بھارتی جھنڈا تیار کرنے والا مسلمان جوڑا

سید عاصم محمود  اتوار 19 نومبر 2017
غیر جانب دار مورخین کی رو سے ہندو قوم پرست یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ فوٹو: فائل

غیر جانب دار مورخین کی رو سے ہندو قوم پرست یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ فوٹو: فائل

یہ 23 جون 1947ء کی بات ہے، بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے مملکت کا قومی جھنڈا تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے ارکان میں راجندر پرشاد، مولانا ابوالکلام آزاد، سروجنی نائیڈو، راج گوپال اچاریہ، کے ایم منشی اور ڈاکٹر امبیدکر جیسے نامی گرامی لیڈر شامل تھے۔ اس کمیٹی کا سیکرٹری ایک  سرکاری افسر، بدرالدین فیاض طیب جی کو مقرر کیا گیا۔اب قومی جھنڈا تشکیل دینے کے سلسلے میں کمیٹی اجلاس منعقد کرنے لگی۔ ان اجلاسوں میں سبھی ارکان نے فیصلہ کیا کہ بھارت کا قومی جھنڈا ایسا ہونا چاہیے جسے مملکت میں قیام پذیر ہر نسل و مذہب کے لوگ تسلیم کرلیں۔ اسی فیصلے کے بعد یہ بحث چھڑگئی کہ جھنڈے پر چرخے کا نشان دیا جائے یا نہیں!

گاندھی جی چرخے کو خودانحصاری کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے پیروکاروں پر زور دیا کہ وہ چرخہ استعمال کریں حتیٰ کہ اس کو آل انڈیا کانگریس پارٹی کے جھنڈے کی زینت بنادیا گیا۔ لیکن اب قومی جھنڈے پر چرخہ دیا جاتا تو حزب اختلاف لازماً یہ اعتراض کرتی کہ یہ طریقہ اپناکر کانگریس بھارت میں اپنی اجارہ داری قائم کررہی ہے۔کانگریس کے روحانی رہنما، گاندھی جی بضد تھے کہ چرخے ہی کو بھارتی قومی جھنڈے پر لایا جائے۔ غرض ارکان کمیٹی اور گاندھی جی کے مابین ’’پھڈا‘‘ پڑگیا۔ اس نازک اور حساس مسئلے کو سیکرٹری کمیٹی، بدرالدین فیاض نے تدبر و حکمت عملی سے حل کیا۔ انہوں نے گاندھی جی کو تجویز پیش کی کہ مجوزہ قومی جھنڈے پر ’’اشوک چکر‘‘ دے دیا جائے۔

اشوک چکر مشہور ہندوستانی حکمران، اشوک اعظم (دور حکمرانی 268 تا 232 قبل مسیح) کا سرکاری نشان تھا۔ یہ اس کے کئی احکامات اور دور اشوک میں تعمیر ہونے والے مجسموں پر ثبت ملتا ہے۔ اشوک چکر بذات خود ’’دھرم چکر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ گوتم بدھ نے آئیڈیل بدھ کی 24 خصوصیات بیان کی تھیں۔ دھرم چکر (یا پہیے) کے 24 تکلے انہی خصوصیات کی علامات ہیں۔دھرم چکر ہندومت میں بھی ایک مقدس علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندؤں کی مذہبی کتب، پران میں درج ہے کہ صرف 24 رشی (یا ہندو بزرگ) ہی مقدس منتر ’’گیاتری منتر‘‘ کی اصل طاقت سے واقف تھے۔

چناں چہ دھرم چکر کے 24 تکلے انہی 24 رشیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔بدرالدین فیاض نے گاندھی جی سے کئی ملاقاتیں کیں اور آخر کار انہیں اس امر پر قائل کرلیا کہ بھارتی قومی جھنڈے پر چرخے کی جگہ اشوک چکر دے دیا جائے۔ دیگر ا رکان کمیٹی نے بھی اپنے سیکرٹری کی تجویز قبول کرلی۔اب مسئلہ یہ سامنے آیا کہ اشوک چکر پر مبنی قومی جھنڈا کس سے تیار کرایا جائے؟ ارکان کمیٹی کی خواہش تھی کہ بھارت کی آزادی کے پہلے دن یعنی  15 اگست 1947ء کو تیار کردہ قومی جھنڈا سامنے لایا جائے۔ لہٰذا تب تک ضروری تھا کہ جھنڈے کا ڈیزائن اور صورت شکل خفیہ رکھی جائے۔ اس موقع پر بھی سیکرٹری کمیٹی اپنے عالم فاضل ارکان کی مدد کرنے آپہنچے۔

بدرالدین فیاض نے ارکان کمیٹی کو بتایا کہ ان کی بیگم، ثریا سلائی کڑھائی میں ماہر ہیں۔ چناں چہ انہوں نے پیش کش کردی کہ وہ خفیہ طریقے سے قومی جھنڈا تیار کردیں گی۔ ارکان کمیٹی نے بخوشی ان کی پیش کش قبول کرلی۔بیگم ثریا بدرالدین پھر اپنے گھر میں قومی جھنڈا تیار کرنے لگیں۔ سینے پرونے اور سلائی کڑھائی میں بس ایک بااعتماد ملازمہ ان کی مدد کرتی رہی۔ اس طرح ایک مسلمان خاتون کو بھارت کا پہلا قومی جھنڈا تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بیگم ثریا نے اگرچہ دو جھنڈے تیار کیے تھے۔

جب 15 اگست 1947ء کو وزیراعظم بھارت، پنڈت نہرو اپنی سرکاری گاڑی میں پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہوئے، تو اس پر بیگم ثریا کا تیار کردہ بھارتی جھنڈا ہی لہرا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کا بنایا دوسرا جھنڈا اسی دن آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں لہرایا گیا۔بدرالدین فیاض طیب اور بیگم ثریا، دونوں منکسرالمزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے کبھی بھارتی قومی جھنڈے کی تشکیل میں اپنے کردار کو نمایاں نہیں کیا۔ مگر مغربی مورخین سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکی کہ ہندو اکثریتی مملکت کا قومی جھنڈا تیار کرنے میں ایک مسلمان جوڑے نے اہم حصہ لیا۔

ان مورخین میں مشہور برطانوی مورخ، ٹریور رائل (Trevor Royle)بھی شامل ہے۔ٹریور رائل نے ’’برٹش راج کے آخری دن‘‘ (The Last Days of the Raj) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو پہلی بار 1989ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اب نایاب ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تیاری میں ٹریور رائل نے بھارت کے سبھی ممتاز سیاسی راہنماؤں، دانشوروں اور ادباء سے انٹرویو کیے۔ اسی کتاب میں ٹریور نے ذکر کیا ہے کہ بھارت کے قومی جھنڈے کو آخری اور معین شکل ایک مسلمان جوڑے، بدرالدین فیاض اور بیگم ثریا نے دی تھی۔ مسٹر ٹریور کی رو سے یہ بھارتی تاریخ کی عجیب بوالعجبی ہے۔

ٹریور رائل شاید یہ حقیقت فراموش کر بیٹھا کہ جب صحرائے عرب میں اسلام کی کرنیں پھیلی، تو جلد ہی ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں مسلمان تاجر اس عظیم مذہب کا پیغام لانے لگے۔ ان میں سے کئی تاجر سندھ، کیرالہ، گجرات اور بنگال کی ساحلی بستیوں میں قیام پذیر بھی ہوئے۔ حقیقتاً مسلمانوں نے ہندوستان کی سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور تہذیبی تاریخ  کی تشکیل میں اہم حصہ لیا۔ لیکن اب قوم پرست وزیراعظم، نریندر مودی کی زیر قیادت انتہا پسند ہندوؤں کی حکومت بھارت سے مسلمانوں کی تمام نشانیاں مٹا دینا چاہتی ہے۔ اسی لیے کبھی تاج محل نشانہ بنتا ہے، تو کبھی ٹیپو سلطان اور مغل بادشاہ!

لیکن انتہا پسند ہندو اوراق تاریخ پر درج سچائیاں کبھی نہیں مٹاسکتے۔ مثال کے طور پر یہی سچائی کہ بھارتی قومی جھنڈے کی تشکیل میں ایک مسلمان جوڑے کا اہم حصہ ہے۔ اسی طرح بھارتیوں کا قومی نعرہ ’’جے ہند‘‘ بھی ایک حیدر آبادی مسلمان، عابد حسن کی تخلیق ہے۔ علامہ اقبال کے مشہور زمانہ ترانہ ہندی (سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا) پر بھارتی فوج مارچ پاسٹ کرتی ہے۔لہٰذا ہندو انتہا پسند کبھی یہ حقائق نہیں جھٹلا سکتے  کہ ہندوستان اور بھارت، دونوں دیسوں کی تشکیلِ تاریخ میں مسلمانوں  نے نمایاں کردار ادا کیا۔

طیب جی کا گھرانا
بدرالدین فیاض معمولی شخصیت نہیں تھے، اسی لیے گاندھی جی کو نہ صرف ان کے مشورے سننے پڑے بلکہ وہ بھارتی جھنڈے پر چرخا دینے کے اپنے فیصلے سے دست بردار بھی ہوگئے۔ بدرالدین فیاض بھارت کے پہلے بیرسٹر، بمبئی ہائی کورٹ کے پہلے ہندوستانی چیف جسٹس اور کانگریس کے پہلے مسلمان سربراہ، بدرالدین طیب کے پوتے تھے۔ انیسویں اور بیسویں صدیوں کے ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور فلاح و بہبود میں سرسید احمد خان، علامہ حسن علی آفندی اور جسٹس امیر علی کے ساتھ طیب جی خاندان نے بھی نمایاں حصہ لیا۔اس خاندان کے اجداد کھمبائت، گجرات سے تعلق رکھتے اور سلیمانی بوہرہ تھے۔ انیسویں صدی میں خاندان کے رکن، بھائی میاں حاجی بھائی (1753ء۔ 1850ء) بمبئی چلے آئے۔

ان کے فرزند، طیب علی (1803ء۔ 1863ء) کے سات بیٹے تھے۔ انہوں نے سبھی کو جدید یورپی تعلیم دلوائی۔بھائیوں میں بدرالدین طیب جی (1844ء۔ 1906ء) نے سب سے زیادہ شہرت پائی۔بدرالدین طیب جی نے انگلینڈ میں وکالت کے امتحان پاس کیے اور پھر ہندوستان چلے آئے۔ اپریل 1867ء میں انہیں پہلے ہندوستانی بیرسٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1895ء میں بمبئی ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1906ء میں چیف جسٹس مقرر ہوئے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ جب بانی پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح بمبئی پہنچے، تو وہاں سیٹ ہونے میں بدرالدین طیب جی نے ان کی بہت مدد کی۔ قائداعظم جنوری 1897ء میں مستقل قیام کی نیت لیے بمبئی پہنچے۔اس وقت والد کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا اور وہ تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چناں چہ اب اہل خانہ کے اخراجات کا بار نوجوان جناح کے کاندھوں پر آن پڑا۔

قائداعظم مگر بمبئی میں کسی کو نہیں جانتے تھے۔ ایسے نازک وقت میں انہیں جسٹس ہائی کورٹ، بدرالدین طیب جی کا سہارا مل گیا۔ انہوں نے شہر کی لاء کمیونٹی میں نوجوان جناح کا تعارف کرایا۔ یوں قائداعظم کو روابط بڑھانے میں مدد ملی۔تعلیم یافتہ اور باشعور جسٹس بدرالدین فرقے بازی اور مفاداتی سیاست سے بالاتر شخصیت تھے۔ وہ تمام مسلمانان ہند کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتے تھے تاکہ قوم اپنے حقوق کی جنگ لڑسکے۔ اسی لیے انہوں نے بمبئی میں 1874ء میں ایک تنظیم، انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمانوں کو تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر ترقی دی جاسکے۔قائداعظم کے ساتھ میل ملاپ بڑھا، تو جسٹس بدر الدین کو اندازہ ہوگیا کہ یہ نوجوان سماجی سرگرمی اور سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔

اس وقت انجمن اسلامیہ شہر کے مختلف مقامات پر ہر ہفتے جلسے منعقد کرتی تھی۔ ان میں مسلم طبقے سے تعلق رکھنے والے مختلف اہل فکر و رائے مسلمانوں کی ترقی و بہتری کے لیے تجاویز دیتے تھے۔ جسٹس صاحب نے نوجوان جناح کو بھی ایک جلسے میں تقریر کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔انجمن اسلامیہ کا یہ جلسہ بمبئی کالج ہال میں 8 جولائی 1897ء کو منعقد ہوا۔ یہ پہلا عوامی جلسہ (پبلک میٹنگ) تھا جس میں بانی پاکستان نہ صرف شریک ہوئے بلکہ انہوں نے تقریر بھی کی۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ جسٹس بدرالدین نے قائداعظم کو میدان سیاست تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قائد کے پہلے عوامی جلسے کی صدارت جسٹس بدالدین ہی کررہے تھے۔قائداعظم پھر انجمن اسلامیہ کے جلسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے لگے۔

یوں ان کے سیاسی و معاشرتی شعور میں اضافہ ہوا اور وہ ذاتی مفاد سے بلند ہوکر مسلم قوم کے مفادات و حقوق کو تحفظ دینے پر غور و فکر کرنے لگے۔اگست 1906ء میں جسٹس بدرالدین انتقال کرگئے۔ ان کی یاد میں جتنے بھی تعزیتی جلسے اور اجلاس منعقد ہوئے، ان سبھی میں قائداعظم شریک تھے۔ یہی نہیں، انہوں نے اکثر اجلاسوں میں تقریر فرمائی اور شاندار الفاظ میں مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔جسٹس بدرالدین کے صاحب زادے، فیض حسن بدرالدین (1877ء۔ 1950ء) نے بھی وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ انگلستان میں تعلیم پائی۔ بمبئی ہائی کورٹ کے جج رہے۔ ان کے فرزند، بدرالدین فیاض 1907ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم پاکر وہ ہندوستان کی سول سروس میں چلے گئے۔ بھارت آزاد ہوا، تو انڈین سول سروس کا حصہ بنے۔

بھارت کی آئین ساز اسمبلی کے ڈپٹی سیکرٹری اور پھر سیکرٹری رہے۔ 1948ء میں سفارت کار بن گئے۔ بیلجیم میں بھارت کے پہلے سفیر مقرر ہوئے اور وہاں بھارتی سفارت خانے کی بنیاد رکھی۔ بعدازاں انڈونیشیا، ایران، جرمنی اور جاپان میں سفیر رہے۔ 1995ء میں وفات پائی۔ آپ کی صاحب زادی، لیلا طیب ممبئی کی مشہور سماجی رہنما ہیں۔ انہیں سماجی خدمات انجام دینے پر بھارت کا چوتھا بڑا قومی اعزاز، پدم شری مل چکا۔

بدالدین فیاض کی بیگم، ثریا کا تعلق بھی طیب جی خاندان سے تھا۔ آپ 1919ء میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ 1978ء میں وفات پائی۔ آپ ایک عمدہ مصورہ تھیں اور بنت کار بھی۔ اسی لیے آپ کو بھارت کا پہلا قومی جھنڈا تیار کرنے کی ذمے داری تفویض کی گئی جسے آپ نے بخوبی نبھایا۔ بھارت میں انتہا پسند ہندو جتنی مرضی کوشش کرلیں، وہ تاریخ میں رقم یہ سچائی نہیں مٹاسکتے۔ یہ واضح رہے ،بھارت میں مشہور ہے کہ آندھرا پردیش کے ایک کانگریسی لیڈر،پنگالی وینکایہ (1876ء۔ 1963ء) نے قومی پرچم ڈیزائن کیا تھا۔مگر تاریخی حقائق سے یہ امر سامنے نہیں آتا۔1935ء میں آل انڈیا کانگریس نے ممتاز مورخ،ڈاکٹر بھوگاراجو پتھبی ستیارامایہ (1880ء۔1959ء) سے جماعت کی تاریخ لکھوائی تھی جو 890صفحات پہ مشتمل صخیم کتاب ہے۔ستیارامایہ کا تعلق بھی آندھرا پردیش سے تھا مگر انھوں نے پنگالی وینکایہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اسی طرح 1957ء میں جنگ آزادی 1857ء کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر بھارتی حکومت نے الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ممتاز مورخ،ڈاکٹر تارا چند کو یہ ذمے داری سونپی کہ تحریک آزادی ہندوستان کے مجاہدوں کی تاریخ مرتب کریں۔تارا چند کی مرتب کردہ چار جلدوں پہ مشتمل یہ تاریخ مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں بھی پنگالی وینکایہ کا ذکر موجود نہیں۔تب تک تو یہ بات عام ہو جانی چاہیے تھی کہ انھوں نے ہی قومی پرچم ڈیزائن کیا۔غیر جانب دار مورخین کی رو سے ہندو قوم پرست یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ  بھارت کے قومی پرچم  کو ایک مسلم جوڑے نے آخری اور قطعی شکل دی۔چناں چہ منصوبہ بندی کے تحت قوم پرست مورخین کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلایا  گیا کہ قومی پرچم پنگالی وینکایہ نے ڈیزائن کیا تھا۔اس جھوٹ کا ایسا پروپیگنڈا کیا گیا کہ بھارت میں ناخواندہ اور تعلیم یافتہ ہندو ،سبھی اس کو سچ سمجھنے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔