زیادتی کے بعد قتل؛ شیطان کے چیلے دو بھائیوں نے 7 سالہ ’’پھول‘‘ کو مسل دیا

سید مشرف شاہ  اتوار 19 نومبر 2017
ملزم کے گھروالوں نے گناہ چھپانے میں مدد کی، شک پر پولیس نے دھر لیا ۔ فوٹو: فائل

ملزم کے گھروالوں نے گناہ چھپانے میں مدد کی، شک پر پولیس نے دھر لیا ۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے اپنا نائب قرار دیا لیکن یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس اہم ترین منصب کو ٹھکرا کر حیوانیت کی سطح پر اتر آتا ہے۔ انسانی تاریخ میں جہاں دوسروں کے لئے قربانی دیتے ہوئے اپنے آپ کا خاکستر کر دینے کی ان گنت مثالیں موجود ہیں، وہیں شیطان کا آلہ کار بن کرنفس کا غلام بننے کی بھی لاتعداد واقعات موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر معمولی جرائم تو ہوتے رہتے ہیں اور ایسے افراد سے قانون کے مطابق نمٹا بھی جاتا ہے لیکن بعض اوقات یہی انسان ایسے سفلی کام بھی کرنے لگتا ہے کہ خود شیطان بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہو گا۔ ایسا ہی ایک واقعہ لاہور میں سبزہ زار کے علاقہ میں پیش آیا، جس میں دو بھائیوں نے ایسا بھیانک جرم کیا کہ اس کی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں۔

لاہور کے علاقہ سبزہ زار سے ایک سات سالہ پھول سی بچی اچانک غائب ہو گئی۔ بچی کے گھر والوں نے پہلے تو اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن جب انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور بچی کہیں نہ ملی تووہ پولیس اسٹیشن چلے آئے۔ بچی کے گھر والوں کی جانب سے تھانہ سبزہ زار کو درخواست موصول ہوئی کہ 7 سالہ بچی پھول دوپہر 2 بجے کے قریب اچانک غائب ہوگئی، جس پر پولیس نے کارروائی شروع کر دی۔ دوسری جانب جیسے ہی سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) امین وینس کو بچی کی گمشدگی یا مبینہ اغوا کی خبر ملی تو انہوں نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری ایکشن کا حکم جاری کر دیا۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف نے لاہور پولیس کے سربراہ کے احکامات پر ایس پی صدر رضوان عمر گوندل اور ڈی ایس پی سبزہ زار سرکل عمران کرامت بخاری کو معاملہ کی تفتیش اور نگرانی کرنے کی ہدایت کردی۔ ایس پی صدر رضوان عمر گوندل اور ان کی ٹیم نے اس حوالے سے سائنٹیفک بنیادوں پر تفتیش کا آغاز کیا تو اس کیس کا کھرا بچی کے محلے دار دو بھائیوں عرفان اور رضوان کی جانب جاتا نظر آیا، جس پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

اسی دوران بچی کی نعش جناح اسپتال کے قریب سے مل گئی۔ پولیس تفتیش کے دوران ملزم رضوان نے اقبالِ جرم کر لیا اور بتایا کہ اُس نے اور اُس کے بھائی عرفان نے اپنے ہی گھر میں سات سالہ معصوم بچی پھول کو زیادتی کے بعد قتل کرکے اُس کی نعش کو پلنگ کے نیچے چھپا دیا تھا۔ اس وقت ملزمان کے والدین گھر نہیں تھے لیکن جب وہ گھر آئے تو ملزمان نے انہیں اس قتل سے آگاہ کر دیا۔ ملزمان کے والدین اس قتل کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بچی کی نعش جناح ہسپتال کے قریب پھینک آئے۔ پولیس نے ملزم کے اعترافی بیان کے بعد اس کی والدہ کو بھی حراست میں لے لیا جس نے دوران تفتیش اقبال جرم کر لیا۔ پولیس کی جانب سے کارروائی کرتے ہوئے اس معصوم بچی کی نعش کو میو ہسپتال پوسٹ مارٹم کیلئے منتقل کیا گیا اور بعد ازاں ضروری کارروائی کر کے دفنا دیا گیا۔ بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی زیادتی اور قتل کے شواہد ملے تھے۔

پولیس نے بظاہر تو ملزمان کوفوری طور پر ٹریس آؤٹ کر کے گرفتار کر لیا ہے اور ان کے اعترافی بیانات کے ساتھ ساتھ پوسٹ مارٹم رپورٹ سمیت تمام شواہد ان کے خلاف جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کوئی انسان اس حد تک شیطان کی غلامی قبول کرتے ہوئے اپنے نفس کا اسیر کیسے بن جاتا ہے؟ ہمیں اس کے نفسیاتی پہلوؤں کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کون سا زہر پھیل رہا ہے جو ہمارے نوجوانوں کو خیر و شر کا فرق بھلا نے پر مجبور کر رہا ہے ۔ جب ایک ماں اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اسے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر جلد ہی اسے ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جب قتل اور زیادتی جیسے بھیانک جرائم پر بھی پردہ ڈالنا پڑتا ہے ۔ ون ویلنگ کے خونی کھیل میں ملوث بچوں کے ماں باپ اگر ان کی حرکات پر نظر رکھیں تو کوئی ون ویلر پیدا نہ ہو، لیکن افسوس آج ماں باپ اور معاشرہ اپنا وہ کردار فراموش کر چکا ہے جو کبھی ہمارا خاصا تھا۔ ان ملزمان کی والدہ کو اپنے بچوں کے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے لاش ٹھکانے لگانے کی تدبیر تو سوجھ گئی لیکن ایک بار بھی معصوم پھول کے والدین کی اذیت کا احساس نہ ہوا ۔

ہمیں یہاں لاہور پولیس کے سربراہ کیپٹن (ر) امین وینس ، ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور ایس پی صدر رضوان عمر گوندل کی بھی کھلے دل سے تعریف کرنی چاہئے جنہوں نے ایک ایسا قتل ریکارڈ مدت میں ٹریس آؤٹ کر لیا جس طرح کے قتل عموماً فائلوں پر گرد جمنے تک ٹریس آؤٹ نہیں ہو پاتے۔ اس حوالے سے سی سی پی او لاہور کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جو لاہور کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اس قدر حساس افسر سمجھے جاتے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کی خبر ملتے ہی فوری طور پر اس کے بارے میں ہدایات دیتے ہیں اور افسران سے صرف جلد از جلد رپورٹ طلب کر نے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کا فالو اپ بھی رکھتے ہیں، جس سے نچلی سطح پر کام کرنے والے اہلکار بھی متحرک ہو جاتے ہیں اور پھر مثبت نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔