ماضی کا سفر، سوسال کی کہانی

اسلم خان  جمعـء 8 مارچ 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

بحرانوں کا شکار یہ دنیا، 20 ویں صدی میں کیسے ہنگامہ خیز مراحل سے گزری، دو عالمی جنگیں 6 سلطنتوں کی تباہی، نظریاتی آویزشیں اور اعصاب شکن سرد جنگ، بوڑھے آسمان نے کیا کچھ نہ دیکھا۔جب گزشتہ صدی کے آخری لمحات پر چنداں سکون اور استحکام نصیب ہوا تو اچانک 9/11 کا سانحہ رونما ہو گیا جس نے ایک بار پھر مہذب دنیا کی ساخت کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔آئیے 20 ویں صدی کا (2) دہائیوں میں منقسم 5 حصوں کا سفر کریں جس سے صرف ایک حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ تمام انسانی دانش، عقل اور فلسفہ مستقبل کی پیش بینی میں بری طرح ناکام ہو گئی تھی۔

لندن 1900ء موسم گرما

خواب خیال میں 1900ء کے لندن کا تصور کیجیے، جو اس وقت دنیا کا دارالحکومت تھا، دنیا جہان پر اس شہر بے مثال سے حکمرانی کی جا رہی تھی، یورپ خطۂ جنت کا منظر پیش کر رہا تھا، ہر طرف خوشحالی اور شادابی تھی، یورپ کے مرغزار اپنی خیرہ کن خوبصورتی سے سحر طاری کر رہے تھے، تجارت اور سرمایہ کاری نے سارے یورپ کو باہم ہم آہنگ کر کے جزولاینفک بنا دیا تھا، جنگ اور اس کی تباہ کاریوں کا دور دور تک شائبہ یا اندیشہ ہائے دور دراز نہ تھا۔

مستقبل کے منظر نامے میں سدا بہار اور شاداب یورپ، خوشحال اور امن کا مرقع بنا ہوا تھا جس نے دنیا کے دور دراز خطوں پر لامتناہی حکمرانی کرنا تھی۔ اس وقت کے عالی دماغ یورپی دانشور کسی تنازعے پر لڑائی کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے، بہت ہی محتاط دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر کوئی چھوٹا موٹا تنازعہ اٹھ کھڑا بھی ہوا تو چند دنوں میں ختم ہو جائے گا کہ یورپ میں بروئے کار عالمی سرمایہ کاری مارکیٹ دبائو اور تنائو برداشت نہیں کر سکتی لیکن صرف دو دہائیوں میں ایسی قیامت آئی کہ یورپ کاغذی پرزوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ صرف 20 سال بعد کے یورپ کا تصور کیجیے۔

1920ء موسم گرما

المناک اور تباہ کن جنگ کے بعد مستحکم اور خوشحال یورپ کے پرزے پرزے ہوچکے ہیں۔ چار بڑی یورپی سلطنتیں آسٹرو ہنگرین، رشیا، جرمنی اور خلافت عثمانیہ ہولناک جنگ کی نذر ہو گئے۔ یہ ہولناک جنگ امریکی فوجی مداخلت کے بعد ختم ہوئی۔ لاکھوں امریکی فوجی برق رفتاری سے آئے اور باہم گتھم گتھا مختلف یورپی افواج کو علیحدہ کر کے اسی رفتار سے واپس چلے گئے۔ روس پر اشتراکی قابض ہو گئے، کمیونزم عالمی منظر پر جاہ و جلال سے ابھرا۔ اسی طرح یورپی طاقت کے قریبی ہمسائے امریکا اور جاپان عظیم الشان معاشی، اقتصادی اور جنگی طاقت بن کر ابھرے۔ معاہدہ امن کی بنیادی شرط جرمنی کو مستقبل قریب میں متحد نہ ہونے دینا تھا۔ اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ جرمنی کو کسی صورت متحد نہیں ہونے دیا جائے گا۔

برلن، 1940ء موسم گرما

اب ذرا غور کیجیے تمام تر عالمی کوششوں اور ضمانتوں کے باوجود جرمنی نا صرف متحد ہو چکا ہے بلکہ ہٹلر کی فوجوں نے فرانس کو چشم زدن روند چکی ہیں اور یورپ نازی جرمنی کے تسلط اپنے اور شکنجۂ استبداد میں جکڑا جا چکا ہے۔ روس میں کمیونزم نے بقا کی جنگ جیت لی تھی اور سوویت یونین کے نام سے عالمی طاقت منظر نامے پر ابھر آئی تھی۔ جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فطری اتحادی نازی جرمنی کی اتحادی تھی۔

صرف جمہوری اقدار کا حامل برطانیہ، فاشسٹ نازی جرمنی اور اشتراکی سوویت یونین کے مد مقابل کھڑا تھا، عام طور پر کسی نئی جنگ کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اگر ہزار سال کے لیے نہیں تو کم از کم ایک صدی کے لیے تو یورپ کے مقدر کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اب ہٹلر یورپ کا وارث اور ماضی کی رفیع الشان یورپی سلطنت کا جائز اور قانونی وارث بن چکا تھا۔اس وقت دوسری عالمی جنگ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہی تھی لیکن معتبر تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو اس کا احساس تک نہیں تھا۔

ماسکو‘ 1960ء موسم گرما:

جرمنی تباہ و برباد ہو چکا‘ ہٹلر کو عبرت ناک شکست کے بعد خود کشی کرنا پڑی‘ امریکا اور سوویت یونین نے باہم اتفاق رائے سے یورپ کو عین وسط سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘ یورپ غلام ہو چکا، اب امریکا اور سوویت یونین یورپ میں اپنے اپنے جانشین ڈھونڈنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ سوویت یونین اور امریکا نے یورپ کا ہلاکت آفرین ایٹمی ہتھیاروں سے محاصرہ کر لیا تھا جو چند گھنٹوں میں تہذیب و تمدن کا مرکز یورپی شہروں کو بھاپ کی طرح تحلیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

اس بحران میں امریکا طاقتور عالمی طاقت بن کر ابھرا جس کی تمام سمندروں اور بحری راستوں پر مکمل اجارہ داری تھی اور وہ انھی ایٹمی آبدوزوں اور بحری طاقت کی وجہ سے ساری دنیا کو احکامات دے رہا تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ اعصاب شکن سرد جنگ کا دور شروع ہوا۔ جب ہر لمحے جنگ کے سایے سروں پر منڈلاتے رہتے تھے جب کہ چیئرمین مائو کا چین بھی ابھرتی ہوئی ایٹمی طاقت کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی علامت امریکا کو دہشت زدہ کیے ہوئے تھا کہ مائو کا سوشلزم یک رخے پن اور سخت گیری کی وجہ سے زیادہ ہراس کر رہا تھا۔

بنکاک‘ 1980ء موسم گرما

80ء کی طلاطم خیز دہائی کا تصور کیجیے‘ طاقتور امریکا کو سات سال کی طویل جنگ کے بعد شکست فاش ہو چکی۔ مقابلہ ہم پلہ سوویت یونین سے نہیں تھا۔ امریکی افواج قاہرہ کے مقابل‘ نہتے اور بے آسرا ویت کانگ گوریلے تھے شمالی ویت نامی عوام نے اپنے جذبہ حریت اور لازوال قربانیوں کے سہارے برتر امریکی افواج کا منہ موڑ کر رکھ دیا تھا۔ امریکی لہو لہان انا کے ساتھ ذلیل و خوار ہو کر ویت نام سے پسپا ہو رہے تھے امریکیوں کے لیے ذلت کا سفر تمام نہیں ہوا تھا اب انھیں بعد از خرابی بسیار تہران سے بھی بھاگنا پڑا۔ تیل کی دولت سے مالا مال ایران۔ اب ملائوں کے قبضے میں تھا سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور سرخ فوج کی پیش قدمی روکنے کے لیے امریکا کو چار و ناچار چیئرمین مائو کے قدموں میں جھکنا پڑا۔ اسلام آباد کے راستے بیجنگ کا سفر ہنری کسنجر نے شروع کیا تھا۔

کابل‘ 2000ء موسم گرما

افغانستان میں لاحاصل لڑائی کے بعد سوویت یونین کب کا ختم ہو چکا، اشتراکی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی، اس کے بطن سے درجنوں خود مختار ریاستیں معرض وجود میں آ چکیں۔ چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے، وہ اب بھی نام کا سوشلسٹ چین ہے لیکن عملاً سرمایہ دارانہ طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ نیٹو کا دائرہ کار مشرقی یورپ سے ہوتا ہوا آنجہانی سوویت یونین کے دروازے پر دستک دے رہا ہے کہ مقابل وارسا پیکٹ‘ لاوارث قرار دے کر دفن کیا جا چکا۔ 20 ویں صدی کے اس جاں لیوا اور ہنگامہ خیز سفر کے بعد دنیا ایک بار پھر امن و امان کا گہوارہ بن چکی تھی۔ خوشحالی کا دور دورہ تھا۔

فکر و عمل کا مہتاب اپنی کرنوں سے دنیا کو منور کر رہا تھا، روشن مستقبل کے تصور نے ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ سیاسی‘ نظریاتی اور جغرافیائی ترجیحات کی حیثیت ثانوی ہو چکی تھی۔ اقتصادی اور معاشی ترجیحات اور جمہوریت کو کامل فتح نصیب ہوئی تھی، اس دنیا کو صرف چند چھوٹے موٹے علاقائی مسائل کا سامنا تھا۔ ہیٹی‘ کوسوو‘ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات سے امن عالم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا کہ 9/11۔  9ستمبر2011ء آ گیا‘ ایسا سانحہ‘ جس نے دنیا کا معاشی‘ سماجی اور سیاسی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اس بار مہذہب دنیا کی لڑائی گوریلوں سے نہیں‘ نظریات اور سایوں سے ہے، یہ سفر جاری ہے، یہ جنگ جاری ہے ،یہ نظریات نہیں تہذیبوں کی جنگ ہے، طرز زندگی کا تنازعہ ہے۔

مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام ایک دوسرے میں یوںپیوست ہو چکے ہیں کہ دونوں کی الگ الگ شناخت ختم ہو گئی ہے‘ اب کیپٹل ازم کی مخالفت کو مغربی کلچر کی مخالفت سمجھا جاتا ہے۔ مغربی کلچر کے خلاف بات ہوتو اسے کیپٹل ازم کے خلاف بغاوت ٹھہرایا جاتا ہے‘ نائن الیون کا سانحہ تو تہذیبو ں کی جنگ کی شروعات ہے‘ ابھی تو آخری یدھ برپا ہونا ہے‘ پھر پتہ چلے گا کہ کون جیتا اور کون ہاراہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے زوال کو فرانسس فوکویاما نے ’’اینڈ آف ہسٹری ‘‘ کہتے ہوئے کیپٹل ازم کو فتح یاب قرار دیاتھا لیکن میں کہتا ہوں ‘یہ تاریخ کا اختتام نہیں بلکہ اس کا آغاز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔