ایدھی، ایک اثاثہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 7 دسمبر 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عبدالستارایدھی کے انتقال کو چند ماہ ہوئے ہیں کہ ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں کمی ہوگئی مگر جواں سال فیصل ایدھی پر عزم ہیں کہ وہ اپنے تمام منصوبوں کو مکمل کریں گے۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ملنے والے عطیات میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ذرائع کہتے ہیں کہ یہ کمی مذہبی نوعیت کے عطیات میں ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زکوۃ، فطرہ اور خیرات اورقربانی کے جانوروں کی کھالوں کی صورت میں ملنے والے عطیات کم ہوگئے ہیں۔ ایدھی کے قریبی ذرایع کہتے ہیں کہ مختلف مذہبی تنظیموں کو ایدھی کو ملنے والے عطیات منتقل ہوئے ہیں۔ ان میں کالعدم مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جب عبدالستار ایدھی نے سماجی کاموں کا سلسلہ شروع کیا تھا تو انھیں ہمیشہ عوام کی جانب سے عطیات ملتے تھے، سرکاری اور دیگر اداروں سے ملنے والے عطیات نہ ہونے کے برابر تھے، بعد میں مختلف اداروں کے عطیات کی شرح بڑھ گئی تھی۔

عبدالستار ایدھی نے جب سماجی خدمات شروع کیں تو انھوں نے کسی بھی قسم کے مذہبی، لسانی، صنفی ، طبقاتی اور فرقہ وارانہ تعصب کو اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔ایدھی کسی حادثے کی صورت میں رات گئے آخری پہر تک موقعے پر پہنچ جاتے تھے اورخود زخمیوں اور لاشوں کو اپنی ایمبولینس میں منتقل کر کے اسپتالوں میں لے جاتے تھے۔

ایدھی صاحب نے زندگی کا طویل عرصہ خود ایک ایمبولینس کو ڈرائیو کرتے ہوئے اور امدادی کاموں میں حصہ لیتے ہوئے گزارا تھا۔ جس زمانے میں ایدھی صاحب کے پاس گنتی کی ایمبولینس گاڑیاں تھیں تو بھی وہ صرف کراچی میں ہی امدادی کارروائیاں نہیں کرتے بلکہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک پہنچ جاتے تھے۔ ایدھی جلی ہوئی مسخ شدہ لاشوں کو گندے پانی کے جوہڑوں سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نکال لیتے تھے۔

کراچی کے سابق کمشنر شفیق پراچہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایس ڈی ایم تھے تو کراچی میں شدید بارشیں ہوئیں اور ملیر ندی کا پانی محمود آباد میں داخل ہوگیا۔ یوں بہت سے لوگ بے گھر ہوگئے۔ انھیں کسی جونیئر اہلکار نے مشورہ دیا کہ عبدالستار ایدھی کو اطلاع دیدیں۔ پراچہ صاحب کہتے ہیں کہ انھوں نے ایدھی کو فون کیا توکچھ دیر بعد پراچہ صاحب محمود آباد پہنچے تو عبدالستار ایدھی لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا کام مکمل کر چکے تھے اور متاثرہ افراد کو کھانا کھلایا جارہا تھا۔

پراچہ صاحب کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے بعد بارش ختم ہوگئی۔ انتظامیہ نے اس علاقے کے اسکول میں قائم ریلیف کیمپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیمپ میں کھانے کی ذمے داری ایدھی صاحب کی نہیں تھی، اس کی اطلاع پہنچا دی گئی مگر شام پراچہ صاحب کو بتایا گیا کہ اسکول میں پناہ لینے والوں کی اکثریت گھروں کو نہیں گئی کیونکہ ان کے گھر مخدوش ہوگئے تھے۔ پراچہ صاحب نے کھانے کے لیے ایدھی صاحب کو ٹیلیفون کیا۔

ایدھی نے اپنے بھانجے کے ولیمے کا کھانا بارش سے متاثرہ افراد کو پہنچا دیا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات کی بناء پر عوام کا ایدھی صاحب پر اعتماد قائم ہوگیا اور لوگوں نے مذہبی اور غیرمذہبی نوعیت کے عطیات ایدھی فاؤنڈیشن کو دینے شروع کردیے۔ یہ عطیات بیرونِ ممالک سے بھی ملنے لگے۔ مختلف شہروں میں مخیر حضرات نے اپنی جائیدادیں ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے وقف کردیں۔ عوام کی اس حمایت کی بناء پر ایدھی فاؤنڈیشن کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل گیا۔

ایدھی فاؤنڈیشن نے 70کی دہائی میں آنے والے سیلاب ،گلگت میں آنے والے زلزلے، ٹرین اور سڑک کے حادثات، 2005 کے ستمبر کے زلزلے اور پھر مختلف شہروں میں آنے والے سیلابوں اور قدرتی آفات میں اس طرح کی امدادی کارروائیاں کیں کہ ایدھی صاحب ضرورت مندوں کی امید بن گئے۔ جب 80 کی دہائی کے آخری عشرے میں کراچی اور حیدرآباد میں لسانی فسادات ہوئے تو ایدھی نے بغیر کسی امتیاز کے ہر زخمی کی مدد کی۔ سڑکوں اور محلوں سے ملنے والی لاشوں کو مردہ خانوں میں منتقل کیا گیا تو ایک لسانی تنظیم نے دباؤ ڈالا کہ مخالف نسلی گروہ کے زخمیوں کی مدد نہ کی جائے۔

ایدھی صاحب نے اس دباؤکو قبول کرنے سے انکار کیا تو ایدھی کی ایمبولینس اور دفاتر پر حملے ہوئے۔ اس بات کا خطرہ تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن مفلوج ہوجائے گی لیکن کور 5 نے ایدھی فاؤنڈیشن کو تحفظ فراہم کیا۔ اس وقت ایدھی کے رضاکار قربانی کی کھالیں بغیر کسی رکاوٹ کے وصول کرتے تھے مگر نامعلوم افراد نے ایدھی کے کیمپوں پر فائرنگ کی تو ایدھی صاحب نے قربانی کی کھالیں وصول نہ کرنے کا فیصلہ کیا، یوں ایدھی عطیات کے بڑے حصے سے محروم ہوگئے تھے مگر ایدھی صاحب جب بھی کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھیک مانگتے تو مرد، عورتیں اور بچے انھیں لاکھوں روپے دیتے تھے۔

عبدالستار ایدھی نے نوزائیدہ بچوں کے تحفظ کے لیے اپنے دفتر کے سامنے جھولے لگائے اور یہ اپیل کی کہ والدین بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں تو ایک مذہبی جماعت نے ان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا۔ اس پروپیگنڈا کا مقصد ایدھی کو ملنے والی آمدنی کو کم کرنا تھا، پھرکالعدم مذہبی تنظیموں نے کھلے عام عطیات وصول کرنے شروع کردیے۔ ایک کالعدم مذہبی تنظیم نے اپنی ایمبولینس اور امدادی سروس شروع کردی اور یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ ثواب کمانے کے لیے عطیات دیے جائیں۔

اس پروپیگنڈے کا مطلب یہ تھا کہ ایدھی کو عطیہ دینے سے ثواب نہیں ملے گا۔ شروع میں تو اس پروپیگنڈے کا کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہوا مگر یہ صورتحال صرف اس لیے تشویش ناک تھی کہ اب دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی اپنی رفاعی تنظیمیں قائم کرلیں، جس کی وجہ سے مذہبی عطیات فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہونے لگے، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے، اگر امدادی ایجنسیوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا تو پھر متاثرہ افراد کی مدد کا معاملہ بھی امتیازکا شکار ہوجائے گا۔

کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں متاثر ہوگا۔ امریکا کے دباؤ پر اقوام متحدہ نے ایک تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ اب اس تنظیم کے اہلکار رفاعی تنظیم کے نام پر سرگرم ہوںگے تو پھر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا تیز ہوجائے گا۔ امریکا میں ریپبلیکن پارٹی کی کامیابی سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، یوں معاملہ صرف ایدھی کا نہیں بلکہ ملک کا ہے۔

اس صورتحال میں ذرائع ابلاغ اور سماجی تنظیموں کا فرض ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ مذہبی تنظیموں کی مدد کرنے سے سماجی کام تقسیم ہوجائے گا جس سے کسی حادثے کی صورت میں متاثر ہونے والے افرادکا حق غصب ہوجائے گا۔ ایدھی ایک ایسا اثاثہ ہے جو انسانیت کی خدمت کے لیے ہے، اس لیے ایدھی کی مدد کرکے انسانیت کی مدد کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔