ڈیزائن چوری کیس؛ ایپل کا سام سنگ کے خلاف 40 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ خارج

ویب ڈیسک  بدھ 7 دسمبر 2016
اس وقت ایپل کارپوریشن نے امریکہ کی زیریں عدالت میں سام سنگ کے خلاف پیٹنٹ قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس وقت ایپل کارپوریشن نے امریکہ کی زیریں عدالت میں سام سنگ کے خلاف پیٹنٹ قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ میں 8 ججوں پر مشتمل بینچ نے سام سنگ کے خلاف ایپل کارپوریشن کی 399 ملین ڈالر ہرجانے کی درخواست متفقہ طور پر خارج کرتے ہوئے اسے نچلی عدالت میں واپس بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔

اپنی درخواست میں ایپل کارپوریشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سام سنگ نے اس کے آئی فون ڈیزائن پیٹنٹ کے اجزاء چوری کرکے اپنے اسمارٹ فونز میں استعمال کئے ہیں جس پر سام سنگ اسے اپنے اسمارٹ فونز کی فروخت سے ہونے والا سارا منافع بطور ہرجانہ ادا کرے۔ طلب کردہ ہرجانے کی رقم 399 ملین ڈالر (تقریباً 40 ارب پاکستانی روپے) تھی۔

امریکی سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے آٹھوں جج صاحبان نے سام سنگ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ڈیزائن کے مختلف حصوں/ پرزوں کی پیٹنٹ بغیر اجازت استعمال کرنے کا ہے جس کا اطلاق پورے اسمارٹ فون پر ممکن نہیں اور اس لئے ایپل کی جانب سے سام سنگ کو اسمارٹ فون کی فروخت سے ہونے والے تمام منافعے کا تقاضا بھی غلط ہے۔

گیارہ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ مقدمہ زیریں عدالت میں واپس بھیجنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔

ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خاص طور پر امریکہ میں پیٹنٹ رکھنے والے افراد اور اداروں میں یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے کہ وہ اپنی پیٹنٹ کے غیر قانونی استعمال کے خلاف ہرجانے کی درخواست دائر کرکے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس چلن پر روک لگانے میں بہت اہم ثابت ہوگا۔

اس وقت ایپل کارپوریشن نے امریکہ کی زیریں عدالت میں سام سنگ کے خلاف پیٹنٹ قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں جن میں جیوری نے سام سنگ کے خلاف پہلے ایک ارب ڈالر ہرجانہ تجویز کیا تھا جسے بعد میں کم کرکے 548 ملین ڈالر کردیا گیا۔ مذکورہ 398 ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ بھی ان ہی میں سے ایک تھا جسے ایپل کارپوریشن کی درخواست پر امریکی سپریم کورٹ میں چلایا جارہا تھا۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں اس فیصلے پر کوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ اندازہ ہوا ہے کہ امریکی عدالتیں بھی ٹیکنالوجی کے حقوقِ ملکیت جیسی چیزوں پر مقدمات کا فیصلہ کرنے کےلئے ابھی تیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔