پاناما لیکس کیس؛ کمیشن کے قیام کے لیے فریقین سے جواب طلب

ویب ڈیسک  بدھ 7 دسمبر 2016
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران فریقین سے کمیشن کے قیام کے لیے جواب طلب کرلیا ہے۔  

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جاتی امرا میں مریم نواز کا پتہ لکھا ہے لیکن وہ قانونی طور پر اپنے شوہر کے زیر کفالت ہیں، کیا باپ کے ساتھ رہنے سے بیٹی زیر کفالت ہو جاتی ہے، جاتی امرا میں تو شریف خاندان کے دیگر افراد بھی رہائش پزیر ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم نے مریم نواز کا ایڈریس دیکھ لیا، ان کے اخراجات اور آمدن کہاں سے آتی ہے وہ دیکھنا ہے جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی زرعی آمدن ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے سامنے 3 سوالات رکھ دیئے

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ عام پریکٹس ہے اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں، ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا معاملہ فنکشنل ہے، آپ کو اور مجھے بہتر علم ہے کہ ٹیکس گوشوارے کیسے جمع کرائے جاتے ہیں، انہوں نے سلمان بٹ سے استفسار کیا کہ کیا جاتی امرا کی زمین مریم نواز کے نام ہے۔ سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز جاتی امرا میں رہائش پذیر ہیں اور وہ ان کے گھر کا پتہ کیا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے مریم نواز کے لئے زمین کب خریدی، جس کے جواب میں سلمان بٹ نے کہا کہ اراضی 19 اپریل 2011 کو خریدی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے دوبارہ استفسار کیا کہ رقم والد نے بیٹی کو تحفے میں دی جو بیٹی نے والد کو واپس کردی تھی۔

سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ دبئی مل کے واجبات 36 ملین درہم تھے جب کہ ان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ 2 ملین بجلی کے واجبات تھے، بجلی کے واجبات قسطوں میں ادا کیے گئے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ مل خسارے میں تھی اور فروخت کی تو واجبات کیسے ادا کیے، اقساط کی رقم کس نے فراہم کی؟، سلمان بٹ نے جواب دیا کہ واجبات کی رقم طارق شفیع نے ادا کی جس پر عدالت نے ریکارڈ طلب کیا تو وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ 40 سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں، دبئی کے بینک 5 سال سے زیادہ کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ میاں شریف ہر کام اپنی مرضی سے کیا کرتے تھے، ہوسکتا ہے دادا اور پوتے کے کاروباری معاملات کا نوازشریف کوعلم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کی کوئی قانونی اور مصدقہ حیثیت نہیں ہے، میرے دفتر میں پاناما پیپرز کی درجنوں فائلیں پڑی ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کوومبرکمپنی اورعمران خان کے وکیل کےجمع کردہ دستاویزات سے انکاری ہیں؟ جس پر سلمان بٹ نے جواب دیا کہ ان دستاویزات پر بعد میں بحث کروں گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہمیں تو پریکٹس میں بتایا گیا تھا کہ اگرجج سوال کرے تو اس کاجواب دیاجائے اور یہ کہتے ہیں کہ بعد میں بحث کروں گا۔

سلمان بٹ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق برطانوی قانون کافی لچکدار ہے، برطانوی قوانین کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کو رجسٹرڈ کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس سے متعلق  کمپنی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ موزیک فونسیکا کو ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں بتایا گیا تھا؟، جس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر زبانی ڈیڈ دستاویزات کے برعکس ہو تو اس کی کیا حیثیت ہو گی، دستاویزات کے مطابق مریم کچھ کمپنیوں کی بینی فشری ہیں۔ سلمان بٹ نے جواب دیا کہ برطانوی قانون کے مطابق ایسی ٹرسٹ ڈیڈ کی اجازت ہے، ٹرسٹ ڈیڈ زبانی کلامی بھی ہوسکتی ہے، آف شور کمپنی کا ٹیکس نہیں دینا پڑتا، اگر ٹیکس اداکرنا ہوتا تو پھر شاید یہ آف شور کمپنیاں ہی نہ ہوتیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ثبوت اورشواہد ریکارڈ کرنا ہمارا کام نہیں ہے، دستاویزات کاجائزہ لینے کے لیے کمیشن بنانا پڑسکتا ہے، کمیشن بنانے سے متعلق  تمام آپشن کھلے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں قطری دستاویزات کا ذکر نہیں کیا جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ وزیراعظم کا بیان سیاسی تھا عدالتی نہیں، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ عوام کے سامنے دیئے گئے بیان کو عدالت میں بھی ثابت کیا جائے۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا حسین نواز آف شور کمپنی کے بینی فشری اور مریم ٹرسٹی ہیں، یہی معاملہ اسپیکر کے سامنے اٹھایا گیا جو خارج ہوا۔ سپریم کورٹ نے اسپیکر کے پاس وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ سلمان بٹ نے موقف اختیار کیا کہ مریم نواز وزیراعظم کے زیر کفالت نہیں ہیں اس لئے وزیر اعظم مریم نواز کے گوشوارے ظاہر کرنے کے پابند نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ نے الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ، اسپیکر کی کارروائی رپورٹ داخل کی؟، معاملہ الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے تو 184/3 کے تحت مداخلت نہ کریں۔ سلمان بٹ نے کہا کہ جو مقدمات زیر التوا ہیں ان کی تفصیلات فراہم کر دوں گا جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ مقدمات عدالتوں میں زیر التو ہیں تو ہم ان کی سماعت نہ کریں۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کےسامنے بھاری بھرکم معاملات ہیں لیکن ہم ٹھوس بنیادوں پرآگے بڑھنا چاہتے ہیں، کئی دستاویزات ہیں جن کی تصدیق کے لیے تحقیقات کی ضرورت ہے، دونوں فریقین کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزی شواہد میں خلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرہمیں کمیشن ہی بناناہےتو وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں، 2 درخواستوں میں پہلے ہی کمیشن کی تشکیل کا کہا گیا ہے، اپنے موکلین سے پوچھ کر بتائیں کہ کمیشن بنائیں یا ہم خود فیصلہ کریں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ دستاویزات کا پوچھا جائے توکہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ سے حاصل کیں، چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران وزیراعظم کے وکیل شیخ اکرم نے بولنے کی کوشش کی تو جسٹس انور ظہیر جمالی نے انہیں کہا کہ آپ سینیر وکیل ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہربات پرلقمہ دیں، کیا آپ سمجھتے ہیں  تمام نکات اس سمری کے انداز میں سن کر فیصلہ کر سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن تحریک انصاف کے الزامات پر بنایا جائے گا جو ججز پر مشتمل ہوگا، کمیشن میں فریقین کو اپنا موقف فراہم کرنے کا بھرپور موقع ملے گا اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کو بھی پیش کی جائے گی۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق کر دے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اسپیکر کا  فورم استعمال کر چکی ہے، عدالت 184/3 میں پانامالیکس کو دیکھ رہی ہے جب کہ فوجداری مقدمات میں شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا عدالت اسکیچی پیپرز کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے سکتی ہے؟، سیاست میں انتظارہوسکتا ہے لیکن انصاف پر سمجھوتا نہیں کرسکتے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حاکم وقت عدالت میں لایا گیا جو اسلامی تاریخ میں روشن مثال ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کسی نے بتایا تھا کہ 1997 میں وزیراعظم نے کاشف عباسی کوانٹرویو دیا تھا جس میں کہا گیا کہ خاندانی کاروبار سے نواز شریف اور فیملی کا نام منسلک نہیں رہے گا، اس انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ مل جائے تو پتا چلے گا کہ وزیراعظم کے اصل الفاظ کیا تھے؟ کاشف عباسی نے کہا کہ وہ انٹرویومیں نےنہیں لیاغالباًحامد میر نے لیا تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ صرف ان کے نام الگ کیے گئے یا انہوں نے واقعی کاروبار چھوڑ دیا؟

تحریک انصاف کے وکلاء نے کمیشن کی تشکیل کے لئے مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا جس پر عدالت نے پاناما لیکس کیس کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔