ٹیلی وژن کی زبان اور اسماگ

سہیل احمد صدیقی  اتوار 19 نومبر 2017
گزشتہ دنوں ایک عالمی کرکٹ ٹیم نے پاکستان میں کھیل کر خوب داد سمیٹی۔ فوٹو : فائل

گزشتہ دنوں ایک عالمی کرکٹ ٹیم نے پاکستان میں کھیل کر خوب داد سمیٹی۔ فوٹو : فائل

ہمارے گردوپیش بہت سے مسائل اور معاملات ایسے ہیں جن کے متعلق لکھتے ہوئے قلم تھکتا ہے نہ سوچتے ہوئے ذہن، مگر آفرین ہے اُن لوگوں پر جو اِن اُمُور سے براہ راست متعلق ہوتے ہوئے بھی یا تو انجان بنے رہتے ہیں یا بہ زَعم ِ خویش یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو جانتے ہیں، کہتے ہیں اور لکھتے ہیں، بس وہی حرف آخر ہے۔ ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے نا سمجھنے کی۔ (یہ ترکیب ملا کر بزعم خویش لکھی جاسکتی ہے۔

ناواقفین کو سمجھانے کے لیے ایسے لکھا ہے، نیزیہ جان لیں کہ لفظ ’خویش‘ میں واؤ ساکن ہے یعنی اسے پڑھا جائے گا: خیش۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک پرانی کہاوت ہے : ’اوّل خویش، بعدہ‘ دَرویش‘ یعنی مدد، خیرات یا احسان کے لیے، پہلے اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھو، پھر کسی باہر والے کو۔ مزید وضاحت یہ ہے کہ آج بھی بعض پڑھے لکھے ، حتیٰ کہ اہل قلم لفظ دَرویش کو پیش سے دُرویش پڑھتے اور بولتے ہیں جو اُن کی زبان سے لاعلمی کا مظہر ہے)۔ ایسے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ اگر اسلام کے ابتدائی دور کے مطالعے کے لیے قرآن پاک اور حدیث شریف سے راہنمائی حاصل کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہَٹ دھرم جب بھی موجود تھے۔ بہرحال ہمیں تو بقول کسے ’’حکم ِ اذاں ہے‘‘، سو ہم دیتے رہیں گے۔

اصلاح، عقائد کی ہو یا زبان کی، اُس کی اہمیت ہمیشہ مُسَلّم رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیلی وژن اور اس خاکسار کی عمر تھوڑے سے فرق سے تقریباً برابر ہے، اس پر مستزاد ہمارا اس شعبے سے نصف عمر کا تعلق بطورمصنف و محقق (اور ایک یادگار معلوماتی پروگرام کے میزبان) ہے کہ ہمیں صرف زبان ہی نہیں، تمام تکنیکی اُمور میں (جہاں جہاں اپنی معلومات ہے) اصلاح احوال کے لیے مساعی پر مجبور کرتا ہے۔ اِن دنوں فیس بک پر کچھ اہل قلم اور اُن کے کور مقلدین و مداحین میں بھی یہ موضوع خاصا زیربحث نظر آتا ہے کہ ہرچند ٹیلی وژن چینلز پر زبان کا بیڑا غرق ہورہا ہے، فُلاں بڑے چینل پر آپ کے فُلاں حضرت نے تو کمال کر دکھایا ہے اور پچھلے چند دنوں میں کچھ اچھے الفاظ یا تراکیب سننے کو ملی ہیں۔ اس سادگی پہ کون نا مرجائے اے خدا…..جن بزرگ کا ذکر ہے، ان سے چند ملاقاتیں اس ہیچ مدآں کی بھی ہوئی ہیں۔ بہت فاضل ہیں۔ دنیائے ادب میں ادیب سے زیادہ ادیب گر مشہور ہیں۔

تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ فی الحال اُن کی ایک طویل عرصے کے بعد اچانک فعالی اور خبروں میں دخل اندازی کا اشارتاً ذکر کرتے چلیں۔ اس چینل پر خبر خواں [News reader or news caster]کہتا ہے یا کہتی ہے: ’’اس متعلق ہم آپ کو اپنے نمایندے سے Updateکرتے ہیں۔‘‘ اس جملے کی داد دینا پسند کریں گے آپ؟ اس متعلق، نا کہ اس کے متعلق، جیسا کہ اُسی چینل پر پروگرام چلا اور بہت چلا: میرے مطابق (یعنی میری سوچ کے مطابق یا میرے خیال میں)۔ اس پر خامہ فرسائی بہت پہلے کرچکا ہوں، اب کیا دُہرانا۔ اور اسی پر بس نہیں تمام چینلز کہتے ہیں، ’’پولیس کے مطابق‘‘ (یعنی پولیس کے بیان کے مطابق)۔ گزشتہ دنوں ایک عالمی کرکٹ ٹیم نے پاکستان میں کھیل کر خوب داد سمیٹی۔ اس موقع پر شائقین سے تأثرات معلوم کیے گئے تو ایک نوجوان لڑکی نے بہت سنجیدگی سے کہا:’’یہ بہت اچھی بات ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے Revivalکی واپسی ہوئی ہے۔‘‘

ایسے ہی موقع پر تو ’فادری زبان ‘ میں کہتے ہیں: No comments!۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے بعض ٹیلی وژن چینلز پر کہا جاتا ہے،’’ہم آپ کو تازہ ترین اَپ ڈیٹ دے رہے ہیں۔‘‘ اب ان سے کوئی پوچھے کہ باسی Updateکیا تھا۔ اس لفظ کا ترجمہ ابھی تک کسی ٹی وی چینل کے کسی بُقراط نے ’ایجاد‘ نہیں کیا، بالکل ایسے ہی جیسے انھیں Breaking newsکے مختلف تراجم میں کوئی ایک چُننا دشوار لگتا ہے اور اسی پر بس نہیں، کل تک جو بات ہم مذاق میں کہا کرتے تھے کہ بریکنگ نیوز کا مطلب ہے ، ’’توڑنے والی خبر‘‘ تو جناب اَب یہ حال ہے کہ کئی بڑے چینلز، اوّل تو یہ طے نہیں کرپاتے کہ اس اصطلاح کا اطلاق کس خبر پر ہوتا ہے، کس پر نہیں، دوم یہ کہ باقاعدہ ایک ایسی آواز سناتے ہیں کہ جیسے کوئی دیوار سی گری ہے ابھی (ہائے ناصر ؔ کاظمی کہاں یاد آیا)۔ ابھی خبروں کی بات کریں تو بہت کچھ مواد ایسا ہے کہ بقول کسی دیہاتی استاد کے ، آپ کی ’’کنالج‘‘ میں اضافہ ہوگا اور آپ سر دھنے بغیر نہ رہیں گے جیسے بندے نے آپ کو کوئی سُریلا گیت سنا دیا ہو۔

ایک ٹیلی وژن چینل میں ہمارا انٹرویو (بزبان انگریزی) لینے والے صاحب کی انگریزی کمزور تھی، اردو کے ٹکڑے لگا کر کام چلارہے تھے۔ پوچھا کہ آپ تو فُلاں جگہ کام کررہے ہیں پھر ہمارا ٹی وی چینل نشریات شروع کرے اور آپ کو بلائے تو آ پ یہ کیسے کرپائیں گے۔ بندے نے صاف کہا کہ اگر آپ کی پیشکش اچھی ہوئی تو وہاں سے استعفیٰ دے کر یہاں ملازم ہوجاؤں گا، ورنہ جُزوَقتی [Part-time] کام تو ہوہی سکتا ہے۔ کچھ عرصے کی ٹال مٹول اور انتظارکے بعد جب اس ’متأثر‘ نے یکے از مالکان سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے خلاف توقع بہت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد جواب سے نوازنے کا وعدہ کیا۔ اور صاحبو! ایک دن یہ ہیچ مدآں وضو کرنے بیٹھا تو موبائل فون پر اُنھی ’فاضل‘ کی کال آگئی ۔

بہت خفا تھے۔ کہنے لگے،’’صدیقی صاحب! آپ نے ہمیں خواہ مخواہ بڑے صاحب سے جھاڑ پِلوادی۔ آپ نے تو خود ہی کہا تھا کہ یہاں نوکری نہیں کرنی۔‘‘ اَب خاکسار نے کس طرح انھیں جواب دیا اور ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، اسے چھوڑیں…..(ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ باس کے حکم پر طلبی ہوئی تو انھوں نے خاکسار سے ’’پاکستان کی تاریخِ کاروبار‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی پروگرام کی دو اقساط تحریر کرالیں اور خوب داد بھی دی، مگر ہائے افسوس ! جب ایک نامور صحافی کو وہاں شعبہ حالات حاضرہ کا سربراہ بناکر تعینات کیا گیا تو موصوف سمیت کوئی اُناسی افراد فارغ ہوگئے اور ہماری محنت کا معاوضہ ملا نہ وہ اس چینل کی پیدائش کے بعد، نشر ہوسکی)۔

اس کے بعد جب ایک دن، پاکستان کے پہلے انگریزی ٹی وی چینل میں، پہلے تحریری آزمائش [Writtent test] اور پھر انٹرویو کے لیے پیشی ہوئی تو اردگرد نگاہ دوڑائی اور …..اُنھی بقراط کو وہاں بیٹھا پا کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ خیر اِس سے بڑھ کر یہ لطیفہ ہوا کہ اُن کی بجائے لاہور سے تشریف لانے والے دو بزرگ صحافیوں نے اس بھوکے پیاسے امیدوار سے پچیس منٹ سوال جوا ب کیے تو خاکسار نے اس پورے دورانئے میں ایک لفظ بھی ’غیرانگریزی‘ [Non-English]نہیں بولا، جب کہ دونوں تجربہ کار حضرات کچھ ایسے ٹکڑے لگا کر فرنگی زبان ’’بہ انداز دیہی‘‘ بول رہے تھے…..’’اور صدیقی صاحب! یہ جو کہندے ہیں ناکہ….‘‘یا ’’اور سنائیے سب خیریت‘‘ یا ’’اچھا ، چلیں یہ تو ہوگئی…اب یہ بتائیں کہ What is……‘‘۔ جب آپ کہیں ایسی صورت حال پر تبصرہ کریں یا اپنا نجی تجربہ کہیں کسی محفل میں بیان کریں تو کچھ دل جلے یہ بھی کہتے دکھائی دیں گے:’’آپ اتنے قابل ہوتے تو کسی اچھی جگہ، کسی بڑے عہدے پر نہ کام کررہے ہوتے ……….یہ سب آپ کی Frustrationبول رہی ہے۔‘‘

لگے ہاتھوں ہوجائے ایک تاریخی انکشاف، ایک بار پھر آپ کی نذر: پاکستان بحریہ نے کئی سال قبل اپنی معمول کی سالانہ مشقوں کا آغاز کیا تو اس کا نام تجویز کیا، نَسیم البَحر [Naseem-ul-Bahr] یعنی سمندر کی ہوا۔ ایک بڑے چینل پر کئی دن تک لگاتار اسے ’نسیم البہار‘[Naseem-ul-Bahaar] یعنی موسم بہار کی ہوا لکھا اور پکارا جاتا رہا۔ شکر ہے انھوں نے اسے‘Naseem-ul-Bihar یعنی ہندوستان کے صوبے،’’بِہار کی ہوا‘‘ نہیں کہا۔ اگلے برس یہی نام پھر آیا تو کچھ ہوش آیا اور اسے ایک دو بار کی غلطی کے بعد درست کردیا گیا۔ ایک اور تاریخی انکشاف، قندمکرر کے طور پر: اِسی بڑے چینل کے شعبہ خبر سے کچھ عرصہ منسلک رہنے والے ایک پڑھے لکھے صاحب نے کہیں لکھ دیا، ’ضیاع‘ تو جناب اُن کی طلبی ہوگئی۔ بڑے صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ساری عمر سنا، پڑھا، زیاں….یہ ضیاع کیا ہوتا ہے، اسے ٹھیک کریں۔

اسی چینل پر پچھلے دنوں لفظ ’ہوش‘ کو ’’حوش‘‘ لکھا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کی ایک بہت پرانی، تجربہ کار خبرخواں ’افغانستان‘ کو ’’اغوانستان‘‘ اور ’عِراق‘ کو ’’اے راق‘‘ کہا کرتی تھیں۔ ہم ایسوں کے خط کے ذریعے توجہ مبذول کرانے سے بھی اُن کی ’صحت‘ پر کوئی اثر نہ پڑا تھا، کیوں کہ وہ ’’مرکز اقتدار‘‘ سے بیٹھ کر خبر خوانی کیا کرتی تھیں۔ اِن دنوں ایک خاتون، ایران کو ’اے ران‘ کہتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ ویسے Venezuela، وینی زوئلا کو تو ہمارے تمام ٹیلی وژن چینلز ہی نہیں، ایک بہت ہی فاضل، بزرگ، انگریزی داں کے مُنھ سے بھی ’’وَینز ۔ وے ۔لا‘‘ ایک سے زائد بار سُنا۔ اب کہیے ، کیا کہتے ہیں۔ ابوظبی کا نام شاذ ہی کسی ٹی وی چینل پر (بلکہ اب تو اخبارات میں بھی) درست لکھا اور پکارا جاتا ہے، عموماً لوگ ابوظہبی یا ابودھابی کہنا پسند کرتے ہیں۔ پاناما کا نام اِن دنوں بہت مشہور یا بدنام ہے، اسے زبردستی دیسی رنگ دینے کے لیے پانامہ لکھا جاتا ہے اور بعض دیہی حضرات ایسے جھٹکے سے ’’پنامہ‘‘ کہتے ہیں کہ بالکل اپنا مقامی نام لگتا ہے۔

ناروے کے باشندوں کو ’ناروئین‘ (نار وی ان) کہا جاتا ہے، مگر ہمارے لوگ انھیں بھی نارویجین بنانے پر مُصِر ہیں۔ سعودی عرب کو اکثر چینلز پر ’’سَودی عرب‘‘ کہا جاتا ہے۔ عُمان[Oman] کو اومان کہنا اور لکھنا عام ہے، جبکہ اُردَن کو ’’اُردُن‘‘ اور اُس کے دارالحکومت عَمّان [Amman]کو اومان یا عَمان (بلاتشدید) کہہ دیا جاتا ہے۔ قطر کو ’’کتر‘‘ کہنا تو کوئی معیوب بات ہی نہیں سمجھی جاتی، جبکہ لفظ قُطر/QUTR/یعنی Diameterکو قَطر بھی کہا جانے لگا ہے۔ فِلَسطین کو سب جگہ فَلَسطین کہا جاتا ہے، ہمارے یہاں ….کوئی فِلَسطینی ٹوکے گا تو دیکھ لیں گے۔ ٹیلی وژن ہی نہیں، فیس بک پر بھی یہ کوشش جاری ہے کہ نئے الفاظ یا اصطلاحات کا ترجمہ یا اردو متبادل کسی بھی طرح فراہم ہوجائے۔ کچھ عرصہ قبل خاکسار کے کالم ’زباں فہمی‘ میں اسماگ [Smog]کے اردو متبادل یا ترجمے کی بات ہوئی۔ لغات میں اس کا ترجمہ موجود ہے: دُخانی کُہرا۔ مگر کیا کیجے، لوگ باگ اپنے اپنے تُکے لگارہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوب داد دے رہے ہیں۔ سب سے دل چسپ ترجمہ ہے، آلودہ کُہر۔ یہ کچھ چینلز پر بھی بولا جارہا ہے۔ یہ نتیجہ ہے اُنھی بزرگ ادیب گر کی فکر سخن کا جِن کا ذکر اوپر کیا تھا۔ بندہ ایک بار پھر یہ سوال بصد ادب پوچھنے پر مجبور ہے کہ حضورفیض گنجور! یہ صاف شفاف کُہر یا دھند کیا ہوتی ہے؟

یہ Headlinesکا ترجمہ کیا ہوتا ہے؟ …..کسی نے کہا ، ’’شہ سُرخیاں‘‘ …..نہیں جناب! ’شہ سُرخی‘ تو ایک ہی ہوتی ہے جسے صحافت میں Leadبھی کہا جاتا ہے۔ جب اُس کے علاوہ دیگر بڑی خبروں کی بات ہوگی تو کہیں گے، ’’سُرخیاں‘‘، یہ ہے Headlines کا اردو متبادل۔ اور سنیے…..بلکہ جانیے، ابھی کچھ عرصہ پہلے سرکاری ٹی وی ہی پر ایک پروگرام ہوا کرتا تھا، ایک نئی صبح نو۔….ایک ٹی وی چینل پر ایک ڈراما چل رہا ہے : او رنگ ریزا!….مگر اسے لاعلمی کے سبب مسلسل لکھاجارہا ہے: اورنگریزہ….اگر اس کے فاضل مصنف کو پتا ہوتا تو اتنے دن غلط ہرگز نہ چلتا۔ اسی کامیاب چینل پر ایک ڈرامے کی تشہیر کے سلسلے میں لکھا جارہا ہے: دیس وا دیس۔ بے چاروں کو کیا پتا کہ دیس بِدیس کس چڑیا کا نام ہے۔ انگریزی کے محاوروں اور تراکیب کا بھونڈا ترجمہ تو ایک مدت سے ہمارے ذرائع ابلاغ بصد شوق کرتے اور پھیلاتے آرہے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور ہے Going toکا ترجمہ۔ ہرکام میں کہا جاتا ہے۔ اب یہ ہونے جارہا ہے، ہم آپ کو دکھانے

جارہے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح جب کوئی پروگرام دنیا کے کسی بھی ملک سے براہ راست دکھانا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے،’’ہم آپ کو براہ راست انگلینڈ لیے چلتے ہیں‘‘ وغیرہ۔ اب کون غور کرتا ہے کہ اس جملے کا مطلب کیا ہوا۔ ہمارے ایک نامور مزاحیہ اداکارو میزبان اپنے آخری دور میں کہا کرتے تھے: ’’اب ہم آپ کو دِکھواتے ہیں۔‘‘ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارے ہر شعبہ زندگی اور معاشرے کے ہر حصے میں، بونوں کا راج ہے۔ ہر شخص اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بغیر جانے اور سیکھے، دوسروں پر رُعب جماتا اور اپنے تئیں سکھاتا نظرآتا ہے۔ خاکسار نے بہت پہلے یہ بات تحریروتقریر میں کئی بار کہی، آج بھی کہتا ہے کہ تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔