سانحہ بابری مسجد، ذمے داران کو سزا دی جائے

ایڈیٹوریل  جمعـء 21 اپريل 2017
۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کو 25 سال گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف اس کیس میں کسی کو سزا ہوئی ہے بلکہ اب تک ذمے داروں کا تعین بھی نہیں ہوسکا ہے، سیکولر ریاست بھارت جو دنیا میں خود کو امن و امان کا داعی اور انصاف پسند مشہور کرانے کے لیے پوری شد ومد سے سرگرم ہے، 25 سال میں بابری مسجد انہدام کیس کا فیصلہ نہیں کرپایا ہے۔ بابری مسجد 1528ء میں شہنشاہ بابر کے سپہ سالار جنرل باقی نے ایودھیا کے مقام پر تعمیر کرائی تھی ،ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ تھا اس جگہ رام مندر تھا، لیکن اب اطلاع موصول ہوئی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے دیرینہ بابری مسجد انہدام کیس میں سابق وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف سازش کرنے کے الزامات میں مقدمہ چلانے کا حکم دے دیا ہے۔

واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ ملزمان کے خلاف بابری مسجد کی شہادت کے الزامات ختم کردیے تھے لیکن اب سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کرتے ہوئے دوبارہ مقدمہ چلانے کا جو حکم نامہ جاری کیا ہے وہ اس تناظر میں خوش آیند ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے زخم بابری مسجد کی شہادت پر اب تک مندمل نہیں ہوپائے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت انتہاپسند بھارت کے ہزارہا اقدامات میں سے ایک عمل ہے جو اس بات کو مترشح کرتا ہے کہ خود کو سیکولر ریاست کے نام کے پیچھے چھپانے کے باوجود بھارتی حکومت اقلیتیوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ کس قدر ناروا سلوک کی مرتکب ہورہی ہے، کشمیر میں جاری مظالم اپنی جگہ لیکن بھارت کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جہاں مسلمان خود کو محفوظ سمجھتے ہوں، خصوصاً موجودہ بھارتی حکومت کی سرپرستی میں بی جے پی کے انتہاپسند مظلوم مسلمانوں اور اقلیتوں پر طرح طرح سے ظلم ڈھا رہے ہیں۔

گؤ ماتا کی حفاظت کے نام پر بڑا جانور ذبح کرنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بھارت میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جارہا ہے لیکن اقوام عالم کی نگاہیں اس جانب سے بوجوہ بند ہیں۔ بابری مسجد شہادت کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اس مقدمے کی کارروائی 2 برس میں مکمل کی جائے، مقدمے کی کارروائی کے دوران التوا کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی مقدمے کی سماعت کرنے والے کسی جج کو ٹرانسفر کیا جاسکے گا۔

بابری مسجد 6 دسمبر 1992 کو شہید کی گئی تھی اور اس دن ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی ایودھیا میں ہی موجود تھے، انھیں وہاں جمع ہزاروں ہندو عقیدت مندوں کے جذبات بھڑکانے اور مجرمانہ سازش کے الزامات کا سامنا ہے۔ بی جے پی کے رہنماؤں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ لیکن ملزمان کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی انتہاپسند رہنما اوما بھارتی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردعمل میں کہا ہے کہ چاہے پھانسی ہوجائے مگر رام مندر بنا کر رہوں گی۔ امید ہے بھارتی سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سانحہ بابری مسجد کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا سنائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔