قطبین پر بھارت کے رقبے سے بھی زیادہ برف غائب ہوگئی، سائنسدان

ویب ڈیسک  ہفتہ 10 دسمبر 2016
اس سال نومبر میں قطبین پر برف کا کم ترین رقبہ ریکارڈ کیا گیا جو ماحولیاتی نقطہ نگاہ سے انتہائی تشویش ناک ہے۔ فوٹو؛ فائل

اس سال نومبر میں قطبین پر برف کا کم ترین رقبہ ریکارڈ کیا گیا جو ماحولیاتی نقطہ نگاہ سے انتہائی تشویش ناک ہے۔ فوٹو؛ فائل

کراچی: قطب شمالی اور جنوبی پر تحقیق کرنے والے مختلف بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ اس سال نومبر میں قطبین پر برف کی کم ترین مقدار ریکارڈ کی گئی ہے جو عالمی ماحول کے نقطہ نگاہ سے انتہائی تشویش ناک ہے۔

قطبین (یعنی آرکٹک اور انٹارکٹیکا) پر قائم امریکا، جرمنی، ہالینڈ، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے علاوہ بین الاقوامی موسمیاتی اسٹیشنوں نے مشترکہ طور پر یہ انکشاف کیا ہے کہ اس سال نومبر کے مہینے میں قطبین پر 37 لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر جتنی برف کم ہوئی ہے جو بھارت کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں لیکن ان کے لیے حیران کن ہر گز نہیں کیونکہ اس سال قطب شمالی (آرکٹک) پر پہلے ہی نومبر میں معمول سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ کا درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جرمن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سال نومبر میں قطب شمالی پر برف کا مجموعی رقبہ 90 لاکھ 80 ہزار مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا ہے جو اب تک نومبر میں آرکٹک پر برف کا سب سے کم رقبہ بھی ہے۔

اس سے پہلے نومبر کے مہینے میں قطبین پر کم ترین برف کا عالمی ریکارڈ 2006 میں قائم ہوا تھا لیکن اس سال برف کی کمی نے اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یاد رہے کہ قطبین پر مسلسل پگھلتی ہوئی برف عالمی ماحول کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 100 سال کے دوران سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر (8 انچ) تک کا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ زمین پر مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیاں اور نتیجتاً مسلسل بڑھتی ہوئی آلودگی ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر قطبین کی ساری برف پگھل گئی تو دنیا بھر میں سمندروں کی سطح آج کے مقابلے میں 216 فٹ (66 میٹر) تک بلند ہوجائے گی اور سارے کے سارے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔

ماہرین کے مطا بق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور قطبین پر تیزی سے کم ہوتی ہوئی برف کے نئے سے نئے ریکارڈ اسی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اگر زمینی ماحول درست کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خطرناک موقع شاید ہماری توقعات سے بہت پہلے ہی آجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔