عجوبہ مخلوقات کے انسانی نام

ظفر شمیم  اتوار 19 نومبر 2017
ہزاروں مخلوقات عظیم شخصیات سے منسوب کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

ہزاروں مخلوقات عظیم شخصیات سے منسوب کی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

کرۂ ارض پر حیوانات کی اقسام کی تعداد 5 لاکھ اور نباتات کی 25 لاکھ سے متجاوز ہے۔

ہماری اردو زبان میں تتلی، چیونٹی اور دوسرے جانوروں کے لیے عموماً ایک ہی نام لیا جاتا ہے مگر حیاتیاتی علم کی ترقی کے اس دور میں تیزی سے دریافت ہونے والی پے در پے مخلوقات کی وجہ سے حیاتیاتی ناموں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس کے مطابق تتلی کی ایک لاکھ پچاس ہزار، مکڑی کی 35 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔

اب اردو میں تو ان سب انواع کو ایک ہی نام تتلی یا مکڑی ہی کہا جائے گا، مگر انگریزی بالخصوص سائنسی زبان میں ایسا نہیں ہے۔ تمام کی تمام انواع کے لیے علیحدہ علیحدہ نام تجویز کیے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے بہت بڑے پیمانے پر نئے ناموں کی ضرورت پڑی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حیاتیاتی علم کے ماہرین نے سائنس دانوں، حکم رانوں اور مشہور شخصیات کے ناموں پر بھی حشرات الارض، پرندوں، نباتات اور آبی مخلوقات کے نام رکھنے شروع کردیے۔ اس سے حیاتیاتی علم میں جانوروں کی پہچان کے ساتھ ساتھ انسانوں کی یادگاری پہچان بھی منسلک ہوگئی۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار، اس سے یادگارِ زمانہ شخصیات اور مخلوق دونوں کے بارے میں بہت سی معلومات اور آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

انگلینڈ میں نوآبادیاتی نظام کی ابتدا ملکہ الیگزینڈرا کے دور سے ہوئی۔ اسی لیے برطانیہ کے ایک جزیرے پر پائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی 14 انچ کی تتلی کا نام کوئین الیگزینڈرا برڈونگ ہے۔ پاک بھارت پر حکومت کرنے والی ملکہ وکٹوریہ کے نام پر تو بہت سے حشرات، تتلیوں حتیٰ کہ پرندوں کے اسم گرامی بھی ہیں۔ فرانس کے مشہور تاریخی پہ سپاہ سالار کے نام پر ایک مرغابی بوناپارٹ بڑی مشہور ہے۔ یہ اپنے لاکھوں کے جھنڈ کے لیے راہ نمائی مطلب سپاہ سالاری کے فرائض بھی انجام دیتی ہے۔

مختلف جان داروں کے لیے انسان کے ناموں کے استعمال کا رواج اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے، جب عظیم محقق بو علی سینا نے علم الحیوانات کے نام سے جانوروں کی مختلف اقسام پر معلومات سے بھرپور کتاب لکھی۔ ٹیکسانومی کے حوالے سے یہ انسانی علم کی پہلی کتاب ہے۔ اپنی اس تاریخی کتاب میں بو علی سینا نے سینگ والے ایک عجیب پرندے کا ذکر کیا جو اس نے ملائیشیا کے جنگلات میں دیکھا تھا۔ بعد میں اس کی متعدد اقسام پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں بھی منظرِعام پر آئیں۔ ملائیشیا کے اس بڑے عجوبہ پنچھی کا نام ’’بو علی سینا ہارن بل‘‘ ہے، جو غالباً 700سال پرانا نام ہے۔ یہ کسی سائنس دان کے نام پر پہلی مخلوق کا نام تھا۔

اس کے بعد بابائے ارتقاء چارلس ڈارون نے چند ایسی مخلوقات کے بارے میں دنیا کو روشناس کرایا جس نے علم حیوانیات کی بہت سی گتھیاں سلجھا دیں۔ ان میں سے برازیل کا ایک مینڈک ڈارون ہے جو 100 فٹ تک اڑان بھرتی چھلانگیں مارتا ہے۔ یہ انتہائی خوب صورت نباتاتی مینڈک ہے جو اپنی 3 ہزار سے زائد نسلوں میں سب سے زیادہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔ بھونرے کی 4 لاکھ میں سے ایک تیز رفتار نسل ڈارون کو بھی اس عظیم سائنس داں کے نام کردیا گیا ہے۔

مشہور زمانہ جرمن حکم راں کے نام  پر چیونٹی کی 11 ہزار میں سے ایک بد معاش نسل ہٹلر ایڈولف ایسی بھی ہے جو اپنے زیرِانتظام علاقے میں کسی دوسرے کیڑے کو داخل بھی نہیں ہونے دیتی۔ یہ چیوٹیاں زیرِزمین نجی جیلیں بھی بناتی ہیں جن میں دودھ جیسے مائعات کا اخراج کرنے والے حشرات اور ان کے لارووں کو قید کرکے رکھا جاتا ہے۔ جنھیں یہ بالکل مویشیوں کی طرح پالتی ہیں اور ان سے حاصل مصنوعات کو خوراک سے لے کر اپنی معاشرتی زندگی کے مختلف معاملات میں استعمال میں لاتی ہیں۔

پھولوں کی 2 ہزار اور نباتات کی 4 ہزار اقسام ایسی ہیں جو ہمیشہ کے لیے شہزادوں، حکم رانوں اور اہم سماجی شخصیات کے نام کردی گئی ہیں۔

اس طریقۂ کار نے بہت بڑی تعداد میں مختلف النوع مخلوقات کے نام بڑے پیمانے پر رکھنے کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔ اس طریقۂ کار سے مشہور شخصیات کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیے ان کا نام امر کردیا جاتا ہے۔ جدید دور میں اب اس معاملے میں مزید تیزی آگئی ہے۔

اب یہ سلسلہ ہماری زمین کی وسعتوں، پہاڑوں، جنگلوں، سمندروں، صحراؤں اور میدانوں سے کہیں آگے نکل کر خلاؤں میں بھی دور دور تک جا پہنچا ہے۔ زمین سے پہلا قریب ترین ستارہ 24.6 ملین میل کے فاصلے پر ہے جس کا نام پروکسیما سنچاؤری ہے۔ یہ نام روس کے اس عظیم فلکیات دان کا ہے جس نے اسے دریافت کیا تھا۔ یورپ کے مشہور ادیب مزاح نگار اور فلکیات دان برنارڈ کے نام پر زمین سے قریب ترین تیسرے نمبر کا ستارہ ہے۔ اب تو ناسا نے اپنے خلائی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اس نظام کو باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دے دی ہے۔

خلا میں نت نئے فلکی اجسام ستاروں، سیاروں، سیارچوں، کہکشاؤں اور دم دار ستاروں کی دریافت کثرت سے ہو رہی ہے۔ اسی لیے NASA نے ان کے ناموں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر اپنے نام پر کسی بھی سارے کا نام رکھنے کی اجازت قانونی طور پر دے رکھی ہے۔ بس تھوڑی سی رقم خرچ کرنا ہوگی۔ امریکا کے تمام صدور کے نام پر مختلف چاند ستاروں، جنگی جہازوں، پہاڑوں، جھیلوں اور صحراؤں کے نام ہیں۔ نام دیے جانے کی اس دوڑ میں یورپ اور آسٹریلیا کے سائنس داں اور سیاست داں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔