یاد صاحب کی یاد

تنویر قیصر شاہد  پير 20 نومبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جن ذی وقار لوگوں نے کسی نہ کسی شکل میں اُردو ادب کی خدمت میں اخلاص اور محبت کا مظاہرہ کیا، ایک ایک کرکے جہانِ فانی سے اُٹھتے جاتے ہیں۔ اور وہ بلند حوصلہ لوگ جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں دامے درمے حصہ لیا اور اپنی اپنی جنم بھومیاں ترک کرکے ہجرت کے عذاب سہے، وہ بھی اب عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ پروفیسر سیدمشکور حسین یاد صاحب اِنہی لوگوں میں ممتاز اورمعروف تھے جن کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ افسوس، وہ بھی اب گزر گئے۔

بعض اخبارات نے وفات کی خبر شایع کرتے ہُوئے قارئین کو یوں بتایا: ’’میاں محمد نواز شریف کے استاد مشکور حسین یاد انتقال کر گئے۔‘‘ بس اتنا ہی؟ کیا پروفیسر مشکور حسین یاد صاحب کا بس یہی تعارف رہ گیا تھا؟ یاد صاحب نامور ادیب، مزاح نگار اور شاعر تھے۔ اُردو ادب میں ’’انشائیہ‘‘  اُنہی کی ایجاد ہے۔ اِس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے اور ڈاکٹر وزیر آغا کو اُردو میں ’’انشائیہ‘‘کا موجد تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکاری رہے۔ شاعر بھی باکمال تھے۔ کئی شاندار کتابوں کے مصنف بھی، ایسی کتابیں جن میں ہجرت کے خوں رنگ تجربات اور مشاہدات ہیں۔

دنیا سے رخصت ہُوئے ہیں تو اُن کا تعارف محض یہ رہ گیا تھا کہ وہ جناب نواز شریف کے استادِ مکرم تھے؟کیا یہ تعارف یاد صاحب کے لیے باعثِ اعزاز تھا یا نواز شریف کے لیے باعثِ فخر؟ ہمارے ہاں تو ایسے بھی کئی ادیب اور شاعر تھے جو یاد صاحب سے اس لیے بھی حسد کرتے تھے کہ وہ نوازشریف کے استاد کے طور پر کیوں جانے جاتے ہیں۔

’’آزادی کے چراغ‘‘ اور ’’ستارے چہچہاتے ہیں‘‘ جناب مشکور حسین یاد کی زندہ رہنے والی کتابیں ہیں۔ یہ دونوں تصنیفات اُن کے ایک عظیم ادیب ہونے کی ہمیشہ یاددلاتی رہیں گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ’’آزادی کے چراغ‘‘ میں تو یاد صاحب نے اپنے لہو کے چراغ روشن کیے ہیں۔ جہاں جہاں آزادیِ پاکستان اور چودہ اگست کی بات ہوگی، یاد صاحب کی یادوںاور قلم کے چراغ وہاں وہاں روشن ہوتے رہیں گے۔اوائلِ عمر ہی میں ہم نے تویہ کتابیں پڑھ لی تھیں۔

اُردو ڈائجسٹ سے وابستگی کے ایام میں جب پہلی بار یاد صاحب سے ملاقات ہُوئی تو ہم نے نہائت حیرت، عقیدت اور مسرت سے دونوں ہاتھوں سے اُن کے ساتھ مصافحہ کیا تھا۔ اُن دنوں اُردو ڈائجسٹ کا مرکزی دفتر سمن آباد لاہور میں ہوتا تھا۔ البیلے رومانوی افسانہ نگار جناب اے حمید بھی اُن دنوں سمن آباد میں رہائش پذیر تھے اور ہم شوق و شدت سے اُن کے گھر بھی حاضری دیتے تھے۔ یاد صاحب بھی سمن آباد ہی میں رہتے تھے۔ اکثر اُردو ڈائجسٹ تشریف لاتے اور جناب الطاف حسن قریشی اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کے کمرے میں ملتے۔ کبھی کبھار میرے کمرے کو بھی شرف بخشتے۔

سردیوں کے موسم میں مَیں نے انھیں اکثر خوبصورت انداز میں سِلے سُوٹ میں دیکھا۔پہلی ملاقات ہُوئی تو اُس روز وہ شلوار قمیض میں ملبوس تھے کہ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ عرض کیا:سر، مَیں نے ’’آزادی کے چراغ‘‘ تو کئی بار پڑھی ہے۔ فوراً ہی ایک استاد کی مانند امتحان لینے پر اُتر آئے۔ کتاب مذکور کے حوالے سے تین چار سوالات پوچھے۔ جب درست جواب دیے تو ایک نہائت اطمینان بخش مسرت کی لہر اُن کے کلین شیوڈ چہرے پر پھیل گئی تھی۔ موٹے عدسے کی عینک کے پیچھے اُن کی ذہین آنکھیں بھی خوشی میں جگمگا اُٹھی تھیں۔ اس کے بعد اُن کے ساتھ ہماری پکی دوستی ہو گئی۔

اُردو کے نہایت محترم اور درویش منش شاعر جناب یزدانی جالندھری، جو باکمال نعت نگار بھی تھے اور غزل گو بھی، کے سامنے بیٹھنے اور اُن سے اصلاح لینے کا مجھے شرف حاصل ہے۔ وہ چین اسموکر تھے اور سیگریٹ کے دھوئیں سے میرا دَم گھُٹتا تھا لیکن ادب کے مارے یہ جرأت بھی نہیں ہوتی تھی کہ اُن سے سیگریٹ نہ سلگانے کی درخواست کی جاسکتی۔ مشکور حسین یاد ہمارے کمرے میں تشریف لاتے تو یزدانی جالندھری صاحب سے اُن کی خوب نوک جھونک ہوتی۔

وہ سب سے پہلے اُن کی سیگریٹ نوشی بند کرواتے اور پھرمسکراتے ہُوئے پنجابی میں کہتے: ہُن دسّو!! تقسیم سے قبل یزدانی صاحب بمبئی کی فلمی دنیا کا بھی اہم نام رہے تھے۔ کئی فلموں کے لیے گانے لکھے۔ وہ (سعادت حسن) منٹو کے بھی دوست تھے اور منٹو نورجہاں کے دوست تھے۔ یاد صاحب ہمارے کمرے میں آتے تو یزدانی صاحب سے فرمائش کرتے:’’یزدانی صاحب، نور جہاں اُن دنوں کیسی دِکھتی تھی؟ منٹو کا اُس کے ساتھ کیا چکر تھا؟‘‘یزدانی جالندھری صاحب بڑے شرمیلے اور شریف النفس انسان تھے۔

یاد صاحب کی فرمائش کم کم ہی پوری کر پاتے، البتہ منٹو کی افسانہ نگاری پر خوب بولتے۔ یاد صاحب کی موجودگی میں یزدانی جالندھری صاحب، خدا انھیں غریقِ رحمت کرے، ہی سے ہم منٹو کے کئی افسانوں کی ’’شانِ نزول‘‘ بھی سمجھ پائے۔ اُردو ڈائجسٹ کے سالنامہ میں یاد صاحب کی کوئی نہ کوئی خصوصی تحریر ضرور شامل ہوتی۔ جناب الطاف حسن قریشی مسکراتے ہُوئے فرمائش کرتے تو یاد صاحب انکار نہ کر پاتے۔’’آزادی کے چراغ‘‘ بھی تو قسط وار اُردو ڈائجسٹ ہی میں شایع ہُوئے تھے، جسے بعد ازاں کتابی شکل دی گئی۔

پروفیسر مشکور حسین یاد صاحب عینک کے عقب سے مسکراتی ہُوئی آنکھوں کے ساتھ چبھتی اور طنزیہ گفتگو کے ماہر تھے۔ معاصرین پر تنقید کرتے اور معاصرین کی تنقید برداشت بھی کرتے۔ ایک بار مگر مَیں نے انھیں، تنقید کی بِنا ہی پر، غصے سے لال بھبھوکا ہوتے بھی دیکھا۔جناب محمد صلاح الدین کے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ میں شایع ہونے والا ایک کالم اِس کا سبب تھا۔

اُردو ادب کے نامور نقاد اور محقق جناب مشفق خواجہ، جو ’’خامہ بگوش‘‘ کے قلمی نام سے ’’تکبیر‘‘ میں لکھتے تھے اور اُن کا یہ ادبی کالم بے تحاشہ پڑھا جاتا تھا، نے یاد صاحب کی شایع ہونے والی نئی کتاب’’ستارے چہچہاتے ہیں‘‘ پر تبصرہ کیاتھا۔ خامہ بگوش کے کتابوں پر لکھے گئے تبصرے(Reviews)بہت مقبول تھے۔ تبصرے کے لبادے میں وہ اکثر ادیبوں اور دیگر مصنفین کو تقریباً ’’ذبح‘‘ ہی کردیتے تھے۔ ’’ستارے چہچہاتے ہیں‘‘ پر بھی انھوں نے ایسا بے رحم ریویو لکھا کہ یاد صاحب تڑپ کر رہ گئے۔ اُن دنوں راقم ویکلی ’’زندگی‘‘ سے وابستہ تھا۔

جمعہ کی شام یاد صاحب میرے دفتر تشریف لاتے تھے اور جمعہ کی دوپہر ’’تکبیر‘‘ بھی مارکیٹ میں آجاتا تھا۔ مَیں نے یاد صاحب سے اُس شام دانستہ خامہ بگوش کے تبصرے کا ذکر کیا (جس کی شہرت شہر بھر کے ادبی حلقوں میں پھیل چکی تھی) تو وہ پھٹ پڑے اور اُن کی بزرگی اور مرتبے کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ میرے لیے اُن کی شخصیت کا یہ غضبناک پہلو اِس سے پہلے پوشیدہ تھا؛ چنانچہ مَیں تو اُن کا طیش دیکھ کر دَنگ رہ گیا۔ میرے احتجاج پر ، بہرحال، انھوں نے دوتین دن بعد معذرت کی کہ غصے میں وہ متشددانہ الفاظ ادا کرنے سے اعراض برتنا چاہیے تھا۔

یاد صاحب کے غصے سے وابستہ ایک اور منظر ذہن کے پردے پر طلوع ہوتا ہے: ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ (جس کے مدیرِ اعلیٰ جناب مجیب الرحمن شامی تھے اور اب بھی ہیں) میں محترمہ توراکینہ قاضی کی ایک طویل کہانی سقوطِ بغداد کے موضوع پر شایع ہُوئی۔ کہانی میں بتایا گیا تھا کہ آخری عباسی خلفاء کے دَور میں جب جنگجو اور وحشی منگولوں نے بغداد کا محاصرہ کیا تو اُس وقت پسِ فصیلِ شہر  علمائے اسلام کس اسلوب میں اپنے اپنے مسلک کی جنگیں لڑ رہے تھے اور انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ منگول عنقریب انھیں تہس نہس کر دیں گے۔ کہانی کے مرکزی خیال کی وجہ سے شائد یاد صاحب کے مسلکی جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔

ایک روز میرے دفتر تشریف لائے تو مُوڈ خراب تھا۔ استفسار کیا تو غصے سے فرمایا:’’تمہیں توراکینہ قاضی کی کہانی شایع نہیں کرنی چاہیے تھی۔اِس میںفرقہ واریت کو ہوا دی گئی ہے۔‘‘ پھر عینک کے پیچھے اُن کی مسکراتی ہُوئی، شرارتی آنکھیں دمک اُٹھیں اورکہانی کار کے نام کے حوالے سے ایسا طنز کیا کہ مَیں تو ششدر رہ گیا۔ ایسا باریک طنز کرنے والے پروفیسر سید مشکور حسین یا د صاحب اب کہیں نہیں ملیں گے۔ کہیں نہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔