خرگوشوں کا جزیرہ

مرزا ظفر بیگ  اتوار 19 نومبر 2017
 لیکن اس جزیرے کی تاریخ خاصی عجیب و غریب ہے

 لیکن اس جزیرے کی تاریخ خاصی عجیب و غریب ہے

جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی روایات اور ثقافت بڑی عجیب و غریب ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی بہت مخلص اور پیار کرنے والے ہیں، خاص طور سے جانوروں کو تو یہ دل و جان سے چاہتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، بیمار ہونے کی صورت میں ان کا علاج معالجہ بھی پوری توجہ سے کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

ملک جاپان میں ایک ایسا عجیب و غریب جزیرہ بھی ہے جہاں ہر طرف خرگوش ہی خرگوش دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے اسے Rabbit island کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس جزیرے پر بھاگتے دوڑتے خرگوش دیکھ کر عجیب سا خوش گوار احساس ہوتا ہے۔ یہ مست اور خوش باش خرگوش اپنی ہی دنیا میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس جزیرے کے سوا دنیا میں اور کچھ نہیں ہے۔

ان خرگوشوں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں آنے والے لوگ خاص طور سے مقامی اور غیرمقامی سیاح ان سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس Rabbit islandپر جانے والے سیاح اپنے ان ننھے مہمانوں کی خاطر تواضع کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ان کے کھانے پینے کی ڈھیروں اشیاء لے کر جاتے ہیں اور اپنے ننھے دوستوں کو پیٹ بھر کر خوراک کھلاتے ہیں۔

گویا Rabbit island پر پائے جانے والے یہ ننھے دوست کبھی بھوکے نہیں رہتے۔ یہاں آنے والے سیاح ان کے لیے اتنی بڑی مقدار میں خوراک ساتھ لاتے ہیں کہ پھر انہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہیں خوب پیٹ بھر کر خوراک کھلائی جاتی ہے، صحت بخش اور بھرپور غذا دی جاتی ہے اور اسی لیے انہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نہ تو خود کوئی شکار تلاش کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں اس بات کا کوئی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں انہیں کوئی دوسرا شکار نہ کرلے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس جزیرے پر رہنے والے خرگوش اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نہ تو خود بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور نہ ہی اس جزیرے پر کوئی دوسرا انہیں شکار کرسکتا ہے۔

امن پسند جاپانیوں کے اس ملک کے اس جزیرے پر ہر طرف امن و سلامتی کا راج ہے۔ اس جزیرے کی انوکھی دنیا کی فضا ہی عجیب ہے جسے دیکھ کر آنے والے انسان بھی خوش ہوتے ہیں اور وہاں موجود خرگوش بھی اس موقع پر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی کو اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا، اسے پیٹ بھر کر کھانے کو ملے گا اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی کوشش یا جدوجہد نہیں کرنی پڑے گی تو وہ ہر لمحہ خوش رہے گا اور اس خوشی سے لطف اندوز ہوگا۔

چناں چہ Rabbit islandکے خرگوش ہر وقت خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں اور یہاں کا دورہ کرنے والے انسانوں اور دیگر سیاحوں کے ساتھ بڑے پیار اور مان کے ساتھ تصویریں کھنچواتے نظر آتے ہیں۔ جب کبھی کسی بچے کو ان کے ساتھ تصویر کھنچوانی ہوتی ہے تو وہ کسی بھی خرگوش کو اشارہ کرتا ہے اور وہ خرگوش وقت ضائع کیے بغیر اچھل کر اس کی گود میں آجاتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے اور ان کے ہاتھوں سے خوراک کھاتے ہوئے یہ تمام خرگوش ان سے اتنے زیادہ مانوس ہوچکے ہیں کہ نہ ان سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی انہیں دیکھ کر دور بھاگتے ہیں۔ یہاں رہنے والے خرگوشوں کو اتنی عزت ملی ہوئی ہے، اتنا پیار ملا ہوا ہے کہ یہ یہاں بے حد خوش اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں، شاید اسی لیے اس جزیرے کو خرگوشوں کی جنت کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔

یہ جزیرہ ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں سمندر خشکی کے اندر گھس آیا ہے، اس جگہ کو Okunoshima کہہ کر پکارا جاتا ہے، یہ جزیرہ اس کے ایک علاقے سیٹو میں واقع ہے جو جاپان کے شہر Takehara سے صرف دو میل دور ساحلی علاقے میں ہیروشیما کمشنری میں واقع ہے۔ آج کل یہ اپنے مختصر نام Usagi Jima کے نام سے بہت زیادہ مشہور ہے جس کا جاپانی میں ترجمہ ہے: خرگوشوں کا جزیرہ ، اسے یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ یہاں شروع سے ہی سیکڑوں ہزاروں جنگلی خرگوش پائے جاتے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ یہ ان کا ایسا گھر ہے جہاں یہ بے فکرے اور کھلندڑے خرگوش ہر وقت اچھلتے کودتے دکھائی دیتے ہیں اور زندگی سے خوب لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اتنے سارے خرگوش اس خاص جزیرے پر کہاں سے اور کیسے آگئے؟ اس سوال کا جواب تو ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے، مگر جب اس جزیرے کی تاریخ پر نظر ڈالی گئی اور اس ضمن میں تاریخی حوالوں کا بھی جائزہ لیا گیا تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ ماضی بعید میں یہ خاصا بدنام جزیرہ ہوا کرتا تھا اور یہاں کے ایک علاقے میں جاپان کی شاہی فوج نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہزاروں ٹن زہریلی گیس تیار کی تھی۔ ظاہر ہے جس جگہ اتنا خطرناک کام کیا گیا ہو، وہ جگہ بھی اپنے اثرات کے حوالے سے خاصی خطرناک ہوجائے گی، شاید یہی سب کچھ اس جزیرے کے ساتھ بھی ہوا ہوگا۔ یہاں زہریلی گیس تیار کرنے کا سارا کام اتنے خفیہ طریقے سے کیا گیا تھا کہ کسی کو کانوں کان کچھ بھی پتا نہ چل سکا۔ اس کے لیے اس دور کے حکم رانوں نے اس جزیرے کو جاپان کے تمام نقشوں سے مکمل طور پر غائب کردیا تھا، گویا کرۂ ارض سے اس کے وجود کا ہر ثبوت مٹادیا تھا۔

امریکا کے کثیرالاشاعت اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق : 1930 اور 1940 کے عشرے میںیہ زہر، سرسوں کی گیس، phosgene اور دوسری اقسام کی زہریلی گیسیں چینی فوجیوں اور سویلینز کے خلاف دوران جنگ استعمال کی گئی تھیں اور اس طرح انہیں ان کی جرأت پر سزا دی گئی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس ضمن میں زیادہ کچھ تو معلوم نہیں ہوسکا، مگر یہ ضرور پتا چلا کہ جب یہاں زہریلی گیسیں تیار کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو اس کی سزا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی ملی کیوں کہ اس کے نتیجے میں کم و بیش 80,000 افراد مارے گئے تھے اور ڈھیروں جانور بھی لقمۂ اجل بن گئے تھے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس جزیرے کی خوف ناک تاریخ کے پیچھے یقینی طور پر ایسی کوئی خطرناک بات یا حقیقت ہوگی جس میں یہاں خرگوشوں کی موجودگی کا راز پوشیدہ ہے۔ اور شاید اسی لیے یہ جزیرہ خرگوشوں کا گھر قرار پایا جہاں طویل عرصے سے خرگوش موجود ہیں اور اپنی حکومت کا ثبوت بھی پیش کررہے ہیں۔

ڈیلی گارجین کے مطابق: یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے 1929میں جب فوج نے یہاں کیمیائی ہتھیار بنانے شروع کیے تو بہت سے خرگوش یہاں تجربے کے لیے لائے گئے، تاکہ انہیں اس جزیرے پر رکھنے کے بعد ان پر ٹیسٹ کیا جائے کہ اس زہریلی گیس کے ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ انہیں کس حد تک اور کس سطح پر نقصان پہنچاتی ہے۔ اس خیال سے اس یقین کو بھی تقویت ملتی ہے کہ یہاں کے ورکرز نے جنگ ختم ہونے کے بعد اس جزیرے پر قید تمام جانوروں کو رہا کردیا ہوگا۔ لیکن زیادہ سلجھے ہوئے اور ماہر لوگ اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں۔

یونی ورسٹی آف سان ڈیگو میں جاپانی سیاست کے پروفیسر ایلس کراس نے The Dodo نامی ویب سائٹ کو 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جنگ کے بعد یہاں کے اصل خرگوش تو غائب ہوگئے تھے۔ پروفیسر کراس نے مزید بتایا کہ جب امریکیوں نے یہاں قبضہ کیا تو تمام ٹیسٹ خرگوشوں کو انجیکشن لگاکر موت کی نیند سلادیا گیا تھا اور لگ بھگ 200 جانور جاپانیوں نے اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھادیے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ خرگوش ان ٹیسٹ کیے گئے خرگوشوں کی نسل سے نہیں ہیں تو یہ کہاں سے آگئے؟ ان میں سے کچھ خرگوش اسکول کے بچوں کے ایک گروپ نے 1971میں اس جزیرے پر چھوڑے تھے جو بعد میں رفتہ رفتہ بڑھتے چلے گئے۔

دوسری جانب Rabbit island کی مقبولیت کے حوالے سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ یہاں لوگ اتنی بڑی تعداد میں خرگوشوں کو خوراک فراہم کرنے آتے ہیں کہ اس کی وجہ سے جزیرے کا ایکو سسٹم تباہ ہورہا ہے۔ پھر لوگ اپنی مرضی سے ہر طرح کی خوراک انہیں دے رہے ہیں جو بعض اوقات ان خرگوشوں کی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ Rabbit island کے مکین خرگوشوں کو زیادہ تر بندگوبھی دی جاتی ہے جو ان کے لیے کوئی اچھی خوراک تو نہیں ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ان کے پیٹ میں اپھارہ ہوتا ہے، جو بعد میں گیس کا سبب بنتی ہے۔ پھر اس میں فائبر یا ریشہ بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان جانوروں کو صحت مند رہنے کے لیے مختلف اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔

چھٹیوں اور خوش گوار موسم کے دنوں میں یہاں لگ بھگ ایک ٹن خوراک خرگوشوں کو فراہم کی جاتی ہے، لیکن بارش کے دنوں میں تو یہاں کوئی بھی نہیں آتا، اس لیے کوئی خوراک بھی نہیں لائی جاتی۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ یہاں کے بھوکے خرگوشوں کو روزانہ ہی کافی مقدار میں خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے بھی اس جزیرے پر بہت کم مقدار میں نباتات باقی رہ گئی ہے اور جب جزیرے پر سیاح نہ آئیں تو انہیں کون کھلائے پلائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔