جدت پسند شہزادہ محمد بن سلمان

سید عاصم محمود  اتوار 19 نومبر 2017
امور خارجہ اور معیشت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ سعودیہ کے مذہبی معاملات بھی دیکھنے لگے۔ فوٹو: فائل

امور خارجہ اور معیشت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ سعودیہ کے مذہبی معاملات بھی دیکھنے لگے۔ فوٹو: فائل

جب اپریل 2015ء میں شہزادہ محمد کو ان کے والد، شاہ سلمان نے نائب ولی عہد مقرر کیا، تو سعودی عرب میں بھی بہت کم لوگ انہیں جانتے تھے۔ مگر پچھلے تین برس میں اپنے انقلابی اقدامات، خیالات اور سرگرمی کی وجہ سے شہزادہ سلمان عالمی سطح پر نمایاں ہو چکے ہیں۔

مخالفین کی نظر میں وہ ایک جاہ طلب اور بے صبرے نوجوان ہیں ‘ہر قیمت پر شاہی تخت حاصل کرنے کے خواہش مند! جبکہ حمایتی انہیں ایسا محب وطن لیڈر قرار دیتے ہیں جو اپنی فکر و عمل سے سعودی عرب کو مستقبل میں ایک جدید اورخوشحال مملکت بنانے کا عزم رکھتا ہے۔

1985ء میں جنم لینے والے بتیس سالہ شہزادہ محمد بہرحال ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک اور دیگر سعودی شہزادوں سے خاصے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بچپن سے عرب تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات کے والہ و شیدا ہیں۔ اسی لیے انہوں نے مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں پائی بلکہ شاہ سعود یونیورسٹی، جدہ سے قانون کی ڈگری لے رکھی ہے۔ سعودی عرب کے بانی، ابن سعود کے پچیسویں بیٹے اور موجودہ شاہ، سلمان کے چھٹے بیٹے ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مختلف نجی تنظیموں میں کام کرتے رہے۔ 2009ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور والد کے ذاتی مشیر بن گئے۔ تب شاہ سلمان گورنر ریاض تھے۔شاہ سلمان حکومت کے ایک اہم ادارے مجلس شوریٰ سعودیہ کے سربراہ بھی تھے۔ یہ مجلس شاہی خاندان کے افراد کے مابین تنازعات حل کراتی ہے۔ سربراہ مجلس ہونے کے ناتے شاہ سلمان شاہی خاندان میں سبھی چھوٹے بڑوں سے قریبی تعلقات رکھتے ۔ انہیں ایک نرم مزاج اور افہام و تفہیم سے لگاؤ رکھنے والی شخصیت سمجھا جاتا اور سبھی انہیں پسند کرتے ۔

اکتوبر 2011ء میں سعودی ولی عہد، شہزادہ سلطان وفات پاگئے جو شاہ سلمان کے حقیقی بھائی تھے۔ ان کی جگہ شہزادہ نائف نے سنبھال لی جبکہ اگلے ماہ تب کے سعودی حکمران، شاہ عبداللہ نے شاہ سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کردیا۔ یہی وجہ ہے، جب جون 2012ء میں شہزادہ نائف فوت ہوئے تو شاہ سلمان ولی عہد بن گئے۔اسی زمانے میں شاہ عبداللہ نے حکومت میں اصلاحات کا عمل شروع کررکھا تھا۔ شہزادہ محمد نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ تبھی اعلیٰ سرکاری افسروں نے شاہ عبداللہ کو شکایت لگائی کہ شہزادہ محمد بہت سخت ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مہینے کا کام ہفتے میں اور ہفتے کا کام منٹوں میں انجام پاجائے۔ شکایات ملنے پر شاہ عبداللہ نے شہزادہ محمد کو سرکاری محکموں میں جانے سے روک دیا۔ یہ واقعہ اجاگر کرتا ہے کہ سعودی بیورو کریسی اور شہزادہ محمد کا پہلا ٹاکرا خوشگوار نہیں رہا اور ٹکراؤ پر منتج ہوا۔

جنوری 2015ء میں شاہ عبداللہ فوت ہوئے، تو شاہ سلمان سعودی مملکت کے حکمران بن گئے۔ انہوں نے پہلے شہزادہ محمد کو وزیر دفاع بنایا اور پھر جلد نائب ولی عہد مقرر کردیا۔ گویا اب مملکت میںوہ تیسری سب سے طاقتور ہستی بن گئے۔ ماہ اپریل میں انہوں نے یمن میں حوثی باغیوں پر فضائی بمباری کرنے کا حکم دیا۔ یہ سعودی جنگ اب تک جاری ہے۔ اس دوران انہوں نے اسلامی ممالک کی فوج کے قیام کا بھی اعلان کیا۔امور مملکت میں ازحد دلچسپی رکھنے کے باعث شاہ سلمان رفتہ رفتہ دیگر سرکاری شعبے بھی متحرک و سرگرم بیٹے کے حوالے کرتے گئے۔ سعودی عرب میں 70 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اب شہزادہ محمد ان کے قائد بن گئے۔ ان کا قول ہے: ’’ہماری (نئی نسل) (پچھلی نسلوں کے مقابلے) مختلف انداز میں سوچتی ہے۔ ہمارے خواب بھی مختلف ہیں۔‘‘

تیل کی قیمت مسلسل گرنے سے سعودی حکومت مالی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ تب شہزادہ محمد نے معیشت کی بحالی کا بیڑا اٹھایا اور اصلاحات کا عمل نافذ کردیا۔ اس کے تحت نئے ٹیکس لگائے گئے اور پرانے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔ اس فعل کو سعودی عوام نے ناگواری سے دیکھا مگر انہیں یہ بھی احساس تھا کہ ٹیکسوں میں اضافے سے حکومت معیشت درست کرنا چاہتی ہے۔

نیز عوام کو یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکاری افسروں کوملی مختلف مراعات ختم کردی گئی ہیں۔شہزادہ محمد ایک عظیم الشان سرکاری فنڈ قائم کرنا چاہتے ہیں جو دنیا بھر میں مختلف نجی و سرکاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کی مالیت ’’2 ٹریلین ڈالر‘‘ بتائی جاتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جب سعودی عرب میں تیل ختم ہوجائے، تو فنڈ کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع کے ذریعے کاروبار مملکت چلتا رہے۔ اس فنڈ کی رقم حاصل کرنے کے لیے شہزادہ محمد دنیا میں سب سے بڑی تیل کمپنی، آرامکو کے حصص فروخت کرنا چاہتے ہیں۔یہ منصوبہ شہزادے کے وضع کردہ پروگرام ’’وژن 2030ء‘‘ کا حصہ ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے شہزادہ محمد اگلے پندرہ برس کے دوران سعودی معیشت میں انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ تیل سے جو آمدن ہوتی ہے، اس پر کم سے کم انحصار کیا جائے۔

اس دوران بشر ہونے کے ناتے شہزادہ محمد سے غلطیاں بھی ہوئیں۔ مثال کے طور پر مناسب منصوبہ بندی کے بغیر یمن میں جنگ چھیڑی گئی۔ اسی لیے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ 2015ء میں جب سعودی عوام پر نئے ٹیکس لگائے جارہے تھے تو شہزادہ محمد نے ایک لگژری کشتی، سیرین کروڑوں روپے میں خریدلی۔ اس پر خصوصاً سعودی سوشل میڈیا میں شہزادے کو کہا گیا کہ وہ بھی شاہانہ طرز زندگی چھوڑ کر سادگی کو اپنائیں تاکہ معیشت کی بحالی میں مدد ملے۔

امور خارجہ اور معیشت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ سعودیہ کے مذہبی معاملات بھی دیکھنے لگے۔ یاد رہے، مملکت میں مذہبی معاملات کو علمائے کرام طے کرتے ہیں اور اس ضمن میں حکومت کم سے کم مداخلت کرتی ہے۔ مگر شہزادہ محمد نے اسلامی اصول فقہ (یعنی اسلامی قانون) پر ڈگری لے رکھی ہے۔ اسی لیے وہ مذہبی قانونی معاملات میں بھی عمل دخل رکھتے ہیں۔شہزادہ محمد مملکت میں اعتدال پسند اسلام رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔نیز اس کے تمام شہری دیگر مذاہب کا بھی احترام کریں اور حکومت اجتہاد سے کام لے کر ایسے اقدامات کرے جو شہریوں کی زندگیاں آسان بنادیں۔مثال کے طور پر سعودیہ میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر پابندی لگی تھی۔ شہزادہ محمد نے یہ دلیل پیش کی کہ نئی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ صرف خواتین روزمرہ کے کام کاج کے لیے باہر نکلتیں بلکہ اونٹ بھی چلاتی تھیں۔ چناں چہ انہیں آج کے اونٹ… گاڑی چلانے کی اجازت ملنی چاہیے۔

اسی دلیل کی بنیاد پر سعودی علمائے کرام نے کچھ عرصہ قبل خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دے دی۔شہزادہ محمد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کو تفریح کا حق حاصل ہے۔چناں چہ انہوں نے کامیڈی شو منعقد کرنے، کشتی کے مقابلے اور گاڑیوں کی ریس کرانے کی اجازت دے دی۔ مزید براں مذہبی پولیس کی طاقت کم کردی گئی جو معمولی باتوں پر سعودی شہریوں کو گرفتار کرلیتی تھی۔اکتوبر 2017ء میں مشہور برطانوی اخبار، گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ محمد نے کہا ’’پچھلے تیس برس کے دوران سعودی معاشرہ نارمل نہیں ہورہا اور  بتدریج انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگیا۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایرانی انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی حکومت نے معاشرے میں ایسے قوانین متعارف کرائے جو سخت تھے۔’’ مگر اب ہم سعودیہ میں معتدل اسلام کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں جو ہمارا حقیقی مذہب ہے۔‘‘

کرپشن کے خلاف جنگ
سعودی عرب میں رواج تھا کہ ایک بار جو شہزادہ ولی عہد سلطنت بن جاتا، وہی اگلا بادشاہ بنتا تھا۔ قبل از وقت وفات ہی صرف اسے شاہ بننے سے روک سکتی تھی۔ مگر شاہ سلمان کے دور میں یہ روایت ختم ہوگئی۔ شاہ سلمان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سوتیلے بھائی، شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کیا مگر صرف تین ماہ بعد یہ عہدہ اپنے کزن، شہزادہ نائف کے سپرد کردیا۔ جون 2017ء میں انہوں نے اپنے بیٹے، شہزادہ محمد کو ولی عہد بنا دیا۔ میڈیا کا دعویٰ ہے کہ شہزادہ نائف سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا تاہم سعودی حکومت اس بات کو فسانہ قرار دیتی ہے۔ بہرحال ولی عہد بن کر شہزادہ محمد مملکت کی دوسری طاقت ور ترین ہستی بن گئے۔

4 نومبر کی صبح شاہ سلمان نے ایک نئی سپریم اینٹی کرپشن کمیٹی بنائی جس کا سربراہ شہزادہ محمد کو بنایا گیا۔ شہزادے کے حکم پر اسی دن کمیٹی حرکت میں آگئی۔ کمیٹی سے منسلک پولیس نے دو سو سے زائد شخصیات کو حراست میں لے لیا جن میں وزیر، شہزادے، اعلیٰ سرکاری افسر اور صنعت کار شامل تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ کرپشن، منی لانڈرنگ اور قومی خزانے کے غلط استعمال میں ملوث ہیں۔یہ سپریم اینٹی کرپشن کمیٹی اس لیے تشکیل دی گئی تاکہ سعودیہ میں معیشت کی بحالی کے لیے جو اصلاحات جاری ہیں، ان پر عمل درآمد تیز ہوسکے۔

خاص بات یہ  کہ کمیٹی نے کسی بااثر اور طاقتور ہستی کو نہیں بخشا۔ اگر اسے کسی قسم کی کرپشن میں ملوث پایا گیا، ترنت اسے گرفتار کرلیا گیا۔ اینٹی کرپشن کمیٹی کی پولیس نے جن لوگوں کو حراست میں لیا، ان میں سب اہم شخصیت مرحوم شاہ عبداللہ کے فرزند، پینسٹھ سالہ شہزادہ متعب ہیں۔ وہ 2013ء سے قومی گارڈ کے سربراہ چلے آرہے تھے۔ انہیں فوراً اس عہد سے ہٹا دیا گیا۔ شہزادہ متعب پر الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری رقم میں خرد برد کی، ’’بھوت‘‘ ملازم رکھے اور سرکاری منصوبے اپنی ہی کمپنیوں کو دے ڈالے۔

دوسری اہم شخصیت شہزادہ ولید بن طلال ہیں جن کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ ولید پر منی لانڈرنگ کرنے، رشوت دینے اور سرکاری افسروں کو دھمکیاں دینے کے الزامات ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں شہزادہ ترکئی بن عبداللہ (سابق گورنر ریاض)، شہزادہ فہد بن عبداللہ (سابق نائب وزیر دفاع)، شہزادہ ترکئی بن نصیر (سابق سربراہ، ادارہ ماحولیات) اور شہزادہ عبدالعزیز بن فہد شامل ہیں۔

فی الوقت سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم زور و شور سے جاری ہے۔ سعودی اٹارنی جنرل، شیخ سعود المجیب کا کہنا ہے کہ پچھلے تین عشروں سے کرپٹ طاقت ور لوگ مملکت کے قومی خزانے کو ’’100 ارب ڈالر‘‘ کی خطیر رقم سے محروم کرچکے۔ اب تمام مجرموں کو گرفتار کیا جائے گا۔سعودی عرب کے شہریوں خصوصاً نوجوان نسل نے اس کرپشن مخالف مہم کو داد و تحسین کی نظروں سے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر بیس سالہ طالب علم ریاض جدہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’اندرون و بیرون ممالک تمام سعودی نوجوانوں نے اس مہم پر اظہار خوشی کیا ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، سمجھا جاتا تھا کہ انہیں کوئی ہاتھ تک نہیں لگاسکتا۔ مگر ان کی گرفتاری اس امر کا پیغام ہے کہ اب کرپشن کرنے کا دور ختم ہوچکا۔ اب سب کو قانون و اصول کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا اور کسی قسم کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘

بعض سعودی شہریوں کا دعویٰ ہے کہ شہزادوں کی گرفتاری سے شہزادہ محمد اپنا اقتدار مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ گرفتار سعودی افراد سے حاصل کردہ رقم کا بڑا حصہ شہزادے کے ذاتی اکاؤنٹس میں جائے گا۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔یہ بہرحال حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ نوجوان اب ملازمتیں چاہتے ہیں جبکہ شہریوں کی خواہش ہے کہ ان کی آمدن بڑھے اور مہنگائی میں کمی آجائے۔ سعودی حکومت کو شہریوں کی توقعات اور امنگوں پر پورا اترنے کے لیے جامع اور دور رس اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ خبر بھی گرم ہے کہ شاہ سلمان آنے والے مہینوں میں خرابی صحت کی بنا پر اقتدار شہزادہ محمد کے حوالے کردیں گے۔ گویا یہ یقینی ہے کہ شہزادہ محمد کم از کم تیس چالیس برس تک سعودیہ میں سیاہ و سفید کے مالک رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا طویل دور حکومت قومی و عالمی سطح پر کس قسم کی مثبت یا منفی تبدیلیاں لائے گا۔ فی الحال جدت پسند شہزادہ محمد مختلف محاذوں پر متحرک ہیں اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں خیر کی امید ہی رکھنی چاہیے۔

مخالفین کا دعوی ہے کہ شہزادے تین محاذ پہ سرگرم ہیں:اپنی پوزیشن مضبوط بنانا،مملکت میں وسیع پیمانے پہ تبدیلیاں لانا اور ایران کی مخالفت کرنا۔یہ ممکن ہے کہ اپنی پوزیشن  مستحکم کرتے بناتے ہوئے وہ اندرون و بیرون ممالک کئی لوگوں کو اپنا دشمن بنا لیں۔ایسی صورت میں یا تو مکمل کامیابی  ان کی جھولی میں گرے گی یا پھر وہ شکست کھا جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔