ایک سادہ لوح بڑا آدمی

سردار قریشی  ہفتہ 18 نومبر 2017

زمانہ طالب علمی میں ہم دو تین لڑکے ایلیمینٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان دینے اپنے ٹیچر کے ساتھ ٹنڈو باگو گئے تھے ،جہاں کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہمارا سینٹر پڑا تھا ۔ یہ اسکول میر غلام محمد تالپور کی یادگار تھا جو اس کے بانی ہی نہیں شہرکے مالک بھی کہلاتے تھے، خدا ترس اور درویش صفت آدمی تھے، خود پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن علم دوستی کا عالم یہ تھا کہ شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ اور ان جیسے کئی دوسرے نامور حضرات نے ان کی مالی معاونت سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ یورپ کی بہترین درسگاہوں تک میں تعلیم حاصل کی۔

میر صاحب کو بجا طور پر سندھ مدرستہ الاسلام کراچی کے بانی حسن علی آفندی کیے بعد سندھ کا دوسرا سرسید احمد خان کہا جاتا تھا، سندھ میں تعلیم کی روشنی پھیلانے اور بے وسیلہ غریب لوگوں کے لیے اس کا حصول ممکن بنانے کا جذبہ ہی تھا جس نے ان سے اس اسکول کی بنیاد رکھوائی جو اس زمانے میں مدرسہ اسکول کہلاتا تھا۔ انگریزی حرف ’’ای‘‘ کی شکل کا اسکول خواہ ہاسٹل کی عمارتیں انھوں نے کس قدر چاہ اور لگن سے تعمیر کروائی تھیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ تعمیراتی کام کی نگرانی کے لیے انجینئر تو انجینئر نقشہ نویس (آرکیٹکٹ) بھی انگلستان سے بلوائے گئے تھے۔

اس زمانے میں ٹنڈو باگو انتظامی لحاظ سے حیدرآباد ضلع میں شامل اور تعلیمی اعتبار سے انتہائی پسماندہ تھا۔ یہ کمی دور کرنے کے لیے میر صاحب نے اسکول ہی قائم نہیں کیا، اس میں داخلہ لے کر پڑھنے والے بچوں کی کتب، رہائش اور خوراک کا تمام خرچ بھی خود برداشت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے قائم کردہ اسکول کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ایک خطیر رقم اس کے اکاؤنٹ میں فکسڈ ڈپازٹ کے طور پر رکھ دی تھی جس کے حاصل ہونے والے منافعے سے اساتذہ کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجات پورے ہوتے تھے۔

اپنی زندگی میں تو وہ خود ہیڈ ماسٹر کے توسط سے اسکول کے تمام معاملات دیکھتے تھے جو لاڑ بھر میں میر غلام محمد کے مدرسے کے نام سے مشہور تھا۔ ان کی وفات کے بعد جب حکومت نے اس کا انتظام سنبھالا تو اس کا نام بدل کر میر غلام محمد گورنمنٹ ہائی اسکول ٹنڈو باگو رکھ دیا گیا۔ سندھ میں تعلیم کو عام کرنے کے حوالے سے ان کی خدمات کو آج بھی انتہائی عقیدت اور عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے، میر صاحب کے کوئی اولاد نہیں تھی، انگریزوں نے تعلیم کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نیز ان کی انصاف پسندی کے پیش نظر انھیں فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کا اعزازی عہدہ دے رکھا تھا اور وہ اپنے ان عدالتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے جو ان کے پاس لائے جاتے تھے، اس زمانے میں ان کا کیا ہوا ایک فیصلہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ جب بھی عدل و انصاف کے موضوع پر کوئی بحث چھڑتی، ان کے اس فیصلے کی مثال دی جاتی تھی۔

میر خدا بخش عرف لامبٹ جو تلہار سے ٹنڈو باگو جانے والی سڑک پر ڈیئی نام کے ایک چھوٹے سے قصبے کے نواح میں، جہاں اس کی زرعی زمینیں تھیں، اپنی شاندار حویلی میں رہتا تھا، ان کا سگا بھتیجا تھا اور ایک عیاش اور برا آدمی مشہور تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس کے تمام تر ظلم و جبر کے باوجود کبھی کسی نے اس کے خلاف کسی اور سے تو کیا اس کے چچا تک سے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ امتحان دلانے کے لیے ٹنڈو باگو لے جاتے وقت ٹیچر نے ہمیں میر لامبٹ کے بنوائے ہوئے زیر زمین عشرت کدے کے کھنڈرات دکھائے تھے جس میں اور بہت سی چیزوں کے علاوہ فواروں والے ایک بڑے تالاب ( سوئمنگ پول) اور باغ کے آثار بھی موجود تھے، ہم نے اس کی حویلی بھی دیکھی تھی جس کا ایک حصہ اس وقت تک بھی رہائش کے قابل تھا جس میں شاید کوئی کسان خاندان آباد تھا۔

دراصل وہاں ہماری لاری خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ہمیں وہاں ڈھائی تین گھنٹے رکنا پڑا تھا، جھونپڑا ہوٹل میں ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہمیں میر غلام محمد کے انصاف کا یہ قصہ سنایا تھا، ان کے بقول کپاس چننے والے خانہ بدوش کماتے کھاتے میر لامبٹ کی زمینوں پر آنکلے اور اس کے کامدارکی اجازت سے حویلی کے عقب میں جھونپڑیاں بنا کر رہنے لگے، ان کے سبھی مرد اور عورتیں مل کر کپاس چنتے تھے، میر لامبٹ کے کسی خوشامدی مصاحب کی ان پر نظر پڑی تو ایک جوان لڑکی کو دیکھ کر، جو حسن و جمال کا پیکر تھی، اس سے رہا نہ گیا اور موقع پاکر اس نے میر لامبٹ سے اس کا ذکر کیا جو ویسے ہی ایسی حسیناؤں کی تلاش و جستجو میں رہتا تھا ۔

میر لامبٹ کا اشارہ پاکر اس کے آدمیوں نے رات کو اس وقت لڑکی کو اٹھا لیا جب دن بھر کی مشقت سے تھکے ہوئے اس کے گھر والے بے خبر سو رہے تھے، صبح لڑکی کو غائب پاکر سب اس کی تلاش میں نکلے، کھیتوں کھلیانوں میں تلاش کرنے اور ڈیئی میں لوگوں سے معلوم کرنے کے بعد شام کو جب یہ لوگ ناکام و نامراد واپس لوٹے تو میر لامبٹ ہی کے پاس فریادی بن کر پہنچے، لڑکی اس کی حویلی میں قید تھی لیکن اس نے ان کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ وہ اسے تلاش کرانے کی پوری کوشش کرے گا۔

دو چار دن اور گذر گئے، میر لامبٹ کی حویلی میں کام کرنے والی کسی باندی نے اپنے شوہر سے اس مظلوم لڑکی کا ذکرکیا تو اس خدا کے بندے کو رحم آگیا، اس نے نہ صرف خانہ بدوشوں کو ان کی لڑکی کی حویلی میں موجودگی کے بارے میں بتادیا بلکہ اس کی بازیابی کا طریقہ بھی سمجھایا، خانہ بدوش اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے سیدھے میر غلام محمد تالپورکے پاس ٹنڈو باگو پہنچے، شکایت سنتے ہی میر صاحب نے اپنی ڈاچی (اونٹنی) تیار کروائی ، اپنے بھتیجے کی حویلی پر اچانک چھاپہ مارکر لڑکی برآمد کرلی۔

بھتیجا ہاتھ جوڑے کھڑا تھا اور حویلی کی خواتین اپنے دوپٹے ان کے قدموں میں ڈال کر عزت کے واسطے دے رہی تھیں لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی ، لڑکی کو لے کر باہر آئے، میر لامبٹ کے ہاریوں اور نوکروں سمیت سیکڑوں لوگ جمع تھے، انھوں نے اپنے بھتیجے سے پوچھا کہ وہ جرم کا اعتراف کرتا ہے یا مقدمے کا سامنا کرے گا،اس نے جوں ہی اپنا جرم قبول کیا میر صاحب نے فیصلہ سنا دیا جو یہ تھا کہ اگر اسے خانہ بدوشوں کی یہ لڑکی پسند ہے تو ابھی اور اسی وقت ان کے سامنے اس سے نکاح کرے اور اپنی بیوی کو جس کا تعلق میروں ہی کے خاندان سے تھا طلاق دے تاکہ عدت گزارنے کے بعد اس کی شادی اس کی اٹھوائی ہوئی خانہ بدوش لڑکی کے منگیتر سے کروائی جائے، فیصلہ سن کر میر لامبٹ اندر حویلی میں گیا اور اپنی بندوق لاکر چچا کو دی اور بولا ایسا کروانے سے بہتر ہے وہ اسے گولی مار دیں، اس کے باوجود جب میر صاحب اپنے فیصلے پر قائم رہے تو اس نے متاثرہ فریق سے بات کرنے کی اجازت چاہی اور پتہ نہیں کتنے ایکڑ زرعی زمین اور بھاری رقم بطور جرمانہ ادا کرکے راضی نامہ کرلیا، اس کو اپنے ہاریوں اور نوکروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اور ناک رگڑ کر معافی بھی مانگنی پڑی۔

میر غلام محمد تالپور جیسا ایسا بڑا آدمی کتنا سادہ لوح تھا وہ بھی سن لیجیے، کہتے ہیں سردیوں کی ایک شام جب وہ اپنے بنگلے پر بیٹھے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے، گیدڑوں کی رونے جیسی آوازیں سن کر پوچھا یہ رو کیوں رہے ہیں، ان کے ایک چالاک نوکر نے کہا سائیں بے چاروں کو سردی لگ رہی ہے، لحاف مانگ رہے ہیں، اسی وقت روپوں کی تھیلی نکال کر دی کہ لحاف خرید کر انھیں دے آؤ، دوسرے دن پھر یہ آوازیں سن کر پوچھا اب کیا کہتے ہیں تو انھیں بتایا گیا کہ آپ کو دعائیں دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔