چھوٹو گینگ نے ہتھیار ڈال دیے

ایڈیٹوریل  جمعرات 21 اپريل 2016
پولیس کے نظام میں انقلابی اصلاحات کے بغیر معاشرے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔

پولیس کے نظام میں انقلابی اصلاحات کے بغیر معاشرے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔

اکیس دن کے اعصاب شکن لمحات کے بعد بالٓاخر چھوٹوگینگ نے اپنے 175ساتھیوں خواتین اور بچوں سمیت ہتھیار ڈال دیے اورچوبیس مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی فوج کے حوالے کردیا۔ بالآخر ایک خطرناک گروہ کا خاتمہ پرامن طریقے سے ہوا، کیونکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ بہرحال موجود تھا۔ شکر ہے کسی بڑے خون خرابے کی نوبت نہیں آئی، ملزموں نے خودکو قانون کے حوالے کردیا ہے،اب ان کا فیصلہ عدالتیں کریں گی، یقیناً وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے، لیکن ساری المناک صورتحال کا پس منظرانتہائی بھیانک ہے۔

آخر ایک معمولی مجرم کیسے ایک ایسا گینگ ترتیب دے کر اس کا سربراہ بن جاتا ہے، جس کے سامنے پولیس بے بس نظرآتی ہے۔ وہ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے،کچا جمال کے جزیرہ نما علاقے کو جرائم پیشہ افرادکی ’’جنت‘‘ کہا جاتا تھا، جس میں اشتہاریوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود تھیں، جہاں قانون کے لمبے ہاتھ پہنچنے سے قاصر رہے ۔

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں اپنے سسٹم میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹوگینگ کیسے وجود میں آیا،کیا اس کی سرپرستی پولیس اورعلاقے کے با اثر جاگیرداروں اور وڈیروں نے کی، تو اس کا جواب ’ہاں‘ میں ہے ۔

’اغوا برائے تاوان‘ ایک منافع بخش انڈسٹری کی صورت اختیارکرچکا ہے، جس میں پولیس، بااثرافراد اور جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں۔ جب سیکیورٹی فورسز نے ڈاکوئوں کی کمین گاہوں کوختم کرنے کے ساتھ ان کے زیر استعمال اسلحہ بھی قبضہ میں لینا شروع کیا تو انکشاف ہوا کہ ملزموں کے پاس بھارتی ساختہ اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور لانگ رینج اسلحہ موجود تھا،ایسے افراد کو بھی بازیاب کرایا جنھیں چھوٹوگینگ نے آپریشن سے پہلے مختلف اوقات میں تاوان کے لیے اغوا کرکے رکھا ہوا تھا۔

سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر آٹھ اضلاع کی پولیس اپنے چھ ساتھیوں کو شہیدکروانے اور چوبیس اہلکاروں کواغواکرانے کے علاوہ کیا کرسکی؟ بھلاہو پاک فوج کا، جس نے اس آپریشن کی کمانڈ سنبھالی اور صرف تین سے چار دن میں اپنی بہترین حکمت عملی اورمحاصرے کی بنا پر اس خطرناک گروہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبورکردیا۔ پولیس کو ناکوں چنے چبوانے والے اندھڑگینگ جوکہ گوریلا کارروائیوں کا ماہر تھا کا چھوٹوگینگ سے اتحاد تھا۔ گڈگورننس کے دعویداروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخرکار یہ سب کچھ کیسے جاری رہا، پولیس کے نظام میں انقلابی اصلاحات کے بغیر معاشرے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔