برطانیہ میں مقیم پاکستانی خاندانوں میں جبری شادی کا رجحان کم ہونے لگا

ثمینہ رشید  اتوار 19 نومبر 2017
بعض لوگوں کا  بچوں کوپاکستان لے جاکر شادی کرانے کے پیچھے ایک اور تلخ سبب بھی ہوتا تھا۔ فوٹو: فائل

بعض لوگوں کا بچوں کوپاکستان لے جاکر شادی کرانے کے پیچھے ایک اور تلخ سبب بھی ہوتا تھا۔ فوٹو: فائل

برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی وہاں کی دوسری بڑی اقلیت میں شمار کی جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں تقریباً پندرہ لاکھ پاکستانی آباد ہیں جس میں سے 70 فیصد کا تعلق میرپور آزاد کشمیر اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے ہے۔ میر پور سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے 60ء کی دہائی میں برطانیہ میں سکونت اختیار کی، اب وہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ برطانوی پاکستانی برطانیہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مصروفِ کار ہیں۔ چار پانچ دہائیوں سے آباد لوگوںکی اکثریت کاروبار کامیابی سے چلارہی ہے اور برطانیہ کی معاشی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہے۔

پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت بزنس، سیاست اور تعلیم وغیرہ میں کافی فعال ہے جس کا ایک ثبوت ایک برطانوی نژاد مسلم پاکستانی صادق خان کا لندن کا مئیر منتخب ہونا بھی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت نے خود کو برطانیہ کی دیگر کمیونٹیز سے ایک خاص فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔ اسی مائنڈ سیٹ کے زیر اثر ان  پاکستانیوں نے برطانیہ میں دیگر مسلم کمیونیٹیز سے ملنے جلنے اور شادی بیاہ کے ذریعے تعلقات مضبوط کرنے کے بجائے بچوں کی شادیاں زیادہ تر پاکستان ہی میں کرنے کو ترجیح دی۔بالخصوص کشمیر اور میرپور سے تعلق رکھنے والے برٹش پاکستانیوں کی عموماً یہی کوشش رہی ہے کہ کم عمری ہی میں بچوں کی شادیاں پاکستان میں موجود دور پار کے کسی بھی رشتہ دار کے ہاں انجام پا جائیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے چھ برٹش پاکستانیوں کی شادی پاکستان میں رشتے داروں میں ہوئی۔

کم عمری میں ہونے والی اس طرح کی شادیوں کو برطانوی قوانین کے مطابق ’جبری شادی‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ برطانوی ہوم آفس کے 2015-16ء کے اعدادو شمار کے مطابق برطانیہ میں 26 فیصد لوگ جبری شادیوں کا شکار ہوئے۔ 34 فیصد کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان تھی،  جن میں 80 فیصد خواتین اور 20 فیصد مرد تھے۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ان میں 44 فیصد کا تعلق پاکستان سے تھا۔، بنگلہ دیشی سات فیصد، بھارتی چھ فیصد،صومالی تین فیصد اور افغانی دو فیصد۔

اس طرزعمل کے یوں تو متعدد نقصانات ہیں۔ مثلاً کم عمری کی شادی کا مطلب بچوں کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ قائم کرنا ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق  صرف 25 فیصد پاکستانی ڈگری لیول تک کی تعلیم رکھتے تھے۔ اگرچہ یہ شرح پچھلی نسلوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے کیونکہ بڑی عمر کے کم از کم 28 فیصد برٹش پاکستانی ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کی تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف کم عمری میں پاکستان لے جاکر کی گئی شادیوں کی ناکامی کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دو الگ معاشروں میں پرورش پانے کے سبب میاں اور بیوی میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ کئی واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ بارہ، تیرہ سال تک کی بچیوں کو پاکستان لے جاکر شادی کردی گئی۔

نتیجتاً یہ شادیاں بھیانک انجام سے دو چار ہوئیں۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ جن کا تعلق پاکستان سے ہے، بھی ایسی روایات کا شکار ہوئیں۔ ناز شاہ کے مطابق ان کی شادی 16برس کی عمر میں ہوئی اور صرف نو سال ہی قائم رہ سکی۔ اب انہوں نے تین بچوں کی ذمہ داری تنہا اٹھا رکھی ہے۔ ناز شاہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ کی شادی بھی بہت کم عمری میں ہوئی تھی جس کے بعد وہ برطانیہ آگئیں، شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ناز شاہ کے والد ان کی والدہ کی مار پیٹ کرنے لگے۔ ناز شاہ صرف چھ برسکی تھیں جب والد انہیں اور ان سے چھوٹے بہن بھائی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

اس سے ملتی جلتی کئی کہانیاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے ہاں جنم لے رہی ہیں۔کم عمری کی جبری شادیاں جب برطانوی حکومت کے نوٹس میں آئیں تو2007ء میں علیحدہ سے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی اور ایک نیا قانون بنایا گیا جسے ’فورس میریج (سول پروٹیکشن) ایکٹ 2007‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے ذریعے فورس میریج یا زبردستی کی شادی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ عدالت کو اختیار دیا گیا کہ ذرا سا بھی خدشہ محسوس ہوکہ کسی لڑکے یا لڑکی کو بہانے سے پاکستان لے جا کر شادی کرائی جاسکتی ہے تو وہ پاسپورٹ ضبط کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے۔ اس کے باوجودایسے واقعات کو روکنا حکومت کے لئے مشکل تھا کہ ایسے معاملات میںلڑکیاں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی یا زبردستی کی رپورٹ ہی نہیں کرتی تھیں۔

سن 2010 میں کنزرویٹوپارٹی نے حکومت قائم کرتے ہی دیگرکئی  پالیسیز کے ساتھ سخت امیگریشن کنٹرول پالیسی بھی متعارف کروائی۔ حکومت امیگریشن کے معاملے میں اتنی حساس تھی کہ صرف امیگریشن پالیسی میں چھوٹی بڑی کی گئی تبدیلیوں کی تعداد 45ہزار سے زائد تھی۔ راتوں رات ہر اُس پالیسی کو تبدیل کردیا گیا جس کی بنیاد پر یورپی زون سے باہر کے لوگ برطانیہ آسکتے تھے۔ جہاں کئی ویزہ کیٹاگریز میں سختی کی گئی وہیں جولائی 2012ء میں نان یورپین زون میں کسی برطانوی شہری کی شادی کی صورت میں ویزہ کی شرائط کو بھی غیر معمولی حد تک مشکل کردیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت لازم قرار دیا گیا کہ لائف پارٹنر کو پاکستان سے بلانے کی صورت میں برطانوی شہری (مرد و عورت) کی کم ازکم آمدنی 18600 سالانہ سے کم نہ ہو۔ بچوں کی صورت میں پہلے بچے کے لئے 3800 اور اسکے بعد ہر بچے کے لئے 2400 پاؤنڈ سالانہ اضافی آمدنی کی شرط بھی رکھی گئی۔

نئی ویزہ پالیسی سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے،بہت سے لوگ جن کی نہ صرف شادیاں ہوچکی تھیں بلکہ بچے بھی تھے اور وہ کسی ذاتی یا خاندانی وجہ کی بنیاد پر بیوی بچوں کو نہیں بلا سکتے تھے وہ سب اس پالیسی کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہوگئے۔ چلڈرن کمشنر فار انگلینڈ  کے مطابق تقریباً 15ہزار برطانوی بچے پوری دنیا میں سنگل پیرنٹ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی برطانوی ماں یا باپ کم آمدنی کی وجہ سے ویزہ کی شرائط پوری کرنے سے قاصر تھے۔ اس طرح کی فیملی کو’اسکائپ فیمیلیز‘  کا نام دیا گیا۔

اگرچہ برطانوی حکومت اس پالیسی کی بابت متعدد دلائل پیش کرتی رہی ہے کہ اس شرط کی وجہ سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ نہیں پڑتا، دوسرے ملک سے آنے والا یہاں آکر جلدی سوسائٹی کا حصہ بن سکتا ہے لیکن مائیگرنٹس رائٹس اور ہیومن رائٹس گروپ ان دلائل سے اتفاق نہیں کرتے اور اس پالیسی کو نا انصافی پر مبنی قرار دیتے رہے کیونکہ آمدنی کی یہ شرط سخت تھی۔ برطانیہ میں رہنے والے کم از کم 40سے 45 فیصد لوگوں کی سالانہ آمدنی اس سے کم ہوتی ہے۔ مائیگرینٹس رائٹس نیٹ ورک کی جون 2014 کی ریسرچ کے مطابق کم از کم 74انتخابی حلقوں میں آباد آدھے سے زیادہ لوگوں کی آمدنی 18600 پاؤنڈز سے کم تھی۔

اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق 30 فیصد برطانوی ملازمین جو لندن میں کام کرتے ہیں، آمدنی کم ہونے کی وجہ سے اس شرط کو پوری کرنے سے قاصر تھے۔ ان رپورٹس کے باوجود کنزرویٹو حکومت نے کسی قسم کا لچک کا مظاہرہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس دوران ویزے کے مسترد ہونے کے باعث کچھ مقدمات لوئر کورٹ سے ہائی کورٹ میں گئے، جب فیصلہ لوگوں کے حق میں ہوا تو حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سپریم کورٹ میں بھی اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ یہ پالیسی بادی النظر میں ناانصافی پر مبنی نظر آتی ہے اور کچھ خاص ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے خصوصی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فروری 2017 میں آمدنی کی شرط کو برقرار رکھتے ہوئے بھی بہت سی سہولتوں کے ساتھ کچھ قوانین کی پابندی کو حکومت کیلئے لازم قرار دیا۔ لوگوں کو سب سے بڑا ریلیف انسانی حقوق کی بنیاد پر ملا۔ جس کے مطابق اگر آمدنی کی شرائط پوری نہ بھی ہوں تب بھی  بچوں کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے لازمی ویزہ دیا جائے۔ دوسری شق جس سے لوگوں کو آسانی فراہم کی گئی، تیسری پارٹی کی اسپانسر شپ کی تھی کہ میاں یا بیوی کی آمدن کم ہونے کی صورت میں کوئی تیسرا فیملی ممبر یا دوست وغیرہ ویزہ اپلائی کرتے وقت اسپانسر کرے تو اس صورت میں بھی اسے لازمی تسلیم کیا جائے۔ اگر بچت کی صورت میں بنک میں اتنی رقم ہے کہ جو شرط کو پورا کرتی ہو تو اسے تسلیم کیا جائے۔

گزشتہ قریباً دس سال کے دوران میں جبری شادی کے خلاف بنائے گئے قوانین  بالخصوص پچھلے پانچ سال سے (جب سے آمدنی کی شرط عائد کی گئی) اقلیتوں کی پریشانی اور ویزے کے مسائل نے پاکستانی کمیونٹی کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان جاکر بچوں کی شادیاں کرنے کے رجحان میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔اب خصوصاً لڑکیوں کے والدین کی یہی کوشش ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی فیملی ہی میں ان کی بیٹیوں کی شادیاں انجام پا جائیں۔اس طرح پاکستانی کمیونٹی میں نئے رشتے اور تعلق استوار ہونے کی بنیاد پڑگئی ہے۔

برطانیہ جیسے معاشرے میں جہاں نہ صرف بچوں اور عورتوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے باقاعدہ آگہی دی جاتی ہے بلکہ ان کے حقوق کی پامالی کی صورت میں سخت قوانین بھی موجود ہیں، وہاں روایتی سوچ رکھنے والے پاکستانی مرد کو ایڈجسٹ کرنے میں ہمیشہ مشکل پیش آتی رہی ہے۔ یہی وجہ آگے چل کر لڑائی جھگڑوں اور طلاق پہ منتج ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے جو مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بعض لوگوں کا  بچوں کوپاکستان لے جاکر شادی کرانے کے پیچھے ایک اور تلخ سبب بھی ہوتا تھا۔ برطانوی معاشرے میں پرورش پانے والے وہ لڑکے جو مغربی معاشرے کی روایتی برائیوں (شراب اور جوا وغیرہ) کا شکار ہوجاتے ہیں،کے والدین پاکستان سے اپنے غریب رشتے داروں کی بیٹیوں سے ان کی شادی کرا کے اپنے بیٹوں کو ذمہ دار بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید اس طرح ان میں سدھار پیدا ہو تاہم  عموماً  ان کیسز میں صورتحال بڑی خراب ہوتے دیکھی گئی ہے۔

ایسی صورت میں پاکستانی لڑکیاں نہ صرف شوہر کی لاپرواہی اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں بلکہ ان کے سسرال والے بھی ان سے ملازماؤں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ایسے کئی کیسز سامنے آئے ہیں جن میں خواتین برسوں تک اپنے شوہر اور سسرال کے ظلم کا نشانہ بنتی ہیں، انھیں اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کافی مشکل کا سامنا کرناپڑتاہے۔ بعینہ پاکستان سے آنے والے مرد حضرات کو بھی برطانوی پاکستانی بیوی اور سسرال کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم ان کی شرح کم ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسی ہرشادی میں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے ۔اچھے بُرے لوگ اور مسائل ہر کمیونٹی میں پائے جاتے ہیں۔

اس سارے تناظر میں برطانوی پاکستانی بچوں کی یہاں مقیم پاکستانی خاندانوں میں شادی کا رجحان مثبت قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک ہی طرزِ معاشرت میں پرورش پانے والے دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف آسانی سے ایڈجسٹ کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے حقوق اور قوانین سے آگاہ ہوتے ہیں، اس طرح ان کے رشتے میں بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں برطانوی پاکستانی کمیونٹی میں جبری شادیوں اور گھریلو تشدد جیسے مسائل کا خاتمہ کرنے میں بھی مدد ملے گی، آنے والی نسلوں میں تعلیمی اعتبار سے بہتری آئے گی جو معاشی طور پر بھی مضبوطی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جبری شادی اور گھریلو تشدد کے باعث  ازدواجی زندگی کے مسائل بھی کم ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔