رنگین خواب جو عذاب ہو گئے ہیں

سعد اللہ جان برق  بدھ 7 دسمبر 2016
barq@email.com

[email protected]

ہم اس وقت نہایت شدت اور بے تابی سے ایک  پروفیسر علامہ صاحب کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ ’’خوابوں‘‘ کے سلسلے میں ہم ان دنوں سخت پریشان ہیں اور سنا ہے کہ وہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، غالباً یہ پروفیسر کا لاحقہ اس بات کا غماز ہے کیونکہ ان خصوصی علوم کے بارے میں پروفیسر لوگ ہی مہارت نامہ رکھتے ہیں جن کا تعلق دنیائے آب و گل سے نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں نہ صرف اپنے بیانات خاصے حوصلہ افزا ہیں بلکہ ایک نہایت ثقہ راوی کے مطابق جناب کپتان خان کو بھی خوابوں کی تعبیر وہی بتاتے ہیں۔

ایک تو ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے خواب علامہ اقبال کی طرح نہ سہی ان لوگوں کی طرح کیوں نہیں پورے ہوتے جو ’’اپنا سپنا پرایا مال اپنا ‘‘ کے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی اتنی اہم بات نہیں کہ سارے لوگوں کے خواب پورے ہوں، بلکہ ہماری اصل پرابلم یہ ہے کہ ہمارے خواب ’’ٹکاؤ‘‘ کیوں نہیں ہوتے یعنی کٹ پیس پر کیوں مبنی ہوتے ہیں، ابھی ہم پریانکا  چوپڑا سے بات ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ اوپر سے پریم چوپڑا کی منحوس آواز آتی ہے ’’پریم نام ہے میرا‘‘ اور پورا منظر ہی آخ تھو ہو جاتا ہے۔

ارے خدا تجھے غارت کرے ریل کے نیچے تمہارا سر آجائے، دھیر میندر تیرا خون پی لے اور انیل کپور تجھے کپ کپ کرے، تجھے کوئی اور نہیں سوجھا دخل درمعقولات بلکہ دخل در ’’پریانکا چوپڑات‘‘ کرنے کے لیے کئی کئی بار تو عین کلائی مکس کے وقت آنکھ کھل جاتی ہے۔

ہم اس شخص کی دوبارہ سلسلہ وہیں سے جوڑنے کے لیے آنکھیں بند کر دیتے جسے دس خواب میں ملنے والے تھے، لیکن ہماری پرابلم اس سے بڑا ہے، ذرا سوچیے یہ کتنی بڑی سمسیا ہے کہ دیپکا پاڈو کون آپ کی طرف والہانہ انداز بڑھتی چلی آرہی ہے اور بس ملن ہوا ہی چاہتا ہے کہ بم پھٹتا ہے کہ اٹھو نا کب تک سوتے رہو گے اور پھر فلاں فلاں کام کی فہرست سنائی جاتی ہے کہ سننے والے کا ہیروشیما اور ناگا ساکی ہو چکی ہے، وہ ٹوٹے پھوٹے خواب تو چلیے رہنے دیجیے جو ہم نے اس ملکہ آبنوس کنڈولیزا رائس کے بارے میں دیکھے تھے اور سب کے سب کرچی کرچی ہو کر بکھر گئے۔

کیا کریں ایسے حالات میں دل کو سمجھانا پڑتا ہے کہ چلو اچھا ہوا ایک کافرہ کے واسطے ایمان کو خطرے میں نہیں ڈالا اور پھر سات سمندر پار کی بات بھی تھی، سگنل کب تک تسلسل قائم رکھتے، یہ پڑوس والیوں پر بھی ہم صبر کر لیں گے کہ جب ہمارے اتنے ٹیلنٹ سے بھرپور جوان اور جوانیاں وہاں بار نہیں پا رہی ہیں تو ہم کس کھیت کے شلغم ہیں اور اتنی غیرت تو ہم رکھتے ہیں کہ ملکی مفادات پر اپنی ذاتی ترجیحات بلکہ ’’تحفظات‘‘ کو قربان کر دیں، لیکن اور بھی ’’غم‘‘ ہیں زمانے میں اس بھارت کے سوا … اس لیے اگر ہم خوابوں کے سلسلے میں اپنے آپ کو محدود بھی کر دیں یا یہ کہیے کہ چلیں ہم نے اپنے خوابوں پر ’’کیبل‘‘ کی طرح پابندی لگا بھی دی کہ آیندہ کسی غیرملکی اور خاص طور پر ان ناپسندیدہ پڑوسیوں کے ’’چینل‘‘ بالکل بھی نہ آنے پائیں بلکہ ہم نہایت مسرت اور ملی جذبہ اور جوش و خروش کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے خوابوں کے کیبل آپریٹر کو ہدایت کر دی ہے کہ جب تک یہ تعلقات کی خرابی کا سلسلہ چل رہا ہے تو ٹی وی چینلوں کی طرح ہمارے خوابوں میں بھی کوئی غیر ملکی چینل نہ لگنے پائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اپنے ہاں بھی وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو خوابوں کو رنگین بناتی ہیں، ایک میرا کیا کم تھی خوابوں میں یلغار کرنے کے لیے کہ اب اس سے بھی بڑھ کر خوابوں کے غارت گر پیدا ہو چکے ہیں۔ نام کیا لیں اپنے خوابوں کو ٹٹولیے اخبارات اور چینلات پر نظر ڈالیے

کرے فریاد امیر اے داد رس کس کی
کہ ہر دم کھنیچ کر خنجر نئے سفاک آتے ہیں

اور یہ تو ممکن نہیں کہ آدمی خواب دیکھنا چھوڑ دے کیونکہ بزرگ کہتے ہیں کہ جانور خواب نہیں دیکھتے صرف انسان ہی وہ جانور ہے جو خواب دیکھتا ہے اور غالباً یہی ایک فرق ہے دونوں میں، کہ جانور خواب نہیں دیکھتے تو آرام سے اپنا پیٹ بھرنے کے بعد آرام سے کسی خواب کے کھٹکے کے بغیر سو جاتے ہیں جب کہ انسان سونے کے بعد بھی آرام سے نہیں بیٹھتا، طرح طرح کے خواب دیکھتا ہے اور پھر جاگتے ہی اس کو سچ کرنے کے لیے نکلتا ہے، گویا نہ دن کو چین نہ رات کو آرام، یوں دیکھا جائے تو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یا پرابلم یا المیہ یہ کم بخت خواب ہی ہیں، جن کی تفسیر وہی ایک جملہ ہے کہ ’’اپنا سپنا پرایا مال اپنا‘‘ لیکن کیا کیا جائے ہمارا تعلق بھی بدقسمتی سے اسی خواب دیکھنے والوں کے قبیلے سے ہے اس لیے خوابوں سے پیچھا تو نہیں چھڑا سکتے البتہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے خوابوں کو ذرا ’’غریب و سادہ و رنگین‘‘ بنا دیں اور ایسا تقریباً ہو چکا تھا لیکن بیچ میں یہ ’’قینچی‘‘ چل جاتی ہے اور ہمارے اچھے خاصے خوابوں کے ٹوٹے ہو جاتے ہیں، ویسے ہم اس پر بھی راضی تھے کچھ نہ کچھ گزارہ اور افاقہ تو ہو جاتا تھا

ہیں ترے وعدہ نہ کرنے پہ بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانک تسلی نہ ہوا

لیکن بیچ میں ایک اور مصیبت آگئی جو بہت بڑی مصیبت ہے، یوں کہیے کہ خوابوں کا سارا مزا ہی کرکرا ہو گیا اور اس کا کوئی علاج بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ انسان خوابوں میں وہی کچھ دیکھتا ہے جو دن میں سوچتا ہے یا کرتا ہے یا سہتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتاہے کہ انسان اپنی ادھوری خواہشوں اور تمناؤں بلکہ حسرتوں کو خواب میں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اپنے مسائل کو حل کرتا ہے یا دل کی بھڑاس نکالتا ہے مطلب یہ کہ خوابوں اور شاعری کا سلسلہ ایک جیسا ہے فرق صرف یہ ہے کہ عام انسان خواب دیکھتا ہے اور شاعر لوگ جو نہ کر سکتے ہوں وہ الفاظ کے ذریعے شاعری میں کرتے رہتے ہیں اس لیے دن کو جو کچھ دیکھتے ہیں سنتے ہیں اور سوچتے ہیں وہ خوابوں میں بھی دہراتے ہیں اور اسی بات نے آج کل ہمارا جینا تو خیر پہلے ہی خراب تھا اب سونا بھی خراب کر دیا ہے کہ دن کو جو ’’منحوس‘‘ چہرے دیکھتے ہیں، بیانات سنتے ہیں اور ناروا پڑھتے ہیں وہ خواب میں بھی آکر آکر پریشان کرتے ہیں، ڈراتے ہیں اور بے آرام کرتے ہیں۔

ہم کسی اچھے ماہر خواب کی تلاش میں اس لیے ہیں اور اسی توقع پر  پروفیسر صاحب  سے ملنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں کوئی اپنا عمل یا اپائے بتائیں کہ … ہم جانتے ہیں ہمارے خوابوں کو کنٹرول تو وہ بھی نہیں کر سکتے اگر کر پاتے تو کینیڈا میں کیوں جارہتے … لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ ہمیں بتا دیں کہ ہم خواب میں کلاشن کوف یا تھری ناٹ تھری بھی لے سکیں پھر ان برے اور بھیانک خوابوں سے نمٹنا ہمارا کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔