لیکن سندھی کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مختلف چینلوں پر اس کو بھی انگریزیا دیا گیا ہے اور تلفظ کی ان گنت غلطیاں ہو رہی ہیں۔

اعتراض درست ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دو دہائی قبل تک زبان و بیان کی صحت اور درستی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ پرنٹ میڈیا میں تو کسی حد تک زبان و بیان پر توجہ دینے کی روایت آج بھی موجود ہے، لیکن برقی ذرایع ابلاغ اس سے مکمل طور پر مبرا ہو چکے ہیں۔ لوگوں کا یہ کہنا صحیح ہے کہ میزبانوں اور معلنوں (اینکرز) کا لہجہ (سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، پشتو وغیرہ) کوئی بھی ہو اچھا لگتا ہے، مگر تلفظ درست ہونا چاہیے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ لہجہ علاقے سے مشروط ہوتا ہے۔ پاکستان میں دلی، لکھنو یا حیدرآباد (دکن) کا لب ولہجہ نہیں چل سکتا، بلکہ مقامی لب ولہجہ ہی چلے گا۔ مگر تلفظ کا تعلق چونکہ خالصتاً ادب اور لسانیات سے ہوتا ہے، اس لیے اس میں درستی کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ زیر، زبر اور پیش کے استعمال سے بیشتر الفاظ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام بالخصوص بچوں کے ذہن میں وہی الفاظ اور جملے نقش ہوجاتے ہیں جو ٹیلی ویژن یا ریڈیو پر بولے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں چند مثالیں حاضر خدمت ہیں۔ بیشتر میزبان عام طور پر روانی میں اکثر یہ کہتے ہیں کہ، ’’فلاں معاملہ میں استفادہ حاصل کیا‘‘۔ استفادہ خود بمعنی حصول ہے، اس لیے جملے میں ’’حاصل‘‘ اضافی ہے۔ صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ ’’فلاں معاملہ میں استفادہ کیا‘‘۔ گزشتہ شعبان میں ایک خاتون معلن ٹیلی ویژن پر فرما رہی تھیں کہ ’’اس مرتبہ شب برأت کی رات قبرستانوں پر بڑی گہماگہمی تھی‘‘۔ اب انھیں کوئی کیا بتائے کہ رات کو عربی اور فارسی میں شب کہتے ہیں۔ 90 فیصد احباب بیڑے (بے ڑے) اور بیڑے (بی ڑے) میں فرق نہیں جانتے۔ بیڑا (زبر کے ساتھ) یعنی بے ڑا، جہازوں کا ہوتا ہے، کشتیوں کا ہوتا ہے۔ جب کہ بیٹرا (بی ڑا) پان کا ہوتا ہے، جو منت کے طور پر اٹھایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ محاورا بیڑا (بی ڑا) اٹھانا ہے۔

ہمارے علم میں یہ بات ہونا چاہیے کہ عربی کے ان گنت الفاظ ایسے ہیں، جن میں زیر، زبر اور پیش، ان کے معنی بالکل تبدیل کردیتے ہیں۔ مثلاً عالم (زبر کے ساتھ) کے معنی دنیا یا جہان کے ہیں، جب کہ عالم (زیر کے ساتھ) کا مطلب اہل علم و دانش ہے۔ اسی طرح ملک (زبر کے ساتھ) فرشتہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کی جمع ملائک ہے۔ ملک (زیر کے ساتھ) کا مطلب سردار ہے۔ مگر ہمارے یہاں عالم کو زبر کے ساتھ پڑھ کر دنیا یا جہان قرار دے دیا جاتا ہے اور ملک کو زبر کے ساتھ پڑھ کر فرشتہ بنادیا جاتا ہے۔ کشتی (زبر کے ساتھ) کو کشتی (زیر کے ساتھ) کہنا بھی عام ہوگیا ہے۔ کئی خبریں پڑھنے والے اور والیاں کشتی کو زیر کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں، جو کوئی لفظ نہیں ہے۔

اب جہاں تک محاوروں کا تعلق ہے، تو وہ بھی اکثر غلط استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ یہاں بھاگوں بھاگنے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ نصیب کو ہندی میں بھاگ کہتے ہیں۔ اس محاورے کے معنی ہیں بلی کا نصیب کہ چھینکا ٹوٹا۔ اب بہت سوں کو چھینکا بھی سمجھانا پڑے گا، کیونکہ وہ جس دور میں پیدا ہوئے ہیں، چھینکا ناپید ہو چکا ہے، محض محاورہ رہ گیا ہے، جس طرح نعمت خانے کی جگہ فریج نے لے لی ہے۔ ایک اور محاورہ ہے ’’پھٹے میں ٹانگ اڑانا‘‘۔ یہ محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب کوئی معاملہ کسی فرد کی بے جا مداخلت کے نتیجے میں بگڑ جائے یا بگڑنے کا احتمال ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی پھٹے ہوئے کپڑے میں ٹانگ اڑانے سے وہ مزید پھٹ جاتا ہے، اسی طرح کسی نزاعی معاملہ میں ملوث ہونے سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ اس محاورے کو بعض دوستوں نے بگاڑ دیا ہے اور اسے ’’پھڈے میں ٹانگ اڑانا‘‘ بنا دیا ہے، جو بالکل غلط ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ بزرگ بچوں کی اردو اور انگریزی درست کرنے کے لیے انھیں اردو اور انگریزی اخبارات پڑھنے پر راغب کیا کرتے تھے۔ یہی کچھ معاملہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا تھا۔ ریڈیو پاکستان اور PTV میں زبان و بیان پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی غلط جملہ نشر نہ ہونے پائے۔ اس کے علاوہ عامیانہ الفاظ اور جملوں سے بھی گریز کیا جاتا تھا۔

کیونکہ یہ تصور تھا کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن فکری تربیت کا ذریعہ ہیں۔ مگر آج کمپیوٹر کے استعمال کی وجہ سے لوگوں نے جملوں کی ساخت، صحت اور گرامر و املا پر توجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ یہ ذرایع تربیت کے بجائے مال بنانے کا ذریعہ بن چکے ہیں، اس لیے توجہ صرف اس بات پر ہے کہ کہی ہوئی بات کسی نہ کسی طور Communicate ہوجائے۔

چند برس پہلے ایک بھارتی فلم منا بھائی ایم بی بی ایس آئی تھی۔ اس فلم کے ہیرو سنجے دت نے ممبئی کی ٹپوری زبان میں ڈائیلاگ بولے تھے، جو خاصے مقبول ہوئے تھے۔ اس کے ایک جملے ’’ماموں بنادیا‘‘ نے خاصی شہرت پائی تھی۔ یہ طرز تکلم فلموں کی حد تک تو عوامی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں، لیکن خبروں میں ان کا استعمال معیوب لگتا ہے، یعنی خبروں یا مذاکروں میں کہا جائے کہ فلاں وزیر کو ’’ماموں بنا دیا گیا‘‘ تو یہ جملہ عامیانہ پن کو ظاہر کرتا ہے، جو خبروں اور مذاکروں میں زیب نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ بعض ایسے الفاظ ہیں، جو اپنی معنویت کے اعتبار سے بیہودہ ہوتے ہیں، مگر نوجوان ان کے معنی اور مطالب سے بے خبر انھیں بے دھڑک بول رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر الفاظ اور جملے ایسے ہیں جنھیں یہاں رقم نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا بھر میں خبروں کو چٹ پٹا بنانے کے لیے پس پردہ گانوں کا بھی کوئی رواج نہیں ہے۔ یہ بدعت بھی ہمیں بھارتی چینلوں سے ملی ہے۔ دنیا کے معتبر چینل خبروں کو چٹ پٹا بنانے کے بجائے خبریت پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر خبر میں خبریت ہے، تو وہ عوام کی توجہ حاصل کرتی ہے، بصورت دیگر نہیں۔ دوسرا عامل خبر کی معتبریت ہے۔

سب سے پہلے خبر دینے کی دوڑ میں خبریت کے ساتھ خبر کی معتبریت بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں رپورٹروں کی جانب سے دی گئی خبر کی درستی آسان ہے، کیونکہ خبر رپورٹر کے ہاتھ سے نکل کر کئی ہاتھوں میں جاتی ہے، اس کے بعد اس کی اشاعت ہوتی ہے، جب کہ الیکٹرانک میڈیا میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ بیشتر چینلوں میں ایڈیٹر کا عہدہ بھی نہیں ہے۔ خبر کی صورتحال اس وقت مزید مضحکہ خیز ہوجاتی ہے، جب کسی رپورٹر سے Beeper لیا جاتا ہے اور وہ اناپ شناپ جو سمجھ میں آتا ہے، بولتا چلا جاتا ہے۔نجی ریڈیو میں معاملات مزید ابتر ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ریڈیو چینل ہو جہاں باقاعدہ نیوز روم ہو، مگر اس کے باوجود یہ خبریں نشر کر رہے ہیں۔

اس صورتحال پر اندرونی تربیت (Internal Training and Refresher Courses) کے ذریعے آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ہر پیشہ سے وابستہ افراد کے لیے ہر پانچ برس بعد تربیت ضروری ہوجاتی ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی جس برق رفتاری کے ساتھ جدت اختیار کررہی ہے، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ کام کرنے والوں کو اس کی آگہی دیے بغیر بہتر کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ذرایع ابلاغ میں نصف صدی کے دوران ہوشربا تبدیلی آئی ہے۔ آج اخبار ہو یا الیکٹرانک میڈیا، دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں خاصا آگے جاچکے ہیں۔ اس لیے ذرایع ابلاغ کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کے لیے تربیت اور ریفریشر کورسز کی اہمیت پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی ہے، جس پر توجہ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔