جی چاہتا ہے سب کہہ دوں مگر…

نصرت جاوید  جمعـء 8 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھار بہت جی چاہتا ہے کہ پھٹ پڑوں اور سب کہہ دوں۔ مگر پھر وہی مجبوریوں سے زیادہ ذمے داریاں سامنے آ جاتی ہیں۔ ذاتی اور خاندانی معاملات سے بالا تر ہوکر آپ کو سوچنا یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ ایک اخبار کے لیے لکھتے ہیں۔ اخبار چلانے کے لیے نیک تمنائوں سے زیادہ سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی شایع شدہ کاپیوں کی فروخت کروڑوں میں بھی چلی جائے تو خرچے پورے نہیں ہوتے۔ اشتہارات کی ضرورت ہوتی ہے اور اشتہارات دینے والوں کو دیوانگی پر سرمایہ لگانے کی عادت نہیں ہوتی۔ ویسے بھی صرف کالم نگار کا رزق ہی اخبار سے وابستہ نہیں ہوتا۔

اس کا تو نام بھی چھپتا ہے اور ابھی تو میں جوان ہوں مارکہ تصویر بھی۔ ایک اخبار اپنے لیے کام کرنے والے چپڑاسی سے لے کر ہر طرح کے موسم اور برے سے برے حالات میں بھی آپ کے گھر پر وہاں کے مکینوں کے جاگنے سے پہلے اخبار پھینکنے والے سیکڑوں کارکنوں کی کاوشوں کی بدولت اپنی رونق روا رکھتا ہے۔ وہ سب آپ کے ’’انقلابی‘‘ خیالات کا خمیازہ کیوں بھگتیں۔ ویسے بھی اب انٹرنیٹ ایجاد ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر کھول کر اپنے ٹویٹر یا فیس بک اکائونٹ پر جایئے۔ جو واہی تباہی ذہن میں آئے ٹائپ کرتے رہیے۔ اخبار میں لکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ احتیاط تو ہر صورت برقرار رکھنا ہو گی۔

اسی لیے پانی کا دوسرا گلاس ختم کرنے کے بعد میں آغاز اس بات سے کر رہا ہوں کہ آج کل صاف ستھری، اصلی تے وڈی جمہوریت کے اپنے تئیں محافظ و سرپرست بنے کچھ لکھنے والے ’’پری پول رگنگ‘‘ کا بہت ذکر کر رہے ہیں اوراس بات پر مسلسل سیاپا بھی کہ فخرو بھائی چونکہ بوڑھے ہو گئے ہیں، اس لیے ان کے زیر نگیں الیکشن کمیشن کا ’’ٹوکا‘‘کچھ زیادہ تیز نہیں چل رہا۔ آئین کے 62\63 کی بنیاد پر ’’جعلی ڈگریوں‘‘ والے ابھی تک پابند سلاسل نہیں ہوئے اور وہ چھلنی اتنی باریک اور موثر نظر نہیں آ رہی جس سے گزرنے کے خوف سے ’’چور، ڈاکو اور لٹیرے‘‘ آیندہ کے انتخابات میں امیدوار بننے کی جرأت ہی نہ کر سکیں۔

فخرو بھائی کے الیکشن کمیشن کو رگڑا دیتی تحریریں پڑھ کر مجھے جنرل مشرف جیسے خوش نصیبوں پر بہت رشک آتا ہے۔ انھوں نے ایک نہیں دو بار آئین توڑا اور پھر گارڈ آف آنرز لے کر لندن اور ابوظہبی میں قابل رشک علاقوں میں بنے فلیٹوں میں رہنے چلے گئے۔ ہمارے کئی اینکرز انھیں اپنے پروگراموں میں لینے کو مرے جاتے ہیں اور اکثر ان کے روشن دماغ سے قوم کو رہ نمائی دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ عبوری حکومت کے قیام کے عین ایک ہفتے بعد پاکستان تشریف لے آئیں گے۔ کم از کم چترال سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ان کی منتظر ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس کے امیدوار بنتے ہیں یا نہیں۔

میرے دل کی بات پوچھیں تو اس ملک کے آیندہ انتخابات کی اصل کلید فخرو بھائی اور ان کے الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں اصل طاقت طالبان کے پاس ہے جن کی جماعت کو ہم میڈیا والے کالعدم کا سابقہ لگا کر بیان کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ترجمان کے ذریعے عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت والی ریاست سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اسفندیار ولی بشیر بلور کی شہادت کے باوجود اس پیشکش کو لینے کے لیے بے چینی سے آگے بڑھے اور ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا ڈالی۔ سید منور حسن اس میں شریک نہ ہوئے اور طالبان نے حقارت سے اس کانفرنس کے اعلامیہ کو ٹھکرادیا۔ پھر میرے بہت ہی زیرک سیاستدان دوست مولانا فضل الرحمٰن آگے بڑھے۔

انھوں نے جو کانفرنس بلائی اس میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے سوا سارے سیاستدان آ گئے۔ ایک اعلامیہ کے ذریعے سب نے طالبان سے گفتگو کے ذریعے ملک میں پھیلی ’’بد امنی‘‘ کا حل ڈھونڈنے کا عہد کیا۔ یہ کانفرنس ’’پری پول رگنگ‘‘ تو نہیں تھی مگر اجتماعی طور پر اس بات کی اجازت ضرور طلب کر رہی تھی کہ آیندہ کے انتخابات خیر و عافیت سے ہونے دیے جائیں۔ رائے عامہ کے مختلف سروے اب کھل کر دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگلی باری نواز شریف کی ہے۔ وہ اب مولانا فضل الرحمٰن کے ا تحادی ہیں اور سید منور حسن کی نیک تمنائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔

طالبان نے تو پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ اگر یہ تینوں حضرات ضامن بنیں تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ نواز شریف صاحب کے تیسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن صاحب کی معاونت سے ملک میں پھیلی ’’بدامنی‘‘ کو ذرا جلدی ختم کر دینا آسان ہو جائے گا۔ مگر نواز شریف صاحب کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے سے پہلے انتخابات کے مراحل سے بھی گزرنا ہے۔ یقیناً انھیں ’’اجازت‘‘ ہو گی کہ وہ پورے پاکستان میں کسی بھی جگہ بڑے بڑے جلسے کرنے کے بعد اپنے امیدواروں کے حق میں تقاریر کر سکیں۔ مولانا اور منور حسن صاحب کی جماعت کو بھی یہ سہولت میسر ہو گی۔

اب ذرا سوچیے آپ خیبر پختون خوا میں رہتے ہیں۔ آپ کی ڈگری اصلی ہے۔ پارسائی کے حامل مسلمان کے لیے آئین کے 62/63 میں دی گئی شرائط پر بھی پورا اترتے ہیں۔ مگر آپ انتخاب لڑنا چاہیں تو عوامی نیشنل پارٹی کی ٹکٹ لینا پسند کریں گے؟ میں تو ہرگز ایسی حماقت نہ کروں۔ اے این پی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑتے ہوئے مجھے کم از کم دو سے تین بلٹ پروف گاڑیاں اپنی اور اپنے حامیوں کی حفاظت کے لیے درکار ہوں گی۔ کم از کم 20/30 پورے اعتماد والے جی دار محافظوں اور ان کے لیے جدید ترین اسلحے کا حصول اپنی جگہ ایک کڑا مسئلہ ہو گا۔

یہ سب انتظام کر بھی لوں تو کیا ضمانت ہے کہ نوشہرہ، چارسدہ یا مردان کے کسی حلقے میں اگر میں کوئی جلسہ کرنا چاہوں تو وہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد اپنی جان پر کھیل کر میری صورت دیکھنے اور تقریر سننے آئے گی۔ لوگ آ بھی جائیں تو ان کی خیر و عافیت سے گھر واپسی کی کیا یقین دہانی ہے؟ میں نے اپنی بات واضح کرنے کے لیے اے این پی کو محض ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ یقینا ایسی ہی صورت اور بہت ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فخرو بھائی کے پاس اس کا کیا حل ہے؟ یقیناً کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔