بلا عنوان

رئیس فاطمہ  اتوار 19 نومبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج کچھ ہلکی پھلکی باتیں ہوجائیں، ایک دولت مند شخص نے اپنے واسطے ایک نہایت خوبصورت مقبرہ اپنی زندگی میں بنوایا، جب مقبرہ تیار ہوگیا تو معمار سے پوچھا ’’اب اس میں کیا چاہیے؟‘‘ معمار نے کہا ’’آپ کا وجود شریف۔‘‘ کسی شہر کے لوگ بارش نہ ہونے سے پریشان تھے۔ انھوں نے ایک مکتب سے کچھ لڑکوں کو ساتھ لیا اور بارش کی دعا مانگنے نکلے۔ کسی راہ گیر نے پوچھا کہ ’’مکتب کے لڑکوں کو کہاں لے جاتے ہو؟‘‘ جو شخص لڑکوں کو لے کر جا رہا تھا اس نے جواب دیا کہ ’’بچوں کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اس لیے ان لڑکوں کو لے کر جا رہا ہوں تاکہ یہ دعا مانگیں اور پانی برسے‘‘ اس راہ گیر نے جواب دیا ’’اگر لڑکوں کی دعا قبول ہوتی تو آج ایک بھی معلم زندہ نہ ہوتا۔ ‘‘

ایک درویش نے اپنے مرشد سے کہاکہ ’’لوگوں کے ہجوم سے تنگ آگیا ہوں، وہ میری صحبت میں بیٹھنے کو اور مجھے دیکھنے کو بہت زیادہ آتے ہیں۔ ان کی بے جا آمدورفت سے میری عبادت اور روزوشب کے کاموں میں بڑا خلل پڑتا ہے۔ میں انھیں منع بھی نہیں کرسکتا کہ ان کی دل آزاری ہوگی،کوئی ایسی ترکیب بتایئے کہ ان کی آمد و رفت کچھ کم ہوجائے تاکہ میں معمولات زندگی احسن طریقے سے ادا کرسکوں اور عبادت کے لیے وقت نکال سکوں‘‘ مرشد نے کہا ’’ ایسا کرو کہ تم سے ملنے آنے والوں میں جو مفلس اور نادار ہیں انھیں کچھ قرض دے دو اور جو امیر ہیں ان سے کچھ قرض یا ہدیہ مانگ لو اس کے بعد تیرے پاس کوئی نہیں آئے گا۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام بغیر مہمان کبھی کھانا نہیں کھاتے تھے۔ کوئی نہ کوئی فرد ضرورت دسترخوان پر ان کا مہمان بنتا تھا۔ ایک دفعہ ایک آتش پرست ان کا مہمان بنا، کھانا کھانے سے پہلے اس نے بسم اللہ نہ پڑھی تو آپ اس پر سخت ناراض ہوئے۔ غیب سے ندا آئی کہ ’’اے ابراہیمؑ ہم اس قدر عرصہ دراز سے بے شمار مخلوق کو بلا امتیاز عوض وکافر رزق عطا کررہے ہیں، خواہ وہ ہمیں یاد کرے یا نہ کرے اور تم صرف ایک غلطی پر ناراض ہو بیٹھے جب کہ تم رازق نہیں ہو اور صرف ایک وقت کا کھانا کھلانے پر ناراض ہوتے ہو۔‘‘

ایک جوان ہمیشہ صوفیائے کرام کی مخالفت کرتا تھا اور ان کی ہر بات سے منکر تھا۔ ایک دفعہ حضرت ذوالنون نے اسے ایک انگوٹھی دی اور کہاکہ وہ اسے نانبائی کے پاس لے جائے اور ایک دینار کے عوض گروی رکھ دے، وہ جوان اسے انگشتری کو نانبائی کے پاس لے گیا اور مدعا بیان کیا، نانبائی نے کہاکہ وہ اس انگوٹھی کے ایک درہم سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ وہ واپس حضرت ذوالنون کے پاس آیا اور ماجرا بیان کیا، انھوں نے کہاکہ اب وہ صراف کے پاس جائے اور انگوٹھی کی قیمت دریافت کرے۔

نوجوان صراف کے پاس پہنچا اور انگوٹھی کی قیمت دریافت کی تو صراف نے اس کی قیمت ایک ہزار دینار بتائی۔ وہ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور صراف کا جواب بتایا تو حضرت نے فرمایا ’’تیرا علم صوفیائے کرام کے متعلق ایسا ہی ہے جیسا نانبائی کا انگوٹھی کے متعلق‘‘ یہ سن کو نوجوان بہت شرمندہ ہوا اور حضرت کا مرید ہوگیا۔ ہمارے ہاں بھی مزارات اور صوفیائے کرام سے متعلق بہت سوں کا علم نانبائی کے علم جیسا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ حد درجہ کے متقی تھے۔ ایک سال جب آپؒ حج سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر کے لیے حرم شریف میں سوگئے، آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اور ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ ’’امسال کتنے لوگ حج کو آئے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا ’’چھ لاکھ‘‘ پھر اس نے پوچھا ’’کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا؟‘‘ جواب ملا ’’کسی کا بھی حج قبول نہیں ہوا سوائے دمشق کے اس موچی کے جس کا نام علی ابن الموفق ہے وہ حج کو نہیں آیا اس کا حج قبول ہے اور اس کے طفیل اللہ نے سب کو بخش دیا‘‘ حضرت خواب سے بیدار ہوئے تو بہت پریشان ہوئے کہ لوگ جانے کن کن کٹھنائیوں، مصیبتوں، صحراؤں اور بیابانوں سے چل کر حج کے لیے آتے ہیں لیکن ان کا حج قبول نہیں ہوا اور دمشق کے اس موچی کا کیونکر ہوگیا جو حج کے لیے آیا بھی نہیں۔

یہ سوچ کر انھوں نے دمشق جانے کا ارادہ کیااور بڑی مشکلوں سے گھر ڈھونڈ کر موچی کے دروازے پر پہنچے اور اپنا تعارف کرایا اور اس کے نام کی تصدیق کی، موچی انھیں عزت سے گھر لے گیا اور آنے کا سبب پوچھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے تفصیل سے اسے اپنا خواب سنایا۔ موچی حضرت عبداللہ کی شہرت اور نام سے واقف تھا اس نے دو زانوں ہوکر آپ کو تعظیم دی اور بتایاکہ وہ تیس سال سے حج کا آرزومند تھا، تھوڑا تھوڑا جمع کرتے کرتے تین ہزار درہم جمع کیے اور اس سال حج کا ارادہ کیا۔

ایک دن میری بیوی نے جو حاملہ تھی مجھ سے کہاکہ پڑوس کے گھر سے گوشت پکنے کی خوشبو آرہی ہے۔ تم جاؤ تھوڑا سا میرے لیے مانگ لاؤ۔ میں پڑوسی کے گھر گیا اور مدعا بیان کیا تو اس نے نہایت عاجزی سے کہا ’’تین دن اور تین راتوں سے میرے بیوی بچوں نے کچھ نہیں کھایا ہے۔ آج اتفاق سے ایک مردار گدھا دیکھا تو اس سے ایک ٹکڑا گوشت کا کاٹ کر لے آیا تاکہ بچوں کا پیٹ بھرسکوں‘‘ وہی طعام پک رہا ہے۔ لیکن میں آپ کو وہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے‘‘ جب میں نے یہ سنا تو بہت نادم ہوا کہ پڑوسی اور اس کے بچے تین دن کے فاقے سے ہیں اور میں تین ہزار درہم گھر میں رکھے بیٹھا ہوں۔ فوراً گھر آیا اور تمام رقم نکال کر پڑوسی کو دی کہ اس سے بال بچوں کا گزارہ کرو۔ میرے نصیب میں ہوگا تو پھر حج کے لیے جمع کرلوںگا‘‘ حضرتؒ نے جب یہ ماجرا سنا تو موچی کو مبارکباد دی اور فرمایا ’’نیتوں کا حال خدا جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی تم پر خاص عنایت ہے کہ بغیر حج کے جائے تمہارا حج اللہ نے قبول کیا‘‘ یہ کہا اور رخصت ہونے لگے تو موچی نے ان کے ہاتھ چومے اور بولا ’’میری یہ خوش نصیبی کہ آپ جیسے اللہ والے بزرگ نے مجھے یہ خوش خبری سنائی، ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا‘‘۔

سکندر اعظم نے آدھی دنیا جوانی میں فتح کرلی تھی اور کہتا تھا میں ملک الموت کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور سوچتاہوں کہ کیا اس دن کے لیے میں نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، ہزاروں بچوں کو یتیم کیا، عورتوں کو بیوہ کیا، خون بہایا اور دنیا کوکس قدر زیروزبر کیا۔ آج میں کیا لے کے جارہاہوں؟

افسوس کہ زندگانی کا وہ سکھ اور سکون حاصل نہ کرسکا جو ایک معمولی انسان کو بھی حاصل ہے۔ اچھا ہوا کہ میں دنیا کو فتح نہ کرسکا، اگر میں دنیا فتح کرلیتا تو اس سے زیادہ کچھ نہ حاصل ہوتا کہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرکے دنیا سے جاتا۔ مزید لوگوں کی جان سے کھیلتا۔ فتح کے جنون میں بستیاں ویران کرتا۔ آج میرے پاس افسوس کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے فوجی لباس میں ہی دفن کرنا کیونکہ میں صرف ایک سپاہی ہوں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔